میاں نواز شریف کریم کلر کی شلوارقمیص اور برائون واسکٹ میں ملبوس پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے کر خوش آئے تھے۔ انہوں نے گورنر مخدوم سجاد قریشی کو بتایا کہ وہ سیدھا اسمبلی سے سیدھا ادھر آئے ہیں۔ اب مل کر ماڈل ٹائون جائیں گے اور تقریب حلف برداری سے قبل تیار ہو کر ڈھائی تین بجے گورنر ہائوس پہنچ جائیں گے۔ اب وزیراعظم ہائوس سے اس پیغام نے انہیں پریشان کر دیا کہ وزیراعلیٰ کی حلف برداری وزیراعظم کے حلف لینے کے بعد ان کی جانب سے حکم ملنے پر کی جائے۔ ہر ایک کو خطرہ تھا کہ اگر محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں تو پھر وہ اپنے سب سے بڑے سیاسی مخالف میاں نواز شریف کو پنجاب جیسے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ نہیں بننے دیں گی۔
پریشانی اور کنفیوژن کی یہ کیفیت جاری تھی کہ چیف سیکرٹری انورزاہد نے جرات مندانہ فیصلہ لیا۔ وہ بڑے پراعتماد لہجے میں بولے، اس کاغذ اور پیغام کو سامنے آتش دان میں پھینک دیں، حلف برداری طے شدہ وقت پر ہی ہوگی، جب وزیراعظم اسلام آباد میں حلف لے رہی ہوں گی۔ انورزاہد کی پراعتماد لہجے میں کہی بات سے غیر یقینی صورتحال ختم ہوگئی۔ میاں نواز شریف کو ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ وہ ماڈل ٹائون نہ جائیں۔ حلف کے موقعہ پر باضابطہ لباس شیروانی کا استعمال ضروری تھا، طے پایا کہ گورنر کی شیروانی استعمال کی جائے۔ حلف برداری کے موقعہ پر میاں نواز شریف گورنر کی ڈھیلی سیاہ شیروانی میں ملبوس تھے۔
وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیاں کشاکش اور کشیدگی کا ایک اور واقعہ بھی طارق محمود صاحب نے اپنی خودنوشت "دام خیال"میں بیان کیا۔ تب گورنر پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے جنرل ریٹائر ٹکا خان تھے۔ طارق محمود بدستور سیکرٹری ٹو گورنر تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ گورنر ہائوس لاہور میں ابوظہبی کے حکمران شیخ زیدکے اعزاز میں رسمی عشائیہ کا اہتمام تھا۔
وزیراعظم بے نظیر بھٹو خصوصی طور پر لاہور آئی تھیں، وزرا کی فوج ظفرموج تھی، ارکان اسمبلی بھی شریک تھے۔ زیراعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف بھی مدعو تھے کہ شاہی مہمان بہرحال ان کے صوبے میں آئے تھے۔ ڈرائنگ روم مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا تھا، شیخ زید وزیراعظم بے نظیر بھٹو سے رسمی بات چیت میں مصروف تھے، گورنر اور وزیراعلیٰ بھی موجود تھے، مگر عشائیہ میں دیر ہوتی جارہی تھی۔ ملٹری سیکرٹری سے پوچھا تو اس نے بس اتنا کہا، سر کوئی مسئلہ چل رہا ہے، سمجھ نہیں آ رہی۔
منظور موہل ایم پی اے اندرکی خبر لائے۔ کہنے لگے کہ پروٹوکول کا کوئی مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ آخر عقدہ کھلا کہ وفاقی وزرا اور وزیراعظم کا سٹاف وزیراعلیٰ پنجاب کو شاہی مہمان سے قریب نشست دینے کو تیار نہیں تھا۔ ان کا اصرار تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی نشست وفاقی وزرا کے بعد رکھی جائے۔ اس وقت وفاقی وزرا کی فوج موجود تھی۔ اس کا مطلب تھا کہ یو ٹیبل میں سامنے گورنر، وزیراعظم، شیخ زید اور چند سینئر وزرا کی نشستیں متوقع تھیں اور وزیراعلیٰ پنجاب کے حصہ میں کہیں بغلی نشست ہی آ سکتی تھی۔ یہ صورت حال پنجاب پروٹوکول کو منظور نہیں تھی۔
