الیکشن کمیشن کا فیصلہ اس اعتبار سے معقول، منطقی اور مناسب ہے کہ اس میں وہی کچھ کیا گیا جو قانون کا تقاضا تھا۔ ان سے جو توقعات عمران خان مخالف سیاستدانوں خاص کر پی ڈی ایم حکومت نے لگا رکھی تھیں، وہ سب غیر منطقی اور خلاف قانون تھیں۔ الیکشن کمیشن کے پاس قانون کی رو سے یہی اختیارات تھے، جنہیں اس نے استعمال کیا۔ وہ براہ راست کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگا ہی نہیں سکتا۔ اس کے لئے ایک الگ سے طریقہ کار ہے، وفاقی حکومت ریفرنس بھیجتی اور پھر سپریم کورٹ سے یہ ہوتا ہے۔
آئین بنانے والوں نے شائد یہ انتظام اس لئے کیا کہ سیاسی دشمنی میں حکومت وقت یا اس کے زیراثر کوئی الیکشن کمیشن اپوزیشن جماعتوں کی تحلیل کو مذاق نہ بنا لے۔ ن لیگ، پیپلزپارٹی اور مولانا کے حامیوں کی مایوسی دیدنی تھی۔ وہ تو اپنی دانست میں عمران خان کی سیاسی اور قانونی موت کا انتظام کر کے بلکہ شائد اپنے خیال میں اسے دفنا کر سوئے تھے۔ صبح اٹھے تو "بھیا جی"زندہ سلامت، ہنستے مسکراتے نظر آئے۔ مایوس ہونا تو بنتا تھا۔ خیر الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں ان کی تالیف قلب کے لئے کچھ نہ کچھ انتظام تو کیا ہے۔
ایک بات تو واضح ہوچکی کہ یہ فارن فنڈنگ کیس نہیں ہے بلکہ ممنوعہ فنڈنگ کیس ہے۔ ممنوعہ فنڈنگ سے مراد ایسی ہر وہ فنڈنگ ہے جو پاکستانی قوانین(آئین کی کسی شق، الیکشن کمیشن ایکٹ وغیرہ)کے خلاف ہو۔ یہ ممکن ہے کہ پاکستان کے اندر سے بھی کوئی فنڈنگ ممنوعہ قرار پائے۔ جبکہ فارن فنڈنگ لفظ ہی سے اس کا مطلب واضح ہے۔
لفظوں کا ایک خاص تاثر اور امیج ہوتا ہے، ہمارے ہاں عام طور سے فارن فنڈنگ کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ کسی غیر ملکی قوت نے خاص مقصد کے لئے فنڈنگ کی ہو۔ تحریک انصاف کا کیس مگر ممنوعہ فنڈنگ کیس ہے۔ اگرچہ اس میں بنیادی الزامات یہ ہیں کہ انہوں نے کچھ غیر ملکی افراد یا کمپنیوں سے وہ فنڈنگ لی ہے جو پاکستانی قوانین کے مطابق غلط یا ممنوع ہیں۔
یہ کیس آٹھ سال چلتا رہا۔ دیانت داری کا تقاضا ہے کہ تسلیم کیا جائے کہ اس التوا کی زیادہ تر ذمہ داری تحریک انصاف پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے کیس لٹکانے اور لمبا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، درجنوں بار التوا لیا، کبھی الیکشن کمیشن کے حق سماعت کو چیلنج کیا، کبھی کچھ اور۔ یہ سمجھ لیں کہ اب فیصلہ صرف اس لئے ہو پایا کہ تحریک انصاف کے پاس بچنے کے تمام تر قانونی راستے بند ہوچکے تھے۔
عام طور سے کیس تب اتنا لمبا کیا جاتا ہے جب اپنے خلاف فیصلہ آنے کی توقع ہو۔ یہ توقع دو حوالوں سے ہوتی ہے، فیصلہ کرنے والوں کی غیر جانبداری پر شک ہو یا پھر قانونی شواہد اور مواد میں ایسا کچھ ہو جو اپنے خلاف جاتا ہو۔ پچھلے آٹھ برسوں میں ایک سے زائد الیکشن کمیشن عہدے دار آئے، ظاہر ہے سب تو عمران مخالف یا متعصب نہیں ہوسکتے۔ اس لئے میرا ذاتی تاثر یہی تھا کہ تحریک انصاف سے دانستہ/نادانستہ ایسی کچھ تکنیکی غلطیاں ہو گئی ہیں، جن کے باعث اب یہ مشکل میں پھنس سکتے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے اپنے ستر صفحات کے لگ بھگ تفصیلی فیصلے میں کئی نکات پر روشنی ڈالی ہے۔ اب تک آپ لوگوں نے نیوز چینلز وغیرہ کے ذریعے وہ سن لئے ہوں گے۔ ان میں سے اہم یہ فائنڈنگ ہے کہ تحریک انصاف ممنوعہ فنڈنگ میں ملوث رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق پارٹی نے عارف نقوی اور چونتیس غیر ملکیوں سے فنڈز لئے۔ ایک اہم الزام یہ بھی ہے کہ آٹھ اکائونٹس کی ملکیت ظاہر کی اور تیرہ اکائونٹس خفیہ رکھے۔ سب سے سنگین اور شائد قانونی اعتبار سے خطرناک الزام یہ ہے کہ عمران خان نے بیان حلفی میں غلط بیانی کی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق عمران خان نے پانچ سال(2008-2013) تک جو Form-1جمع کرایا وہ ان شواہد سے میچ نہیں کرتا جو الیکشن کمیشن نے سٹیٹ بینک اور دیگر ذرائع سے جمع کئے۔ الیکشن کمیشن نے اسی لئے تحریک انصاف کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا ہے کہ وہ ان امور کی وضاحت کرے۔
کیس میں الزامات بنیادی طور پر تین ہیں۔ پہلا کہ عارف نقوی اور چونتیس مختلف غیر ملکیوں سے مختلف فنڈنگ غیر قانونی طور پر لیں۔ یاد رہے کہ عارف نقوی پاکستانی نژاد ہیں، تاہم الیکشن کمیشن کے فیصلے میں دیگر افراد، کمپنیوں کے نام اور تفصیل موجود ہے جن سے پی ٹی آئی نے عطیات وصول کئے۔ تحریک انصاف کو اس حوالے سے مدلل قانونی جواب دینے کی ضرورت ہے۔ اس میں الیکشن کمیشن سے بھی بعض غلطیاں ہوئی ہیں جو بادی النظر ہی میں غیر منطقی ہیں۔
مثال کے طور پر ایک پاکستانی نژاد امریکی ناصر عزیز نے تحریک انصاف کو ستائیس ہزار ڈالر بھیجے۔ ان صاحب کی دوہری شہریت (پاکستانی، امریکی)ہے۔ ان کی بیگم بھارتی نژاد امریکی شہری ہیں، مس رومیتا شیٹھی۔ یہ جوڑا آج کل سنگا پور میں مقیم ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چونکہ ناصر عزیز نے اپنی بیگم کے ساتھ مشترکہ اکائونٹ سے پیسے بھیجے، الیکشن کمیشن نے اس سے یہ نادر نتیجہ اخذ کیا کہ آدھی رقم بیوی نے بھیجی ہے۔ ہم سب نے ایک آدھ مشترکہ اکائونٹ بنایا ہوتا ہے۔ کون کم بخت ہے جو اپنی بیگم کے ساتھ جوائنٹ اکائونٹ بنانے سے انکار کر سکے۔ اگر میں اپنے جوائنٹ اکائونٹ سے کہیں کسی کو کچھ بھیجوں تو اس سے یہ کیسے نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اس میں سے آدھے پیسے میری بیوی نے بھیجے ہیں۔
اب چونکہ پاکستانی قانون کے مطابق کوئی غیر پاکستانی کسی پاکستانی سیاسی جماعت کو فنڈ نہیں بھیج سکتا۔ اس لئے الیکشن کمیشن نے کھینچ تان کر مس رومیتا شیٹھی کے پیسوں کو ناجائز ممنوعہ فنڈنگ میں ڈال دیا ہے۔ یعنی ناصر عزیز نے ستائیس ہزار ڈالر بھیجے، ان میں سے آدھے تو جائز ہیں مگر آدھے ان کی بیوی کے کھاتے میں ڈال کر انہیں ممنوعہ فنڈنگ کہہ ڈالا۔ یہ وہ نکات ہیں جو اس فیصلے کے خلاف اپیل میں تحریک انصاف کے وکلا یقینی طور پر استعمال کریں گے۔ ایسے کئی نکات موجود ہیں۔
