دو دن پہلے ایک بہت دلچسپ خودنوشت پڑھنے کو ملی۔ یہ سابق بیوروکریٹ طارق محمود کی یاداشتوں پر مبنی کتاب "دام خیال "ہے۔ اس کتاب نے سحرزدہ کر دیا۔ کئی گھنٹے اسی کتاب کی نذر ہوئے، ایک سرشاری کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔
میرا کتابوں کے معاملہ میں بڑا سیدھا سا اصول ہے کہ جو بھی ہاتھ لگے، اسے پڑھنا شروع کر دیتا ہوں۔ دیانت داری سے ہر کتاب کوکچھ وقت دیتا ہوں، چند منٹ سے ایک گھنٹے تک۔ ایک فیئر چانس۔ اس میں وہ توجہ کھینچ لے تو اسے نمٹا کر ہی کسی اور طرف دیکھتے ہیں، ورنہ اتنے سے وقت میں جتنا پڑھ سکا، باقی رہ گیا۔
فکشن کی حد تک تو ایسے کام چل جاتا ہے۔ نان فکشن کو البتہ مختلف نشستوں میں پڑھنا پڑتا ہے، خاص کر انگریزی کتب کو۔ فکشن کی بھی بعض ضخیم کتابیں ایک سے زائد نشستوں کی متقاضی ہوتی ہیں، جیسے وار اینڈ پیس، جرم وسزا، موبی ڈک وغیرہ۔ چند ماہ پہلے شولوخوف کے ناول "اور ڈان بہتا رہا"اور پھر گنتر گراس کے ناول ٹن ڈرم کے ترجمہ" نقارہ "کو بھی قسطوں میں پڑھا۔
اس سلیکٹو ریڈنگ کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بہت سی کتابیں جمع ہوگئی ہیں۔ ہر سال کتاب میلہ سے درجنوں کتابیں خریدتے ہیں، سال بھر دوست احباب کتابیں بھیجتے رہتے ہیں۔ بعض کتابیں ریویو کے لئے بھی آتی ہیں۔ ادھر جب سے ای بکس پڑھنے کی عادت ڈالی، محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً سینکڑوں کتاب ڈائون لوڈ کر رکھی ہیں۔ ان میں سے ساٹھ ستر فیصد انگریزی کی ایسی کتابیں ہیں جو ہارڈ کاپی میں ہمارے ہاں نہیں دستیاب ہوتیں۔ ان کتابوں کے فولڈر کو دیکھ کر یہی احساس ہوتا ہے کہ انہیں پڑھنے کے لئے ایک پوری نئی زندگی چاہیے۔ اسی لئے اب یہی کوشش ہوتی ہے کہ منتخب کتاب پر وقت صرف ہو اور کچھ صرف ورق گردانی سے نمٹالی جائیں۔
اس بری عادت کا ایک نقصان یہ ہے کہ کئی سنجیدہ، قابل غور کتابیں پینڈنگ لسٹ میں چلی جاتی ہیں۔ جیسے علامہ کے خطبات پر مشتمل کئی کتابیں اکھٹی کر لیں۔ جب بھی انہیں شروع کرتا ہوں، تھوڑی دیر بعد لگتا ہے، ابھی یکسوئی نہیں، کسی پرسکون وقت میں ان کے ساتھ لمبی نشست کروں گا، یوں معاملہ آگے بڑھتا جاتا ہے۔ یہی معاملہ علامہ کی فارسی شاعری، غالب کے فارسی خطوط اور مثنوی مولانا روم کے ساتھ ہے۔ دیکھیں رب کریم ہمارے وقت اور استعداد میں برکت ڈالے تو ان سے فیض اٹھائیں۔
طارق محمود صاحب کا ایک ناول "اللہ میگھ دے "برسوں پہلے شائع ہوا، تب وہ سول سروس ہی میں تھے، غالباً کمشنر یا سیکرٹری۔ وہ ناول کہیں دیکھا اور پڑھنا چاہا، مگر پڑھ نہیں سکا۔ وجہ اب یاد نہیں، میرا خیال ہے کہ تب بدگمانی سی پیدا ہوئی کہ ایک بیوروکریٹ کے ناول کو شائد کچھ زیادہ ہی سراہا جا رہا ہے۔ طارق صاحب کی یاداشتیں پڑھنے کے بعد اب سوچا کہ ان کا ناول بھی پڑھا جائے۔ ایسے شاندار نثر نگار کا لکھا فکشن بھی کم نہیں ہوگا۔
