سرائیکی کی ایک طلسماتی اثر رکھنے والی کافی کا مصرع دکھ، غم اورالم کی دلگداز داستان سناتا ہے۔ درداں دی ماری دلڑی علیل اے۔ بھٹو صاحب نے سپریم کورٹ میں اپنا بیان مکمل کیا تو اختتام اسی مصرع پر کیا۔ بھٹو نے یقینا یہ کافی سن رکھی ہوگی، اپنی داستان الم سنانے کے لئے اسے اس لئے بھی موزوں سمجھا ہوگاکہ اس کے اگلے مصرع میں دکھ درد کی تفصیل ہمدردانہ انداز میں نہ سننے والے کا شکوہ کیا گیا ہے۔ سوہنٹرا نہ سنڑدا ڈکھاں دی اپیل اے (وہ سوہنا میرے دکھوں پر مبنی درخواست بھی نہیں سنتا)۔ بعض لوگ اس کافی کوسرائیکی کے عظیم صوفی شاعر خواجہ غلام فرید کا کلام سمجھتے ہیں۔ یہ بات درست نہیں۔ یہ اللہ ڈیوایا پرجوش کی کافی ہے اور ابتدائی زمانے میں اس کی ایک ریکارڈ شدہ گائیگی انٹرنیٹ پر موجود ہے، عنایتاں بائی نے اسے گایا اورغضب کر دیا۔ سرائیکی کے روایتی رچائو، سوز اور حزن کے ساتھ انہوں نے اسے امر کر دیا۔
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ پرجوشصاحب کا اصل نام اللہ ڈیوایانون (ولدرانا طالب حسین نون )تھا، 1954ء میں ان کا انتقال ہوا۔ چاہ روشن والا، شجاع آباد، ملتان کے اس درویش شاعر کو اپنی گوشہ نشینی کی وجہ سے زیادہ شہرت نہ مل سکی، کلام بھی بہت بعد میں شائع ہوا، دلڑی علیل اے کے علاوہ اور بھی کئی کافیاں گائی گئیں، ریڈیو سے سینکڑوں، ہزاروں بار سنائی گئیں، مگر ہر بار کسی اور سے منسوب ہوئیں۔ دو دن پہلے دنیا سے رخصت ہوجانے والی اداکارہ روحی بانو کو پچھلے کئی برسوں کے دوران جب بھی دیکھا یہی مصرع یاد آیا، ان کی زندگی پرصادق آتا تھا۔ ہمارے ہاں کتابیں لکھنے کا رواج نہیں۔
روحی بانو کتاب کا موضوع تھیں۔ ان کی زندگی جس قدر ڈرامائی نشیب وفراز سے گزری، ایک آدھ کالم، آرٹیکل یا فیچر اس کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ کیاشہرت اور گلیمر انہیں ملا۔ ان کے عروج کا زمانہ ہمارا بچپن کا دور تھا، مگر پی ٹی وی کے اس لحاظ سے ممنون ہیں کہ اس نے ستر کے زمانے کے مقبول ڈرامے دوبارہ دکھائے اور یوں ہماری اور ہمارے بعد کی نسل نے وہ ڈرامے دیکھے۔ روحی بانو کمال کی اداکارہ تھیں، ان کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی یاسیت اور حزن تیرتا رہتا تھا۔ جس پروڈیوسر کو کام لینا آتا تھا، اس نے انہیں ویسے کردار دئیے اور غضب ڈھا دیا۔ فلموں میں بھی آئیں مگروہاں پڑھی لکھی، حساس لڑکیوں کے لئے زیادہ جگہ نہیں تھی۔
پی ٹی وی نے البتہ روحی بانو کو بھرپور سپیس دی۔ نفسیات میں ا نہوں نے ماسٹر کیا تھا، مگر شائداپنی نفسیاتی الجھنیں سلجھا نہ سکیں۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے اداکاروں، پروڈیوسرز نے برسوں بعد میں اپنے انٹرویوز میں بتایا کہ روحی بانو ان دنوں بھی اداکاری کرتے ہوئے کبھی غائب الدماغ ہوجاتیں، کبھی شوٹنگ کے بعد بھی کردار سے باہر نہ آتیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سب مسائل گمبھیر ہوگئے۔ گھریلو حالات بھی وجہ بنے، شادی ناکام ہوئی، بعض قریبی عزیز جائیداد کی لالچ میں مخالف ہوگئے۔ ایک وجہ نہیں ہوتی، جس حال میں روحی بانوپہنچیں، ان میں بہت سے فیکٹرز کا عمل دخل ہے۔ ماضی کی اتنی دلکش، نفیس اور شاندار اداکارہ کو ایک ذہنی مریضہ کے روپ میں دیکھنا تکلیف دہ تھا۔ میڈیا والوں کو کبھی کبھار روحی بانو یاد آتیں تو انہیں گمنامی سے نکال، میک اپ کرکے کسی مارننگ شو یا پروگرام میں بٹھا دیا جاتا۔ ایک پروگرام یاد ہے جس میں کراچی ٹی وی کے نامور اداکار شکیل ساتھ تھے۔ شکیل کے ساتھ ہمارے بچپن، جوانی کا بہت سا ناسٹلجیا جڑا ہوا ہے۔ انکل عرفی وغیرہ تو نشر مکرر میں دیکھا، مگر ان کہی سمیت ان کے بے شمار ڈرامے کون بھلا سکتا ہے۔
شکیل روحی بانو کے ساتھ مرکزی کردار میں آتے رہے، وہ انہیں یاد دلانے کی کوشش کرتے تھے، مگر روحی بانو کے ساتھ وقت کچھ اس بے رحمی کے ساتھ گزرا کہ ان کے دل ودماغ پر پڑے گھائو، خراشوں، زخموں کاناظرین کو بخوبی اندازہ ہو رہا تھا۔ وہ کسی بھی پرانی یاد سے کنیکٹ نہیں ہو پارہی تھیں۔ روحی بانو پر اصل قیامت تب ٹوٹی جب ان کے اکلوتے بیٹے کو پراسرار طور پر قتل کر دیا گیا۔ ان کا بیٹا علی نجانے سٹریٹ کرائم کا نشانہ بنا، یا جائیداد کے تنازع میں جان چلی گئی، مگر اس کا جانا روحی بانو کی شخصیت کو تہس نہس کر گیا۔ کہتے ہیں جوان اولاد کی موت سے بڑا غم کوئی نہیں، یہ ماں باپ کی کمر توڑ دیتا ہے۔ اولاد اگر اکلوتی ہو تو پھر امید کی آخری کرن بھی ساتھ چلی جاتی ہے۔ یہی روحی بانو کے ساتھ ہوا۔ اس کے بعد وہ لاہورکے معروف نفسیاتی علاج گاہ فائونٹین ہائوس میں علاج کراتی رہیں، مگر اب سانسوں کی گنتی کامعاملہ ہی تھا۔
فائونٹین ہائوس آج کل اخوت کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب کی زیرنگرانی چل رہا ہے، انہوں نے اس نیم جاں ادارے میں نئی جان ڈال دی ہے، مگر ظاہر ہے کوئی نفسیاتی ادارہ جتنا بھی اچھا ہو، راکھ کے ڈھیر میں روح تو نہیں پھونک سکتا۔ چند دن پہلے فہمیدہ ریاض کے آخری مجموعہ کلام "تم کبیر"کو پڑھنے کا موقعہ ملا۔ فہمیدہ ریاض پر بھی یہی قیامت گزر گئی تھی، ان کا کڑیل جوان بیٹا کبیر نہاتے ہوئے ڈوب گیا۔ یہ ایسا سانحہ تھا، جس نے شاعرہ کو جذباتی طور پر بے جاں کر دیا، نچوڑ ڈالا۔ فہمیدہ خود شاعرہ تھیں، ایک قیامت خیر نظم "تم کبیر"انہوں نے لکھی۔ نظم کیا، بس اپنا دل چیر کر رکھ دیا۔ آنکھوں کی نمی پڑھنا دشوارکر دیتی ہے۔
اس کی چند سطریں :نیند آئی ہی نہیں جب خیال آیا کہ اس دَماپنے بستر سے اٹھے تماور اس پَل جا رہے ہوگےتیرنے، پانی کی سمتاس گھڑی پانی کے اوپر گونجتی ہوگی تمہاری چیخاس دَمگُھٹ رہی ہو گی تمہاری سانسساکت ہوگیا ہوگابدناور وہ ساعتکش مکش کا ہو گیا جب خاتمہاب تمہارے کاسہ سر میں دماغبے حس وحرکت ہوالے چلا پانی تمہیں جیسے شجر کا ہو تنارو میں چکراتا ہواگرداب کی گہرائیوں میں لے چلافہمیدہ ریاض اپنی اس نظم میں آگے جا کر لکھتی ہیں :"اس کے جوتے، اک قمیصاور جو کچھ بھی کنارے پر ملا۔"