تحریک انصاف کے رہنمائوں نے فیصلے کے بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ بے نامی اکائونٹس کو قانونی ثابت کریں گے۔ یہ بات انہیں اب تک ثابت کر دینی چاہیے تھی۔ الیکشن کمیشن نے جن اکائونٹس کا ذکر کیا، انہیں پہلے ہی مینشن کرنا چاہیے تھا۔ اس حوالے سے بھی تحریک انصاف کی قانونی ٹیم بلکہ اکائونٹنٹس کو محنت کرنا ہوگی۔
سب سے سنگین الزام عمران خان کے غلط بیان حلفی کا ہے۔ یہ وہ چیز ہے، جس پر انہیں کسی بھی قسم کی سزا ہوسکتی ہے، نااہلی وغیرہ۔ اگرچہ بعض قانون دانوں کا کہنا ہے کہ اس بیان حلفی میں اور الیکشن کے موقعہ پر دئیے گئے بیان حلفی کی سطح میں فرق ہے۔ ممکن ہے ایسا ہو، مگر میرے خیال میں اس ایشو پر تحریک انصاف کو بھرپور طریقے سے قانونی جنگ لڑنا ہوگی۔ یہ مسئلہ صرف سیاسی جنگ اور پرجوش سیاسی بیانیہ سے حل نہیں ہوگا۔ اگر تحریک انصاف مستقبل میں اپنے قائد کو کسی بڑی قانونی مصیبت سے محفوظ رکھنا چاہتی ہے تو الیکشن کمیشن کے فیصلے پر اپیل میں بہترین قانون دانوں اور کارپوریٹ لاز کے ماہرین کو ہائر کرے اور مفت کے وکیل ڈھونڈنے کے بجائے اس پر رقم خرچ کرے۔ اگر اچھے طریقے سے یہ کیس نہ لڑا گیا تو مجھے خدشہ ہے کہ پانامہ والے کیس کا سا انجام ہوگا۔
پی ڈی ایم والے اپنے حساب سے پروپیگنڈہ میں لگے ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی شعلہ بیان رہنما مریم نواز شریف، مریم اورنگ زیب اور دیگر مسلسل آگ برسانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان الزامات میں سے بیشتر بے بنیاد اور فضول ہیں۔ یہ کہنا ہی غلط ہے کہ تحریک انصاف کو غیر ملکی قوتوں نے فنڈنگ کی۔ کیا غیر ملکی قوتیں یا ادارے اپنی خفیہ فنڈنگ کے پیسے بینک کے تھرو بھیجتی ہیں؟ ایسے قانونی ذرائع سے جس پر ہر پاکستانی ادارے کی رسائی ہو اور بھیجنے والے کا نام بھی پتہ چل جائے۔ کیا غیر ملکی قوتیں یا ادارے اتنے ہی چغد اور ڈفر ہوتے ہیں؟ ظاہر ہے نہیں۔ یہ صرف ن لیگ کی پوائنٹ سکورنگ ہے جس کا فائدہ شائد نہ مل سکے۔
ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے سے عمران خان یا تحریک انصاف کو سیاسی ڈینٹ پڑا ہے۔ یہ اس طرح کا فیصلہ نہیں جیسا میاں نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس میں آیا تھا۔ تب وہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ تھا، جس میں اپیل کا موقعہ بھی نہیں تھا۔ حالیہ فیصلہ الیکشن کمیشن کا ہے، جس کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کی جا سکتی ہے۔ میاں نواز شریف کا اقامہ والا معاملہ انکی وزارت عظمیٰ کے دور کا تھا۔ تحریک انصاف کا یہ کیس تب کا ہے جب عمران خان سیاسی طور پر کچھ بھی نہیں تھے اور انکے پاس کوئی پبلک آفس(سرکاری عہدہ) موجود نہیں تھا۔ اس سے تھوڑی بہت رعایت کا پہلو تو نکلتا ہے، مگر تھوڑا بہت۔
غلط بیانی بہرحال ہوئی ہے، کئی اکائونٹس کی تفصیل بھی فراہم نہیں کی گئی، کیس کو غیر ضروری طویل بھی کھینچا گیا، باہر سے فنڈ ز لیتے ہوئے تب دانشمندی اور دور اندیشی کا مظاہرہ بھی نہیں کیا گیا۔ غلطیاں تحریک انصاف سے ہوئی ہیں، ان کا خمیازہ بھی اسے بھگتنا پڑے گا۔ انہیں ڈیمیج کنٹرول کی کوشش کرنا ہوگی اور اس بار یہ سیاسی سے زیادہ قانونی طریقے سے ہوپائے گا۔