وزیراعلیٰ نے یہ سن کرعندیہ ظاہر کیا کہ ایسی صورت میں وہ عشائیہ میں شرکت نہیں کریں گے۔ پیپلزپارٹی وارنٹ آف پریسی ڈنٹ کی شق نکالے بیٹھی تھی جس کے تحت پروٹوکول میں وفاقی وزیرکسی بھی صوبے کے وزیراعلیٰ سے سینئر تھا۔ وہ یہ بھولے بیٹھے تھے کہ صوبائی صدر مقام پر وزیراعلیٰ کی حیثیت وفاقی وزرا پر مقدم تھی۔ دیر گئے مسئلہ حل ہوا اور وزیراعلیٰ پنجاب کو عشائیہ میں اپنے منصب کے لحاظ سے نشست تو مل گئی مگر اس واقعہ کو مہمانوں نے بھی محسوس کیا۔
اس واقعہ کے چند دن بعد صدر اسحاق خان لاہور آئے، شیخ زید نے انہیں کھانے پر مدعو کیا، گورنر اور وزیراعلیٰ بھی موجود تھے۔ شیخ زید نے وہاں پاکستانی میزبانوں کو بڑے آرام سے سمجھایا، وہ بار بار رواداری اور ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنے کی تلقین کر رہے تھے۔ باتوں سے اندازہ ہوا کہ گورنر ہائوس کے ناخوشگوار واقعہ نے انہیں رنجیدہ کر دیا ہے۔ صدر، گورنر اور وزیراعلیٰ خاموشی سے یہ گفتگو سنتے رہے۔
طارق محمود نے جنرل ٹکا خان کے بارے میں لکھا کہ وہ کم گو انسان تھے لیکن لطف حس سے بھی معمور تھے۔ تنائو کی صورتحال میں مسکراتے اور کھلکھلا کر ہنسنے لگتے۔ انہیں صبح دفتر بلا کر اہم خبروں کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے۔ ایک روز وزیراعلیٰ نواز شریف کا بیان چھپا کہ وہ پیپلزپارٹی کو بحیرہ عرب میں پھینک دیں گے۔ گورنر نے حسب معمول دفتر بلایا اور اہم خبروں کے بارے میں پوچھا۔
اس روز کی اہم خبر تو یہی بیان تھا۔ طارق محمود نے عمومی طور پرکہہ دیا کہ وزیراعلیٰ نے پیپلزپارٹی پر تنقید کی۔ گورنر کا سوال تھا، اس نے کیا کہا؟ طارق محمود نے بیان دہرایا کہ وہ کہتے ہیں میں پیپلزپارٹی کو بحیرہ عرب میں پھینک دوں گا۔ جنرل ٹکا خان نے کرسی پر ٹیک لگا کر زوردار قہقہہ لگایا اور پھر برجستگی سے بولے، کیا انہیں معلوم نہیں کہ یہ بہت سارے ہیں
Does'nt he knows they are too many.
ٹکا خان ہمیشہ اردو یا انگریزی میں بات کیا کرتے، دو برس کی تعیناتی کے دوران انہیں ان کے اہل خانہ، ذاتی ملازمین کے ساتھ بھی کبھی پنجابی یا پوٹھوہاری میں بات کرتے نہین سنا۔ الفاظ کا ذخیرہ کم پڑجاتا لیکن وہ اردو کا دامن کبھی نہ چھوڑتے۔ ایک بار وہ فیصل آباد گئے، زرعی یونیورسٹی کی سینٹ کمیٹی کی میٹنگ تھی۔ میٹنگ کے بعد سرکٹ ہائوس گئے، وہاں درخواست گزاروں کا تانتا لگا ہوا تھا۔ ایک شخص بار بار چلائے جا رہا تھا، گیس کا تقاضا کر تا اور کہتا کہ ضیا دور میں میں نے کوڑے کھائے ہیں۔
گورنر نے اس کے ہاتھ سے درخواست لی اور اپنے سیکرٹری کو کہا کہ یہ درخواست گیس کنکشن کے لئے بھجوا دی جائے۔ وہ شخص چلا کر بولا جنرل صاحب مجھے گیس کا کنکشن نہیں، گیس کی ایجنسی چاہیے، میں نے کوڑے کھائے ہیں۔ گورنر ٹکا خان نے اس کی طرف سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے کہا، تم کوڑوں کی بہت زیادہ قیمت مانگ رہے ہو
Well that's too high a price for korras.
