Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Arab Danish Ke Moti (2)

Arab Danish Ke Moti (2)

پچھلے کچھ عرصے سے کچھ عجب کیفیت ہوچکی ہے، جس سے بات کرو وہ شدید تنائو، تفکر اور چڑچڑے پن کی کیفیت میں ملتا ہے۔ یہ پے درپے نمودار ہونے والے مختلف واقعات، سانحات ہیں یا پھر مہنگائی کی خوفناک لہر جس نے ہر ایک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پچھلے ڈیڈھ دو برسوں میں پاکستانی مڈل کلاس تہس نہس ہوگئی، نچلے طبقے کی ایسی کمرٹوٹی کہ وہ چلنے کے بجائے رینگنے پر مجبور ہوگیا۔ اپر مڈل کلاس ٹوٹ پھوٹ کر لوئر مڈل کلاس میں چلی گئی اور لوئر مڈل کلاس سرے سے غائب ہو کر نچلے طبقے کا حصہ بن گئی۔

بجلی کے حالیہ بلوں اور تباہ کن رفتار سے مہنگے ہوتے یونٹ نجانے عوام کو کس طرف لے جائیں گے؟ ایک اجتماعی ڈپریشن کی کیفیت ہے جو ہر ایک دل ودماغ پر طاری ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ ہر وقت پریشان رہنے سے بھی کچھ نہیں ملنے والا۔ میرے جیسے لوگ بجھے دل کو پھر سے تازہ اور زندہ کرنے کے لئے کتابوں کا رخ کرتے ہیں۔

میری آل ٹائم فیورٹ کتابوں میں سے ایک" بلوغ الارب" ہے، یہ عرب دانش، کلچراور قدیم جاہلی عرب دنیا کی جھلک دکھاتی شاندار کتاب ہے۔ محمود شکری الوسی کی یہ کتاب پیر محمد حسن نے اردو میں ترجمہ کی اور اردو سائنس بورڈ نے اسے شائع کیا ہے۔ پرانی وضع کی لکھائی ہے مگر غنیمت ہے کہ ایسا عمدہ مواد اردو میں میسر تو ہوا۔

بلوغ الارب کی جلد چہارم پڑھ رہا تھا، کئی قدیم عرب شاعروں کے پرمغز اور دلکش اشعار کا تذکرہ ہے۔ قارئین سے اسے شیئر کررہا ہوں۔

ان میں سے سب سے نمایاں امرائو القیس ہے۔ یہ عرب شہزادہ جاہلی عرب شاعروں میں ممتاز اور منفرد ہے، اسے رئیس الشعرا کہا جاتا تھا۔ خانہ کعبہ میں لٹکائے گئے سات مشہور قصیدوں (سبع معلقات) میں امرائو القیس کا قصیدہ بھی شامل ہے۔ امرائو القیس کی زندگی کی کہانی بھی بڑی ڈرامائی اور دلچسپ ہے، ایسی کہ اس پر فلم بن سکے۔ محمود شکری الوسی نے امرائو القیس کے بعض اشعار نقل کئے:

"جب انسان اپنی زبان یعنی اپنے رازوں کو محفوظ نہیں

رکھ سکتا تو پھر وہ کسی بھی چیز کو محفوظ نہیں رکھ سکے گا"

"یاد رکھ محتاجی کے بعد آدمی مالدار بھی ہوجاتا ہے اور انسان بوڑھا

ہونے کے بعد بھی دیر تک زندہ رہتا اور لباس پہنتا ہے"

"سب سے زیادہ کارگر چیز جس کی مدد سے تو کسی چیز کا خواہاں ہے

وہ نیکی ہے اوربے شک نیکی ہی انسان کا بہترین ذخیرہ ہے "

"میں دیکھتا ہوں عورتیں کم مال والوں کو پسند نہیں کرتیں

نہ ہی اس شخص کو پسند کرتی ہیں جو بوڑھا اور کمان کی طرح کبڑا ہو"

امرائوالقیس نے اپنے قصیدے میں گھوڑے کی جو تعریف کی اسے نہ صرف اس زمانے میں بلکہ بہت مدتوں تک سراہا جاتا رہا۔ وہ کہتا ہے:

"یہ گھوڑا بیک وقت حملہ آور ہونے والا ہے اور بھاگ جانے والا بھی، سامنے آنے والااور پیٹھ دکھا کر لوٹنے والا بھی

یعنی ایک ایسے سخت پتھر کی طرح جسے زور سے بہنے والے پانی نے بلندی پر سے لڑھکا دیا ہو

اس کی کمر ہرن کی سی ہے اور شترمرغ کی سی پنڈلیاں ہیں، بھیڑیے کی سی دوڑ ہے اور لومڑکے بچے کی سی دلکی چال"

شب ہجر ہمیشہ سے مشہور رہی ہے، دکھے دل والے عاشقوں کو رات کی طوالت کا شکوہ رہا ہے۔ امراو القیس نے بھی اپنے ایک قصیدے میں طویل رات کا گلہ کیا ہے، اردو کے ممتاز ادیب اور مترجم محمد کاظم نے امرائوالقیس پر اپنے مضمون میں ان اشعار کا ذکر کرتے ہوئے "شبِ طویل ہجر " کی دلچسپ اصطلاح استعمال کی۔ پیر محمد حسن نے امرائو القیس کے ان اشعار کا ترجمہ کچھ یوں کیا ہے:

"کتنی ہی راتیں سمندر کی موجوں کی طرح ہولناک تھیں

جنہوں نے مجھے آزمانے کے لئے قسم قسم کے غم ساتھ لے کر

مجھ پر اپنی تاریکی کے پردے ڈال دئیے

جب یہ رات اپنے سینے یعنی ابتدائی حصے کو لے کر اٹھی

پھر پیٹھ یعنی درمیانی حصے کو طویل کر دیااور پچھلے حصے کو

پیچھے کی طرف نکالا تو میں نے اسے کہا

اے لمبی کالی رات کیا تو صبح میں تبدیل نہیں ہوگی؟

مگر صبح بھی کیا ہے وہ بھی تو تیری ہی طرح ہے"

عرب دانش کا سب سے بہتر نمونہ جاہلی عرب شاعری کے ممتاز ترین شاعر زہیر بن ابی سلمہ میں نظر آتا ہے۔ یہ وہی زہیر ہیں جن کے صاحبزادے کعب بن زہیربعد میں صحابی بنے، پہلے وہ قریش مکہ کے ساتھ تھے اور ہجو کہتے رہتے اور پھر فتح مکہ کے بعد حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مشہور قصیدہ" بانت یا سعاد " سنایا۔ ان کے والد کا تذکرہ ہے۔ زہیر بن سلمہ کی شاعری فوک وزڈم کا اعلیٰ نمونہ تھی۔

"جو شخص بہت سے معاملات میں مدارات سے کام نہیں لیتااسے

لوگ دانتوں سے خوب کاٹیں گے، پیروں سے روندیں گے "

"جو شخص اپنی عزت بچانے کے لئے لوگوں پر احسانات کرے گا

وہ عزت محفوظ رکھے گا، جو گالیوں سے نہیں بچے گا، اسے گالی ملے گی"

"جو شخص مالدار ہوگا اور اس مال کو اپنی قوم پر خرچ نہیں کرے گا

لوگ اس سے بے نیاز ہوجائیں گے، اس کی مذمت ہوگی"

"انسان کے جیسے بھی اخلاق ہوں، ان کا پتہ چل جاتا ہے

خواہ وہ یہ سمجھتا رہے کہ یہ زندگی بھر لوگوں سے مخفی رہیں گے"

"پردہ ہمیشہ بداعمالیوں پر ہی ڈالا جاتا ہے

نہیں دیکھے گا کہ کبھی نیکی کو چھپایا جائے"

انہی شاعروں میں سے ایک نابغہ زبیانی تھا۔ کہاجاتا ہے کہ جاہلی عرب کے چار شعرا سب سے بڑے تھے، امرائوالقیس، زہیر بن ابی سلمہ، نابغہ زبیانی اور اعشیٰ۔ نابغہ اتنا ممتاز شاعر تھا کہ عرب کے مشہور میلے سوق عکاظ میں جہاں دور دور سے شعرا اپنے قصیدے سنانے آتے، وہاں نابغہ کے لیے سرخ چمڑے کا خاص خیمہ لگایا جاتا۔ ان قصیدوں کا فیصلہ بھی نابغہ ہی کیا کرتا تھا۔

روایت ہے کہ ایک دن سیدنا عمر بن خطابؓ نے اپنے محفل میں کہا کہ یہ اشعار کس کے ہیں؟

"میں نے جو کچھ کہا ہے اللہ کی قسم کھا کر کہا ہے، اور تمہارے لئے شک کی

گنجائش باقی نہیں رکھی، ظاہر ہے انسان اللہ سے آگے جا بھی کہاں سکتا ہے

اگر آپ کو میری نسبت کسی بہت بڑے جرم کی اطلاع ملی ہے توپہنچانے والا

بہت بڑا چغل خور، بہت بڑا خائن اور بہت ہی بڑا دروغ گو ہے"

سیدنا عمرؓ کو بتایا گیا کہ یہ تونابغہ زبیانی کے اشعار ہیں۔ فاروق اعظمؓ نے فرمایا، یہ تمہارا سب سے اعلیٰ شاعر ہے۔

نابغہ کے سب سے عمدہ اشعار وہ سمجھے جاتے ہیں جو اس نے خوف کی وجہ سے نعمان بن منذر کی مدح میں کہے۔ نابغہ بادشاہ نعمان بن منذر کا معتمد شاعر تھا، نعمان بھی اس پر نوازشات کیا کرتا تھا، کسی بات پر نابغہ ناراض ہو کر نعمان کے مخالف بادشاہ کے پاس چلا گیا۔ نعمان بن منذر کو علم ہوا تو اس نے نابغہ کو دھمکی پہنچائی۔ نابغہ ڈر گیا کہ وہ کسی روز گرفت میں نہ آجائے۔ شاعر تھا، اس کا سب سے بڑا ہتھیار اس کی زبان اور شاعری تھی۔ اس نے نعمان کی مدح میں ایسے اشعار کہے کہ جب وہ اس تک پہنچے تو اس کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ نابغہ کے ان لکھے اشعار میں سے دو نقل کرتا ہوں:

"مجھے خبر دی گئی کہ ابو قابوس نعمان نے میرے بارے میں دھمکی دی ہے

اب ظاہر ہے شیر کی چنگھاڑ کے سامنے کوئی کیسے ٹھیر سکتا ہے؟

تو اس رات کی طرح جو مجھے آن لے گی، خواہ میں کتنا سمجھوں کہ

تجھ سے دور بھاگنے کے لئے میرے پاس وسیع زمین موجود ہے "

اسی نعمان کے لئے ہی غالباً یہ شعر کہا تھا

"تو سورج ہے اور باقی بادشاہ ستارے، جب سورج

طلوع ہوتا ہے تو ایک ستارہ بھی ظاہر نہیں ہوتا"