Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Anwar Maqsood Aur Moeen Akhtar

Anwar Maqsood Aur Moeen Akhtar

انور مقصود اور معین اختر دونوں ہماری شوبز انڈسٹری کے لیجنڈز ہیں، غیر معمولی تخلیق کار اور فن کار۔ انور مقصودصرف شوبز کے نہیں، وہ مصوراور نثرنگار بھی ہیں۔ کالم بھی لکھتے رہے ہیں، مگر قدرے کم۔ اصل شہرت انہیں ڈرامہ اور طنزومزاح لکھنے والے کے طور پر ہوئی۔ انگریزی کا ایک مزے کا اور بڑا جامع سا لفظ ہے سیٹائرSatire۔ اردو کا طنز، مزاح یا طنز ومزاح بھی اس کا درست متبادل نہیں۔ انور مقصود شائد اردو کے جینوئن سیٹائرلکھنے والے ہیں۔ جتنی شائستگی، سلیقے اور خوبصورتی سے انہوں نے ان گنت کاٹ دار جملے لکھے، اس کی کوئی دوسری مثال ہمارے ہاں تو نہیں ملتی۔

معین اختر کا میں زبردست مداح ہوں۔ ہماری نسل کی زندگی میں بہت سے خوبصورت پرمسرت لمحات ان کی وجہ سے شامل ہوئے۔ پی ٹی وی کا زمانہ تھا۔ کتنے ہی کمال قسم کے شگفتہ پروگرام ہم نے دیکھے۔ ہر جگہ معین اختر چھائے ہوئے تھے۔ معین اختر بہت عمدہ اداکار اور بے مثال پرفارمر تھے۔ ان کے سٹیج ڈرامے بھی دیکھے، معین اختر نے اپنا لوہا منوایا۔ کراچی کے سٹیج ڈراموں میں اگرچہ عمر شریف کا جادو بولتا تھا، عمر شریف فی البدیہہ بہت اچھا بولتے تھے اور کمال کا بے ساختہ جملہ ان کے منہ سے نکلتا تھا۔ عمر شریف کا مقابلہ صرف پنجاب کے سٹیج ایکٹر ہی کر سکتے تھے، مگر پنجابی زبان میں۔ جگت ہمارے ان پنجابی فنکاروں پر ختم ہے، ایسی بے ساختگی، ایسا نیا اور شگفتہ جملہ ان سے تخلیق ہوتا ہے کہ آدمی تخلیقی وفور اور تازگی پر دنگ رہ جائے۔

معین اختر کی مختلف سطح تھی۔ ان کے بولنے کا انداز بہت ہی شائستہ اور میچور تھا۔ الفاظ کو نہایت درست تلفظ سے ادا کرتے۔ مختلف زبانوں، کمیونیٹیز اور مزاج کے لوگوں کو کاپی کرنے میں حیران کن مہارت حاصل تھی۔ بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو اتنی ورائٹی کے ساتھ اتنے مختلف بلکہ متضاد قسم کے لہجوں میں بات کر سکیں۔ صرف لہجہ نہیں بلکہ اس پوری شخصیت کو یوں ظاہر کریں کہ لگے یہ حقیقی کردار ہے۔ معین اختر نے سنجیدہ ڈرامے بھی کئے، پی ٹی وی لانگ پلے روزی میں ان کے کردار کو بہت پسند کیا گیا۔

معین اختر کو خود اپنا یہ ڈرامہ "روزی" بہت پسند تھا۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ مشہور ہالی وڈ ادکار ڈسٹن ہافمین نے خاتون کا کردار ادا کیا تھا اور اسے بہت پزیرائی ملی، تب سے میں بھی ایسا ہی کردار ڈھونڈ رہا تھا اور" روزی "میں یہ موقعہ ملا۔ یہ بہت پہلے کی بات ہے، ہمارے کالج یونیورسٹی کا زمانہ تھا۔ سچی بات ہے کہ ڈسٹن ہاف مین کا نام تک نہیں سنا تھا، یہ پڑھنے کے بعد تلاش کیا اور پھر ان کی کئی فلمیں دیکھیں جن میں کریمرورسز کریمر اور رین مین شامل ہیں، ان فلموں پر ڈسٹن کو ایوارڈز بھی ملے۔ رین مین میں ڈسٹن ہاف مین نے ایک آٹسٹک آدمی کا کردار ادا کیا اور کمال کر دیا۔ کریمر ورسز کریمر میں ویسے میرل سٹریپ کی اداکاری بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، میرل کو بھی ایوارڈ ملے۔