طارق محمود اہم انتظامی عہدوں پر فائز رہے، بطور ڈپٹی کمشنر وہ ملتان اور دیگر شہروں میں رہے، انہیں بطور سیکرٹری دو گورنروں مخدوم سجاد قریشی، جنرل ریٹائر ٹکا خان اورپھر بطور پرنسپل سیکرٹری مشرف دور میں گورنر پنجاب لیفٹنٹ جنرل خالد مقبول کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ ملا۔ پنجاب اور مرکز میں بطور سیکرٹری بھی کام کیا۔ ایک بہت دلچسپ اور منفردتجربہ انہیں مشرقی پاکستان میں تعلیم کی صورت میں ملا، وہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں پڑھتے رہے۔ سول سروس میں آنے سے پہلے وہ دو سال پی ٹی وی نیوز میں بھی رہے۔
یہ خود نوشت "دام خیال"اسی لئے زیادہ اہم اور مفید ہوگئی کہ اس میں متنوع قسم کے مشاہدات، تجربات اور احساسات شامل ہیں۔ زبان بہت خوبصورت، رواں اور دلچسپ ہے۔ تحریر تراشیدہ ہے، بہت سے دلکش نثری ٹکڑے ملتے ہیں۔ مبالغہ نام کا نہیں اور مصنف نے اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے یا قد بڑا کرنے کی معمولی سی کوشش بھی نہیں کی۔ یوں لگتا ہے جیسے کسی دیانت دار راوی نے گزرے واقعات کو بڑی روانی اور عمدگی سے کمنٹری کے انداز میں بیان کر دیا۔ جو اس نے دیکھا، اچھا لگا، جس سے وہ متاثر ہوا، وہ بلا کم وکاست لکھ ڈالا۔ کسی بائیوگرافی کے لئے اس سے بڑی خوبی اور کیا ہوسکتی ہے؟
ہمارے ہاں بعض بے وقوف لوگ ایک خواہ مخواہ کا اعتراض کرتے ہیں کہ یہ لوگ اس وقت کیوں نہیں بولے جب وہ ملازمت میں تھے، اب ریٹائر ہو کر کیوں کتاب لکھی؟ یہ اعتراض بچکانہ ہونے کے ساتھ جہالت اور لاعلمی کا عکاس بھی ہے، ا س سے پتہ چلتا ہے کہ ان لوگوں کو دنیا کا کچھ نہیں پتہ۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ امریکہ، یورپ سے لے کر ہمارے پڑوسی ملک بھارت تک میں ریٹائر جرنیل، بیوروکریٹ، سابق سفارت کار وغیرہ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے تجربات، مشاہدات بیان کرتے ہیں۔ تقریبا ً ہر امریکی صدر، وزیرخارجہ، سی آئی چیف بلکہ امریکی آرمی چیف تک اپنی کتابیں تحریر کرتے ہیں۔ بہت سے ریٹائر ڈپلومیٹس کی کتابیں ہیں، مختلف سیاستدان بھی اپنی کتابیں خود یا کسی رائٹر کی مدد سے تحریر کرتے ہیں۔
یہ کتابیں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوتی ہیں۔ تاریخ کی بہت سی کڑیاں ان میں دی گئی معلومات کی بنا پرترتیب پاتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ ان کا موقف ہوتا ہے، جس کے کچھ حصے سے اختلاف بھی کیا جاتا ہے، مگر بہت سی نئی باتیں لوگوں تک پہنچتی ہیں۔ دراصل یہ اپنے حصے کا قرض ہوتا ہے۔ ملازمت کے دوران وہ قواعد وضوابط اور پابندیوں کی وجہ سے کتاب نہیں لکھ سکتے، نہ ہی پبلک میں کوئی بیان یا پریس ریلیز جاری کر سکتے ہیں۔ یہ کام انہیں قانونی اور اصولی طور پر ریٹائرمنٹ کے بعد کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے بہت سے اہم اور طاقتور لوگ چونکہ لکھنے پڑھنے سے دلچسپی نہیں رکھتے، ان کے نزدیک کتاب کی کوئی اہمیت نہیں اور نہ ہی انہیں تاریخ کا ریکارڈ درست کرنے سے مطلب ہوتا ہے۔ اس لئے وہ ریٹائرمنٹ کے بعد ایک بور، تھکی ہوئی زندگی گزار کر دنیا سے چلے جاتے ہیں۔
