Guzara Karna Seekh Lain
Amir Khakwani106
افواہوں، غلط بیانیوں، گھٹیا سازشی نظریات اورپلانٹیڈ خبروں کا ایک ریلا ہے جو حقائق اور سچ کی فصیلوں سے سر پٹخ پٹخ کر اندر گھسنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ جھوٹی خبروں، بے بنیاد تجزیوں اور طعنے، کوسنے دینے سے کبھی سچ مغلوب ہوا؟ وقتی طور پرچند آنکھیں ضرورچندھیائی جا سکتی ہے، مگر یہ ممکن نہیں کہ زیادہ دیر تک ہر ایک کو بے وقوف بنایا جائے۔ بلبلہ خواہ کسی قدر بڑا ہو، اسے چند لمحوں بعد پھٹنا ہی ہے، سورج نکلنے، دھوپ پڑنے سے گھاس پر گری نمی رخصت ہوجاتی ہے۔ یہ قوانین قدرت ہیں۔ کسی کی خواہش یا چاہنے سے تبدیل نہیں ہوسکتے۔ چار پانچ ایسے نکات ہیں جن پر تجزیہ کاربڑے اہتمام سے گرد اڑا اور کنفیوژن پھیلا رہے ہیں۔ معمولی سا غور کیا جائے توگرد چھٹ جانے سے اصل تصویر سامنے آ جائے گی۔ عمران خان نے اپوزیشن کو متحد کر دیایہ نکتہ مسلسل تجزیہ کاروں اور نام نہاد سیاسی پنڈتوں کی جانب سے بیان کیا جا رہا ہے۔ اگلے روز ایک سینئر ساتھی نے اپنے طویل اخباری تجزیے میں تکرار سے یہ بات کہی کہ تحریک انصاف کی غیر دانشمندی کی وجہ سے اپوزیشن متحد ہوگئی، حالانکہ شروع کے چار پانچ ماہ میں کبھی اپوزیشن جماعتیں اکٹھی نہیں ہوتیں اور ڈیڑھ دو سال بعد یہ کام کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے تجزیے پڑھ کر آدمی محظوظ ہی ہوسکتا ہے۔ ان بھولے بادشاہوں کے ساتھ ہمدردی ہی ہوسکتی ہے جوموجودہ اپوزیشن کو الگ الگ سمجھتے تھے۔ یارو!یہ سب تحریک انصاف سے ڈسے ہوئے، شکست خوردہ عناصر ہیں۔ ہر ایک کو تحریک انصاف نے نقصان پہنچایا۔ کسی کا سرمایہ حیات لوٹ لیا، کوئی سیاسی دیوالیہ ہوگیا تو کسی کو خوف ہے کہ اگر یہ حکومت ڈیلیور کر گئی تو ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہوجائے گا۔ 2018ء کے انتخابات بنیادی طور پر تحریک انصاف بمقابلہ آل تھے۔ ہارنے کے بعد اپوزیشن میں بیٹھنے والی جماعتیں پہلے روز سے اس نکتہ پر متفق ہیں کہ تحریک انصاف سے جان چھڑائی جائے۔ اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ حکومت نے انہیں متحد کیا۔ معیشت تباہ ہوگئیایمانداری کی بات ہے کہ اس سے زیادہ بے بنیاد اور غلط بات اورکیا ہوسکتی ہے۔ معیشت کا حقیقی بیڑا غرق پچھلے چندبرسوں میں ہوا۔ ہمارا سب سے بڑا معاشی بحران یعنی بیلنس آف پیمنٹ کا ایشو پیدا ہی ن لیگ کے دور میں ہوا۔ اس سے پہلے پچیس ارب ڈالر کی ایکسپورٹ تھی، مسلم لیگ ن کی عاقبت نااندیشانہ پالیسیوں کے باعث وہ اٹھارہ انیس ارب ڈالر تک گر گئی۔ امپورٹ ایکسپورٹ میں فرق اتنا بڑھ گیا کہ آج ہمیں دوست ممالک سے ڈالر کی بھیک مانگنی پڑ رہی ہے۔ زرداری حکومت ختم ہونے پر نواز شریف حکومت نے بڑا شورمچایا کہ ساڑھے چار سو ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ (گردشی قرضہ)چھوڑ کر گئے ہیں، اسے کس طرح ہینڈل کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ اپنی بار ی پر مسلم لیگ ن گیارہ سو ارب روپے کا گردشی قرضہ چھوڑ کر گئی ہے۔ ن لیگ کے ترجمان بڑی ڈھٹائی سے اپنی حکومت کے معاشی ثمرات گنواتے ہیں تو کراہت ہوتی ہے۔ اتنا سفید جھوٹ۔ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہےیہ فقرہ ہر طرف سے سننے کو مل رہا ہے۔ اس میں دانستہ طور پر مبالغہ آمیزی بھر دی گئی ہے۔ ہر سال بعض شعبوں میں قیمتیں بڑھتی ہیں، یہ منڈی کا آٹومیٹک رویہ ہے، اسے روکنا آسان نہیں۔ کسی کو یاد ہے کہ دود ھ دہی کی قیمت پانچ سات سال پہلے کتنی تھی؟ ظاہر ہے آج والی قیمت سے ایک تہائی کم۔ ہر سال یہ بڑھتی ہے۔ بڑھتی رہے گی، کیونکہinputs مہنگے ہیں، کسی حکومت نے ان چیزوں کے ریٹس فکس کرنے کا کوئی منظم نظام وضع ہی نہیں کیا۔ ڈالر مہنگا ہونے سے ظاہر ہے امپورٹڈ چیزیں مہنگی ہوگئیں۔ امپورٹڈ چاکلیٹ، پنیر، موبائل وغیرہ۔ عام آدمی کا مگر ان سے کیا تعلق ہے؟ کروڑوں افراد پر مشتمل نچلے اور متوسط طبقے کا اصل مسئلہ روزمرہ کی اشیائے ضرورت ہیں، جن کے بغیر گزارا نہیں۔ وہ کہاں مہنگی ہوئی ہیں؟ آٹا اسی نرخ پر مل رہا ہے، گھی، چائے، چینی اسی ریٹ پر دستیاب ہیں۔ سبزیاں حیران کن طور پر سستی ہوئی پڑی ہیں، اتنی کہ یقین نہ آئے۔ اس موسم میں مٹر ہمیشہ نوے، سو روپے کلو ملتے تھے، اب تو تیس چالیس روپے کلو مل رہے ہیں، آلو کی فصل زیادہ ہوگئی تو آلو پچاس روپے کی تین چار کلو تک مل رہے ہیں۔ میتھی جو سردیوں کی عام سبزی ہے، آلو میتھی، میتھی کے پراٹھے وغیرہ ہر گھر میں بنتے ہیں، بیس روپے کلو مل رہی ہے۔ یہی حال بینگن اور دیگر سبزیوں کا ہے۔ مرغی کے گوشت کا نرخ آج ہی گزرتے دیکھا، 175 روپے کلو۔ ہر سال انہی دنوں میں چکن ڈھائی سو تک چلی جاتی ہے۔ یہ ہرگز نہیں کہہ رہا کہ سبزیاں موجودہ حکومت کی وجہ سے سستی ہوئی ہیں، وجوہات ان کی کچھ اورہی ہوں گی۔ ہمارے میگا سٹار تجزیہ نگاروں نے برسوں سے بازار جانا، خریداری کرنا چھوڑ رکھا ہے۔ ہماری طرح سودا سلف لینے خود جائیں تو حقیقت کا علم ہو۔ گیس ضرور مہنگی ہوئی، لیکن ہر سال سردیوں کے آغازمیں گیس اور گرمیوں سے پہلے بجلی مہنگی ہوتی ہے۔ پچھلے سال الیکشن کے چکر میں گیس مہنگی نہیں کی گئی تو اس بار وہ حساب بھی شامل ہوگیا۔ حکومت نے ابھی تک کوئی کرشمہ نہیں دکھایا۔ مہنگائی کا طوفان بھی مگرنہیں آیا۔ میڈیا پردانستہ مخصوص تاثر بنایا گیا۔ کون سا این آر او؟ حکومت مسلسل یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ اپوزیشن این آر او مانگ رہی ہے، لیکن ہم ایسا نہیں کریں گے۔ دوسری طرف اپوزیشن اس پر سخت برہم ہو کر کہتی ہے کہ کون سا این آر او؟ بھائی لوگو، جب آپ احتساب کے عمل کو روکنے کی بات کرتے ہیں توایک طرح سےNROمانگ رہے ہیں۔ منی لانڈرنگ، جعلی بینک اکائونٹس، کرپشن کے ملزموں کے خلاف نیب کی تحقیقات بند کرنااین آر او ہی ہے۔ NROاور کیا تھا؟ یہی ناں کہ ہمارے خلاف جو مقدمات ہیں، وہ ختم کئے جائیں اور ہم دودھ کے دھلے بن کر پھر سے مزے لوٹنے شروع کر دیں۔ اپوزیشن آج وہی تو کہہ رہی ہے۔ حکومت کے پاس صرف چھ ماہ ہیں یہ درفنطنی نجانے کس نے چھوڑی؟ یہ اپنی جگہ درست کہ عمران خان اور ان کے وزیروں کی ناتجربہ کاری، عجلت اور کئی حوالوں سے مس ہینڈلنگ نمایاں ہے، اس کا یہ مطلب کیسے کہ چند ماہ بعد حکومت گر جائے گی؟ ایک لمحے کے لئے فرض کر لیں کہ ایسا ہوجائے تو پھر اس کی جگہ کون آئے گا؟ جیل میں اپنے شب وروز گزارنے والے شریف برادران یا پھر جعلی بیک اکائونٹس کیسز میں گلے گلے تک پھنسے زرداری صاحب؟ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی ٹوٹ پھوٹ کے خطرے سے دوچار ہے، ایسے میں کون بے وقوف حکمران جماعت یا اتحاد چھوڑ کر ان کے ساتھ ملے گا؟ چودھری برادران کیا اتنے بھولے ہیں کہ زرداری صاحب کا اس ڈوبتے وقت ہاتھ پکڑیں گے؟ اسٹیبلشمنٹ میں بیٹھے منصوبہ ساز بھی ایک کروڑ ستر لاکھ ووٹ لینے والی جماعت اور ایک پاپولر لیڈر جسے پنجاب، کے پی اور کراچی میں یکساں مقبولیت حاصل ہے، اسے یکایک گرانے پر تُل جائیں گے؟ آخر کیوں؟ کیا عالمی حالات ایسے ہیں کہ یہاں پر مارشل لاء لگایا جائے؟ یہ تو آخری اور انتہائی مجبوری کی آپشن ہوتی ہے، اس وقت تو اس کے پانچ فیصد چانسز بھی نہیں۔ صدارتی نظام لانا آسان ہے؟ اس کے لئے بے پناہ جتن کرنے پڑیں گے اور پھر ایسا نامعقول، غیر مقبول خیال تب ہی آگے بڑھ سکتا ہے، جب اس کے پیچھے عمران خان جیسا مقبول عوامی لیڈر موجود ہو۔ موجودہ حکومت کی بساط آخر کیوں الٹی جائے؟ اس کی ایک منطقی دلیل ہی دے دی جائے تو ہم اس بچکانہ سازشی تھیوری پر یقین لے آئیں گے۔ ہمارے ایک فیس بکی دوست ہیں، بلاگ لکھنے سے شوق فرماتے ہیں، گوچال میں ڈگمگاہٹ ہے، کبھی ادھر لڑھک گئے، کبھی پرلی طرف جا نکلے۔ ایک مزے کا واقعہ اگلے روز انہوں نے لکھااور اس کا راوی میجر عامر کو بتایا۔ وہی میجر عامر، آپریشن مڈنائیٹ جیکال فیم، انتہائی باخبر، متحرک اور رابطوں والے انسان، بقول شخصے خبر جن تک اڑ کر پہنچتی ہے۔ اسلام آباد میں ان کا گھر اخبارنویسوں کا مسکن بنا رہتاہے، خبریں اور کبھی آف دی ریکارڈ معلومات کے سوتے جہاں سے پھوٹتے ہیں۔ انہوں نے ایک غصہ ور قبائلی شخص کا قصہ بیان کیا جو اشتعال میں کئے جرم کی بنا پر برسوں سے جیل میں تھا۔ رہائی کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے قیدی ساتھیوں سے کہا کہ میرا بستر، کمبل وغیرہ سنبھال کر رکھنا، بیرک میں میری خاص چارپائی کی بھی حفاظت کرنا، میں جاتے ہی اپنے دشمن سے بدلہ لے کر چند دنو ں میں واپس جیل پہنچ رہا ہوں۔ رہاہوگیا، دو چار ہفتے گزر گئے، مگر اس کی کوئی خبر جیل نہ پہنچی۔ کچھ دن مزید انتظار کے بعد اس کے ساتھی قیدیوں نے ملاقات پر آئے کسی شخص کے توسط سے رہاہونے والے دوست کو پیغام بھیجا کہ تمہاری چارپائی، بستر، کمبل حتیٰ کہ تمہارا پانی پینے والا مگ تک سنبھال کر رکھا ہوا ہے، جلدی واپس آئو۔ چند دنوں بعد جوابی پیغام ملا، آپ لوگوں کا شکریہ، مگر اب چارپائی، بستر سنبھالنے کی کوئی ضرورت نہیں، اسے کسی کو دے دو، اب میرا جیل آنے کا کوئی ارادہ نہیں کیونکہ میں نے گزارا کرنا سیکھ لیا ہے۔ اخبارنویسوں کواچھا لگے یا برا، میڈیا کو اشتہار کم ملیں یا زیادہ، تجزیہ کاروں کی انامزید مجروح ہو یا ان کی تسکین کی کوئی صورت بن جائے، …حالات اور قرائن یہ بتاتے ہیں کہ ابھی خاصا عرصہ انہیں عمران خان کاسامنا کرنا پڑے گا۔ گزارا کرنا سیکھ لیں تو اچھا ہے۔ گزارا کرنا سیکھ لیں