گورنر بلحاظ عہدہ صوبائی سکائوٹس کے منتظم اعلیٰ تھے۔ صوبائی کونسل تنازعات کا شکار تھی اور سترہ برس سے اس کا اجلاس نہیں ہوا تھا۔ گورنر نے دن رات محنت کر کے تنظیم کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کیا اور گورنر ہائوس اجلاس کا انعقاد کیا۔ سیکرٹری پنجاب سکائوٹ بہت خوش تھے، وہ گورنرکو مبارکباد دیتے ہوئے بولے، سر آپ نے تو جمود توڑ دیا ہے۔ جنرل ٹکا خان نے اس کی طرف دیکھا اور بولے ٹھیر و ٹھیرو، ہم نے کوئی جمود نہیں توڑا، ہم توڑنے والے نہیں، جوڑنے والے کام کرتے ہیں۔ سیکرٹری نے بادل نخواستہ ہاں میں ہاں ملائی، مگر جملہ محظوظ کن تھا۔
گورنر جنرل ٹکا کے ساتھ سفر کے بہت سے مواقع تھے، سفر کے دوران کئی موضوعات پر گفتگو کا موقعہ ملتا۔ انہوں نے بطور آرمی چیف جنرل ضیا کی تعیناتی کی مخالفت کی تھی۔ بتانے لگے کہ میں نے بھٹو صاحب کو بولا تھا کہ جس شخص کو یونیفارم میں اپنی قمیص کا بٹن بند کرنے کا خیال نہ آئے، وہ اتنی بڑی آرمی کیسے چلائے گا؟ ہوا یوں کہ جنرل ضیا ایک بار کارسرکار کے حوالے سے جنرل ٹکا خان کو ملنے آئے تو ان کی نظر جنرل ضیا کی بوشرٹ کے کھلے بٹن پر پڑ گئی۔
جنرل ٹکا روایتی سپاہی تھے، اس بات کا نوٹس لیا اور دل میں بٹھا لی۔ طارق محمود نے پوچھا کہ بھٹو صاحب نے آپ کی بات کا کیا جواب دیا تھا؟ جنرل ٹکا بولے، انہوں نے کہا تھا، " بس! "یہ کہہ کر ہنس دئیے۔ یہ جملہ دہرا کر جنرل ٹکا خان خاموش ہوگئے۔ طارق محمود سوچتے رہے کہ جس شخص کے بارے میں پیپلزپارٹی کے رہنما کا تاثر تھا کہ وہ اپنی قمیص کے بٹن بند کرنے سے غافل ہے، وقت آنے پر ا س نے سب سے بڑی جماعت کے کِس طرح کَس بل نکال دئیے۔
1990، اگست کا مہینہ اور معمول کا دن تھا۔ چیف سیکرٹری نے شام گئے فون کرکے طارق محمود سیکرٹری ٹو گورنر کو بتایا کہ اسمبلیاں تحلیل کر دی گئی ہیں اور فیکس پر صدارتی حکم نامہ آ رہا ہے جس کے تحت میاں اظہر پنجاب کے نئے گورنر ہوں گے۔ طارق محمود نے ٹکا خان کو اطلاع دی۔ انہوں نے تحمل سے خبر سنی اور کرسی سے اٹھ کر بولے تو پھر چلیں۔ عملے کو ہدایت کی کہ ضروری سامان تیار کیا جائے، وہ فوری طور پر گورنر ہائوس سے منتقل ہونا چاہتے تھے، طے پایا کہ ان کی صاحبزادی جو سی ایم ایچ میں ڈاکٹر تھیں، ان کے ہاں منتقل ہوجائیں۔
کچھ ہی دیر میں گورنر ہائوس میں مسلم لیگی کارکنوں کا ایک ہجوم خوشی سے نعرے لگاتا ہوا داخل ہوا۔ ان پرجوش حضرات میں چودھری سردار ایڈیشنل آئی جی پولیس اور مرحوم سراج منیر پیش پیش تھے۔ طارق محمود سراج منیر کو بطور دانشور اور ادیب جانتے تھے، ان کا یہ نیا پہلو سامنے آیا۔ معلوم ہوا کہ پنجاب حکومت نے جو میڈیا سیل قائم کر رکھا تھا، وہ اس میں بڑے تواتر سے اپنا حصہ ڈالتے رہے۔ کچھ ہی دیر میں میاں اظہر اپنے حمایتیوں سمیت گورنر ہائوس پہنچ گئے۔ ادھر سابق گورنر ٹکا خان گورنر ہائو س کے نشیبی راستے سے نکلے اور دو اٹیچی کیسوں میں اہلیہ کے ہمراہ خاموشی سے رخصت ہوگئے۔ یہ زمانے کے تغیرات تھے۔ (جاری ہے)