اک پولیس افسر کا ہاتھمجھ کو نرمی سے تھماتاکاغذی بھورا سا تھیلا، مہربنداور میرا اس سے کہنا"شکریہ"گود میں رکھے اسے، چھاتی سے بھینچےچومتی دیوانہ وارروٹھتی منتی ہوئی، کرتی ہوئی باتیں ہزاراتنے دن تک کیوں نہیں دیتے میرے خط کاجواب؟ اللہ ہمیں، آپ سب کو ایسے، ہر قسم کے غموں سے محفوظ رکھے، اللہ کے آخری رسول ﷺ کے بارے میں روایت ہے کہ جب صاحبزادے کی تدفین ہونے لگی توصبر وعزیمت کے کامل ترین پیکر کی چشم مبارک سے بھی آنسو جاری ہوگئے۔
محمد کاظم مشہور لکھاری ہیں، عربی ادب کے حوالے سے وہ مضامین لکھتے رہے، کئی شاندار کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں "عربی ادب کی تاریخ"تو خیر ہے ہی بے مثال ہے، " عربی ادب میں مطالعے"، "اخوان الصفہ اور دیگر مضامین " بھی قابل مطالعہ ہیں، سنگ میل، لاہور نے انہیں چھاپا ہے۔ کاظم صاحب ساٹھ کے عشرے میں جماعت اسلامی کے قریب تھے، مولانا مودودی کے بعض تصانیف کو انہوں نے عربی میں ترجمہ بھی کیا۔ ان کا دس بارہ سالہ بیٹا فوت ہوگیا۔ مولانا مودودی نے تعزیت کے لئے خود آئے نہ خط لکھا۔ محمد کاظم شدید دکھ اور رنج کی کیفیت میں تھے، انہیں اس کا بڑا گہرا صدمہ پہنچا۔ بعد میں اگرچہ مولانا نے پیغام بھجوایا کہ میں اس لئے نہیں آیا کہ آپ سرکاری ملازم ہیں اور جماعت اسلامی ایوب حکومت کی معتوب، آپ کے لئے پریشانیاں پیدا ہوجائیں گی۔ کاظم صاحب کے شیشہ دل میں مگر لکیر آ چکی تھی، خاموشی سے جماعت اور مولانا سے فاصلہ کر لیا۔ اپنے بیٹے کی وفات کا دکھ انہیں پچاس سال بعد اپنے انتقال تک رہا، کہتے تھے کہ اولاد کا غم کبھی پرانا ہو ہی نہیں سکتا۔
کاظم صاحب جیسا ایک قصہ ڈاکٹر شیرافگن مرحوم بھی بیان کرتے تھے۔ ان کا جوان بیٹا حادثے کا شکار ہو کر چل بسا۔ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھی تھے۔ منتظر رہے کہ ان کی قائد ان کا دکھ بٹائے گی۔ معلوم نہیں کیا وجہ بنی کہ محترمہ نے فون تک نہ کیا۔ ڈاکٹر شیر افگن بڑے دلبرداشتہ ہوئے، انہی دنوں جنرل مشرف کی حکومت تھی، انہیں کسی مشیر نے اس حوالے سے رہنمائی کی یا کچھ اور کہ انہوں نے ڈاکٹر شیرافگن سے فون کر کے تعزیت کی اور گھر بھی افسوس کے لئے۔ ڈاکٹر شیرافگن فوری طور پر "پرویزی"بن گئے اور ڈکٹیٹر کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوئے۔ جمیل فخری معروف ٹی وی اداکار تھے، اندھیرا اجالا میں جعفر حسین انسپکٹر کا لازوال کردار انہوں نے ادا کیا۔ بہت خوش مزاج، میل ملاپ والے۔ ان کا جوان بیٹا امریکہ میں حادثے کا شکار ہوگیا۔ اس کی موت نے جمیل فخری کو جیتے جی مارڈالا۔
خود بتاتے کہ بیٹے کے حادثے نے میرا دل، دماغ، روح سب کچھ ہی فنا کر دی ہے، بس سانس چل رہی ہے۔ اس کے بعد وہ کچھ عرصہ جیے، مگر ملنے والے بتاتے کہ زندگی کی رمق تک نہ بچی تھی۔ ہماری، آپ سب کی پسندیدہ اداکارہ روحی بانونے بھی بہت دکھ، صدمے سہے، عروج وزوال دونوں ان کے حصے میں آیا۔ رب کریم اس دنیا میں ملنے والی مشکلات کے صدقے ان کی آخروی زندگی آسان اور خوبصورت بنا دے۔ آمین۔ درداں دی ماری