کتابیں پڑھنے کا عمل جاری ہے۔ مجھے ذاتی طور پر بائیوگرافیز میں بہت دلچسپی ہے۔ یاداشتوں سے سیکھنے کو بھی بہت کچھ ملتا ہے او ر اگر وہ کوئی معروف شخصیت ہو تو تاریخ کی کئی اہم کڑیاں بھی مل جاتی ہیں۔ پاکستان کے سابق سفیر کرامت اللہ غوری کی تازہ کتاب روزگار سفیر کا مطالعہ جاری ہے۔ غوری صاحب نے خاصا کھل کر بہت سی باتیں کہی ہیں۔
کتاب کے ایک باب میں انہوں نے افغانستان کے حوالے سے بھٹو، ضیا اور سابق افغان صدرسردار دائود کا ذکر کیا اور بتایا کہ کس طرح باہمی امن قائم کرنے کی انہوں نے کوشش کی اور پھر یہ سب سامراج کی مختلف سازشوں کا نشانہ بن گئے۔ آج کل سامراج کی سازشوں اور ممالک کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کی بہت باتیں چل رہی ہیں، اس تناظر میں یہ سب کچھ بھی متعلق اور اہم ہوگیا ہے۔ اس حوالے سے مختلف اقتباسات نذر قارئین ہیں۔
کرامت غوری لکھتے ہیں:"بھٹو کو افغانستان کے ساتھ امن قائم کرنے میں دلچسپی تھی۔ بھٹو خارجہ امور کے ماہر تھے اور جانتے تھے کہ ایک ایسے پڑوسی سے جس کے ساتھ ہماری ہزار میل سے زیادہ طویل سرحدیں ملتی تھیں، مستقل بگاڑ پیدا رکھنا کہیں کی دانشمندی نہیں تھی۔ اور پھر ان کے لئے تو ان کی اپنی انائی تسکین کے لئے اور امتِ مسلمہ کی قیادت کے خواب کی تعبیر کے لئے، افغانستان کے ساتھ امن مذاکرات کی بڑی کلیدی اہمیت تھی۔ "
ان کی ہدایت پر داؤد کے افغانستان سے مذاکرات کی مہم کو کامیاب بنانے میں کابل میں ہمارے سفیر علی ارشد صاحب نے بھی بڑا اہم کردار ادا کیا۔ وہ بڑے معاملہ فہم انسان تھے اور نرم خوئی میں کمال رکھتے تھے۔ ان ہی کی کاوشوں کاہمیں یہ ثمر ملا کہ صدر داؤد نے بھٹو کو کابل آنے کی دعوت دی اور دونوں ملکوں کے درمیان وہ جو ایک جمود تھا وہ ختم ہوا اور برسوں سے جمی ہوئی برف پگھلنے کے آثار پیدا ہوئے۔ کابل میں ہمارا جس تپاک اور گرمجوشی سے استقبال کیا گیا اس سے صاف نظر آ تا تھا کہ صدر داؤد بھی اس نظریہ کے قائل ہو رہے تھے کہ اپنی پالیسی کے تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھنا ہر گز عقلمندی نہیں تھی۔
"بھٹو کے دورۂ کابل نے دو طرفہ تعلقات میں جمی برف کو کافی حد تک پگھلایا تھا۔ سرد مہری جو اس سے قبل کابل کی طرف بہت نمایاں رہی تھی اس میں بھی خاصی کمی آ گئی تھی۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے تھے کہ تعلقات میں گرمجوشی آ گئی تھی یا حرار ت محسوس کی جا سکتی تھی لیکن اتنا ضرور تھا کہ کابل ریڈیو سے پختونستان کی حمایت میں پروپیگنڈا قدرے کم ہوا تھا۔ اجمل خٹک اب تک افغان حکومت کے مہمان تھے لیکن ان کو پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کی جو کھلی چھٹی پہلے ملی ہوئی تھی اس میں بھی اب احتیاط کے آثار دیکھے جا سکتے تھے۔