بات طارق محمود کی خودنوشت کی ہو رہی تھی۔ اس میں بہت سے واقعات ہیں، ان میں سے بعض کی تفصیل یقینی طور پر قارئین کے لئے دلچسپی کی حامل ہوگی۔ پچھلے دنوں ہمارے ہاں پنجاب میں بڑی سیاسی اتھل پتھل رہی، وزیراعلیٰ بننے کی دوڑ تھی اور گورنر کا کردار اہم ہوگیا تھا۔ مرکز میں ن لیگ کی حکومت آگئی مگر تحریک انصاف کی کوشش تھی کہ کسی طرح پنجاب تو اپنے قابو میں رکھیں۔ پنجابی اسمبلی میں سیاسی کش مکش چل رہی تھی، گورنر پنجاب تب پی ٹی آئی کے عمر چیمہ تھے جو کھل کر اپنی پارٹی اور ان کے امیدوار چودھری پرویز الٰہی کو سپورٹ کر رہے تھے، ایسے میں کئی ڈرامائی لمحات آئے، اگرچہ مختلف وجوہات کی بنا پر جیت حمزہ شہباز کی ہی ہوئی۔
طارق محمود صاحب نے اپنی کتاب میں ایسا ہی ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے۔ جنرل ضیا کے حادثے کے بعد ملک میں جماعتی انتخابات ہوئے۔ مرکزمیں محترمہ بے نظیر بھٹو کو زیادہ نشستیں ملیں، پنجاب میں اینٹی پیپلزپارٹی اتحاد" آئی جی آئی" کی پوزیشن نسبتاً بہتر تھی۔ مرکز میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور پنجاب میں میاں نوازشریف قائد ایوان منتخب ہوگئے، اب حلف لینے کا معاملہ درپیش تھا۔
میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو خطرہ تھا کہ اگر بے نظیر بھٹو پہلے وزیراعظم کا حلف لے لیں تو وہ کسی نہ کسی طرح جوڑ توڑ کر کے نواز شریف کو وزیراعلیٰ بننے سے روک دیں گی۔ تب پنجاب کے گورنر مخدوم سجاد قریشی (والد شاہ محمود قریشی) تھے۔ صدر غلام اسحاق خان نے طے کیا کہ دونوں کا حلف ایک ہی دن اور ایک ہی وقت ہوگا۔
کسی ممکنہ رکاوٹ سے بچنے کے لئے نواز شریف اپنے ساتھیوں چودھری عبدالغفور، سردار نصراللہ دریشک اور ریٹائر ڈی جی آئی اصغر خان (ہلاکو خان)کے ساتھ گورنر کے پاس آگئے، ان کا اصرار تھا کہ کسی طرح وزیراعلیٰ کا حلف پہلے لے لیا جائے، قانونی ماہرین سے مشاورت ہوگئی ہے، اس میں کوئی قانونی رکاوٹ موجود نہیں۔ گورنر مخدوم سجاد قریشی صدر اسحاق خان کی ہدایت پر عمل کاذہن بنا چکے تھے۔ انہوں نے ان کے سامنے صدر اسحاق خان کو یہ بات پہنچائی، جواب میں انہوں نے کہا کہ نہیں، ایک ہی وقت میں حلف برداری ہوگی، نواز شریف اور ان کے ساتھی ناخوش ہو کر واپس گئے۔
ادھر وزیراعلیٰ کے حلف سے چند گھنٹے پہلے سیکرٹری گورنر طارق محمود کو گورنر کے پرسنل سیکرٹری نے بتایا کہ اسلام آباد سے اٹارنی جنرل کا فون آیا ہے۔ طارق محمود نے کہا کہ ابھی حکومت تو بنی نہیں، اٹارنی جنرل کہاں سے آ گئے؟ انہوں نے فون سننے سے گریز کیا تو اسلام آباد سے بار بار رابطہ ہوتا رہا، پھر آخر پیغام ملا کہ افتخار گیلانی نے خود کومتوقع اٹارنی جنرل would be Attorney General کے طور پر پیش کرتے ہوئے بتایاہے کہ گورنر پنجاب وزیراعلیٰ پنجاب کی حلف برداری کے لئے پرائم منسٹر آف سے حتمی اشارے کا انتظار کریں۔ یعنی وہ وزیراعلیٰ کا حلف مقررہ وقت میں نہ لیں۔
یہ بات گورنر تک پہنچائی گئی۔ اتنے میں نواز شریف بھی اسمبلی سے ووٹ لے کر خوش خو ش گورنر ہائوس پہنچ گئے۔ گورنر مخدوم سجاد قریشی نے پیغام والی چٹ ان کے آگے رکھ دی۔ نواز شریف کے چہرے پر سنجیدگی کی لکیریں ابھر آئیں۔ یہ بھی کنفرم ہوچکا تھا کہ پیغام وزیراعظم ہائوس ہی سے آیا ہے۔ اتنے میں چیف سیکرٹری بھی وہاں پہنچ گئے۔ طرح طرح کے خدشات کی بات ہو رہی تھی۔ ہرکوئی سوچ رہا تھا کہ اب کیا کریں؟ (جاری ہے)