معین اختر کا ایک کمال تھا کہ وہ سکرپٹ پڑھتے تھے، مگر ایسی خوبی اور کمال مہارت کے ساتھ، شائبہ تک نہ ہوتاکہ لکھا ہوا پڑھ رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ پی ٹی وی ایوارڈ کی ایک تقریب بہت مشہور ہوئی تھی، اس کے بعد میں آڈیو کیسٹ تک بکے، اس میں معین اختر نے بہت عمدہ چٹکلے سنائے، خوبصورت شگفتہ جملے اور خوب رونق لگائی۔ بعد میں کسی نے بتایا کہ معین اختر نے سکرپٹ ہی پڑھا تھا، اپنی طرف سے کچھ نہیں بولا تویقین نہیں آیا۔

انور مقصود اور معین اختر کا ساتھ بھی بہت پرانا ہے۔ ستر کے عشرے سے انور بھائی کے لکھے ڈراموں، شوز میں معین اختر کام کرتے رہے تیس سال سے زیادہ عرصے تک انور مقصود نے معین اختر کے لئے لکھا۔ سچ تویہ ہے کہ انور مقصود کی جو شہرت اور نام ہے، اس میں معین اختر کا بہت بڑا حصہ ہے۔ معین ہی نے انور صاحب کے لکھے کرداروں کو یوں امر کر دیا کہ دیکھنے والے آج تک اسے کبھی بھلا نہیں سکے۔

انور مقصود نے معین اختر کے ساتھ مل کر اپنا ایک بہت مقبول پروگرام" لوز ٹاک "شروع کیا تھا۔ یہ ایک طرح سے بی بی سی کے مشہور ہارڈ ٹاک کی پیروڈی یا کہہ لیں اس سے بظاہر مماثل مگر بہت ہی مختلف پروگرام تھا۔ پروگرام کا سیٹ دانستہ معمولی سا رکھا گیا۔ دو کرسیاں رکھی ہوئیں اور درمیان میں چھوٹی میز، پیچھے دیوار پر لوز ٹاک لکھا ہوا۔ ہر پروگرام میں معین اختر ایک نئے حلئے، نئی شخصیت کے ساتھ آتے اور انور مقصود ان کا انٹرویو کرتے یا کرنے کی "کوشش "کرتے۔ بے پناہ ورائٹی کے ساتھ چار سو کے لگ بھگ شاندار پروگرام ہوئے۔

انور مقصود کے بعض شوز میں معین اختر نے پشتون، پنجابی یا سندھی کردار پورٹرے کئے تو کئی لوگوں کو اعتراض ہو۔ بعض لوگوں نے ایک خاص مہاجر، نان مہاجر تناظر میں بھی دیکھا۔ انور مقصود نے "لوز ٹاک" میں معین اختر سے کراچی میں رہنے والی بہت سی کمیونیٹیز کے کرداروں کو ادا کرایا۔ میمن، بہاری، کھچی، کئی قسم کے اردو سپیکنگ لہجے، لیاری کے مکرانی اور نجانے کن کن کرداروں اور منفرد شخصیات کو پیش کیا گیا۔ خوش قسمتی سے یہ سب خزانہ یوٹیوب پر موجود ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حالات ایسے ہیں کہ پندرہ سال پہلے جس سماجی رویے یا معاشی اونچ نیچ پر طنز کیا تھا، وہ آج بھی تروتازہ لگتا ہے۔

انور مقصود آج کل بھی کچھ نہ کچھ کام کر رہے ہیں، ریٹائر نہیں ہوئے۔ چودہ اگست کے حوالے سے بعض طنزیہ سٹیج ڈرامے بھی انہوں نے لکھے، گو معین اختر جیسے فنکارکی عدم موجودگی میں یہ شو بجھے بجھے رہے۔ کراچی آرٹس کونسل کی سالانہ تقریبات میں انور مقصود کی تقریر ہر سال بے پناہ سوشل میڈیا ہٹس لیتی ہے۔ ٹوئٹر پر انور مقصود کے نام کے کئی فیک اکائونٹ بھی چل رہے ہیں کیونکہ انور صاحب تو سمارٹ فون استعمال ہی نہیں کرتے۔ کبھی کبھار وہ کوئی انٹرویو بھی کر لیتے ہیں۔ ماہرہ خان کا ایک انٹرویو چند ماہ قبل بڑا مشہور ہوا۔

پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر انور مقصود کے خلاف بعض پوسٹیں دیکھنے کو ملیں۔ معلوم ہوا کہ انور مقصود نے کسی پوڈ کاسٹ انٹرویو میں لوز ٹاک کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا، " معین اختر مکمل طور پرلکھا ہوا سکرپٹ ہی پڑھتے تھے، وہ جو کچھ بھی کرتے تھے، وہ سکرپٹڈ ہوتا تھا۔ حتیٰ کہ وہ پروگرام میں میری طرف عینک پھینکتے تو وہ بھی لکھا ہوتا تھا، معین اختر کھانستے بھی سکرپٹ کے مطابق تھے۔ "

انور مقصود کے مطابق انہوں نے پہلے ہی معین اختر پر یہ واضح کر دیا تھا کہ تم نے کھانسنا بھی سکرپٹ کے مطابق ہی ہے اور معین اختر نے ویسا ہی کیا۔ انٹرویو کرنے والے کو کسی قدر تعجب ہوا۔ اس نے سوال بھی پوچھا کہ کیا پرفارمنس کرنے والے کو کچھ آزادی نہیں ملنی چاہیے، اپنی طرف سے اضافہ کرنے کی۔ انور مقصود نے سختی سے اس کی نفی کی اور کہا کہ اس سے پھر پروگرام کا تسلسل نہیں رہتا۔ سکرپٹ پر سختی سے عمل کرنے کی وجہ ہی سے لوز ٹاک یوں لگتا تھا جیسے فی البدیہہ گفتگو ہو رہی ہو، وہ سکرپٹڈ پروگرام نہیں لگتا تھا۔

اس کلپ کے وائرل ہونے سے معین اختر کے بعض مداح ناراض اور ناخوش ہوئے۔ شائد انہیں لگا کہ اس میں معین اختر کی کمتری کا کوئی پہلو نکل آیا ہے اور شائد پروگرام کاکریڈٹ معین اختر سے چھن گیا۔ میں نے تلاش کرکے وہ پروگرام نکالااور پورا سنا۔ مجھے تو ایسا کچھ بھی نہیں لگا کہ انور مقصود نے معین اختر کی بے توقیری کی ہو۔ انور مقصود نے وہ بیان کیا جو امر حقیقت ہے۔ اگر معین اختر لکھا ہوا سکرپٹ پڑھتے تھے تو اسے بیان کرنے سے کون سا ان کی توہین ہوگئی؟ وہ اداکار اور پرفارمر تھے، جن کا کام ہی لکھا ہوا پڑھنا ہے۔ ہمیں ویسے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انور مقصود نے ہمیشہ معین اختر کی بے پناہ تعریف کی اور یہ تک کہا ہے کہ ان کے جانے سے جیسے میرے وجود کا ایک حصہ الگ ہوگیا۔

معین اختر نے کبھی رائٹر ہونے کا دعویٰ ہی نہیں کیا نہ وہ تھے۔ معین اختر کا مگر اصل کمال یہ تھا کہ وہ سکرپٹ کو ایسے ادا کرتے تھے کہ یوں لگتا تھا حقیقی زندگی کا کوئی زندہ جاوید کردار شو میں آگیا ہے اور وہ بے ساختگی سے فی البدیہہ گفتگو کر رہا ہے۔ یہ معین اختر کی عظمت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں انتقال کئے گیارہ برس گزر گئے مگر انور مقصود کو اتنے بڑے ملک اور ہزاروں فنکاروں میں سے کوئی دوسرا معین اختر نہیں مل سکا۔ ملک میں کوئی اور معین اختر نہیں اور شائد اب آ بھی نہ سکے۔ پاکستان میں مگر کوئی انور مقصود بھی نہیں، اب ملے گا بھی نہیں۔ انور مقصود کوان کی تخلیقی صلاحیتوں اور اچھی صحت کے ساتھ رب طویل زندگی دے، وہ ہمارا اثاثہ ہیں۔

میرا خیال ہے کہ ہمیں رعایت دینا سیکھنا چاہیے۔ سوشل میڈیا کے جارحانہ ماحول نے زندگی ایسی مشکل کر دی ہے جیسے تیز دھار تلوار پر چلنا۔ ہم جملوں اور لفظوں کو کچھ زیادہ ہی ناپنے تولنے اور جانچنے لگے۔ ہم حسن ظن دینا بھول گئے ہیں۔ فوری ردعمل کی نفسیات میں گاہے شائستہ اور سنجیدہ لوگ بھی بہہ جاتے ہیں۔ اس سے مگر زندگیاں کٹھن، تکلیف دہ اور زخمی زخمی ہو رہی ہیں۔