" بھٹو کے دورۂ کابل کے بعد صدر داؤد نے افغانستان کے ایک سابق وزیراعظم نور احمد اعتماد ی کو اسلام آباد میں اپنا سفیر مقرر کیا تھا۔ اعتمادی صاحب داؤد کے بہت خاص اور بھروسے کے آدمی تھے۔ دانائے راز کہتے تھے کہ داؤد کو ان کی ذات اور صلاحیت پر بڑا اعتماد تھا اور ان کے ساتھ مل کر باہمی تعلقات میں برسوں سے پڑی ہوئی گرہیں کھولنے کی کوشش میں ہمارا بھی ان پر اعتماد بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ دفترِ خارجہ کے ہم سب بڑوں اور چھوٹوں کا متفقہ نظریہ یہ تھا کہ اعتمادی کو اسلام آباد میں سفیر مقرر کر کے داؤد نے ہمیں یہ پیغام دیا تھا۔ بین السطور کہ وہ ہمارے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی مہم میں اتنے ہی سنجیدہ تھے جتنے ہم۔ یعنی ہماری سیاسی قیادت۔
"دونوں ملکوں کے تعلقات میں گھٹتے ہوئے فاصلے میری مصروفیات اتنے ہی بڑھا رہے تھے۔ اعتمادی صاحب کی وزیراعظم بھٹو سے ملاقاتیں جلد جلد ہونے لگی تھیں اور بھٹو کو کم خوابی کا مرض لاحق تھا۔ اعتمادی صاحب کو ملاقات کے لئے وزیراعظم کی طرف سے عام طور سے نصب شب یا اس سے بھی بعد کا وقت ملتا تھا۔ اور میرے لئے ہر ملاقات کے وقت حاضر رہنا لازمی تھا اس لئے کہ ملاقات میں ہونے والی تمام گفتگو کو قلمبند کرنے کا فریضہ میرا تھا۔ اور سرکاری اصطلاح میں اس کار مشقت کو میٹنگ کے Minutes ریکارڈ کرنا کہا جاتا تھا۔ بھٹو صاحب کا یہ بھی خاص انداز تھا کہ اعتمادی صاحب کے ساتھ ملاقات ختم ہونے کے بعد وہ مجھے روک لیا کرتے تھے۔ یہ بتانے کے لئے کہ میں ملاقات کے minutes قلمبند کرنے میں کس بات پر زور دوں اور کس کو رہنے دوں۔
"کبھی کبھار جب وہ موج میں ہوتے تو ترنگ میں آکر کہتے "چلو رہنے دوminutes تم مت لکھنا میں خود ہی اپنی یادداشت کے لئے Memo لکھ لوں گا"۔ میں اگلی صبح دفتر پہنچ کر سب سے پہلا کام یہ کرتا تھا کہ اگر minutes مجھے نہ لکھنے کا حکم ہوتا تو میں یہ نوٹ ضرور تحریر کر کے فائل میں رکھ دیتا کہ وزیراعظم یہ کام خود کریں گے۔ وزیراعظم نے یہ کبھی نہیں ہوا کہ وہ کام نہ کیا ہو۔ بھٹو کو پڑھنے اور لکھنے کا شوق تھا اس میں تو کوئی کلام ہی نہیں۔ میں نے بہت سے وزیراعظم دیکھے لیکن بھٹو جیسا دوسرا نہیں دیکھا جو ہر اس فائل کو شروع سے لے کر آخیر تک پڑھتا تھا جو اسے بھیجی جاتی تھی۔ اور فائل واپس آتی تو وزیراعظم کے اپنے قلم سے لکھے گئے جملوں کے ساتھ۔ اور ان جملوں میں طنز بھی ہوتا، کبھی کبھار مزاح بھی ہوتا اور اکثر عزیز احمد صاحب یا آغاشاہی صاحب کے لئے ڈانٹ پھٹکار بھی ہوتی۔
"داؤد پاکستان کی طرف اگر جھک نہیں رہے تھے تو کم از کم ان کے ساتھ رویہ میں بتدریج نرمی اور لچک آ رہی تھی۔ اور ہماری نظر میں یہ تبدیلی مثبت تھی۔ ہم اس پیش رفت کو وسیع تر اور مزید تیز کرنا چاہتے تھے۔ جولائی 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹنے اور اقتدار پر قبضہ کے بعد صدر ضیاء الحق نے بھٹو کی افغانستان کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی میں سرِ نو بھی کمی نہیں کی نہ ہی اس عمل کو سست پڑنے دیا۔
ہمارے ہاں طبقۂ دانشوراں میں ضیاء الحق کو مختلف حوالوں سے مطعون کرنا دانشوری اور ترقی پسندی کی سند کے لئے ناگزیر سمجھا جاتا ہے لیکن وہ جن کے ذہنوں پر مکڑی کے جالے نہیں ہیں، ضیاء الحق کو دو باتوں کے لئے کریڈٹ دیتے ہیں اور میری دانست میں بالکل درست کرتے ہیں۔ ضیاء الحق نے نہ تو بھٹو کی افغان پالیسی میں کوئی رخنہ پڑنے دیا اور نہ ہی اس سے کہیں زیادہ اہم اور حساس جوہری قوت یا آسان لفظوں میں ایٹم بم کے حصول کی طرف پیش قدمی کو ایک لمحے کے لئے بھی ترک کیا۔
"صدر داؤد کے ساتھ معاملات امن کے فروغ کے مشن میں تقریباً تکمیل کی منزل تک پہنچ چکے تھے۔ پیچیدہ گتھیاں سلجھ چکی تھیں اور ریاستوں کے مابین مسائل کو حل کرنے کا وہ جو آزمودہ نسخہ ہے یعنی کچھ دو اور کھچ لو، وہ اپنی تاثیر دکھانے لگا تھا۔ وہ جو دو کلیدی مسائل ہمارے درمیان برسہا برس سے روڑے اٹکاتے آئے تھے، یعنی ڈیورنڈ لائن جو سرحد پر خطِ تقسیم تھا اور صوبۂ سرحد میں پختون نسل کے مفادات کا مسئلہ جس پر افغان حساسیت بہت زیادہ تھی ان پر بھی سمجھوتہ ہو چکا تھا۔ یعنی دو طرفہ تعلقات خیر سگالی کی دہلیز پر کھڑے تھے، معاہدہ کی جزئیات طے پا چکی تھیں اور صرف دونوں ممالک کے سربراہان کو دستخط ثبت کرنے کی دیر تھی کہ روسی ریچھ نے داؤد کے ایوانِ اقتدار پر شبخون مار کر بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا۔
"ہم دفتر خارجہ میں اپنی بیٹھکوں میں اکثر اس خوف اور خطرہ کا اظہار کرتے رہتے تھے کہ روسی کہیں شرارت نہ کریں اور ڈور وہاں کاٹ دینے کی سازش نہ کریں جہاں لبِ بام دو ہاتھ کی دوری پر ہو اور یہی ہوا۔ ہمارے بدترین خدشات درست ثابت ہوئے۔ میں اس وقت تک اپنی اگلی تقرری پر کویت پہنچ چکا تھا۔ جب 1978ء کے آغاز میں روس کی کھلی شہ پر صدر داؤد کے خلاف خونی بغاوت ہوئی جس میں وہ خود، ان کے بھائی سردار نعیم اور نور احمد اعتمادی جیسے وفادار ہلاک کر دئیے گئے۔
روس نے داؤد کو جرأت رندانہ کی سزا دی۔ افغانستان پر جو کاری ضرب روس نے آج سے تقریباً چالیس برس پہلے لگائی تھی اس سے یہ بدنصیب ملک آج تک جانبر نہیں ہو سکا۔ اپنے محلِ وقوع یا جغرافیہ کا بہت بھاری تاوان افغانستان نے ادا کیا ہے۔ جس درندگی کے ساتھ گزشتہ دو صدیوں میں عالمی استعماری طاقتوں نے افغانستان کو پامال کیا ہے، اسے بے رحمی سے نوچا اور اجاڑا ہے، اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
"اس کی مثال اور نظیر بھی کم ہی ملے گی کہ روس اور امریکا، وقت کی سب سے مضبوط عسکری طاقتوں نے ایک کمزور اور بے بس افغانستان پر مختلف حیلوں اور بہانوں سے یلغار کی اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ دونوں نے اسے افغان عوام کی فلاح و بہبود کا مشن کہہ کر اس کی تشہیر کی اور خود کو افغانوں کے مسیما کے روپ میں پیش کیا۔
"یہ بھی عجیب بات ہوئی کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین امن کے کھوجی تینوں قائدین سردار داؤد، ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق کا خاتمہ بخیر نہیں بلکہ انتہائی المناک ہوا۔ اور تینوں کی غیر طبعی موت کے پیچھے سامراجی سازشی ہاتھ کام کرتے نظر آتے ہیں۔ "