Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Imran Khan Ke Pas Kya Options Hain?

Imran Khan Ke Pas Kya Options Hain?

عمران خان کا دور تمام ہوا۔ ساڑھے تین سال سے کچھ زیادہ عرصہ گزار کر وہ تاریخ کا حصہ بن گئے۔ ایک اور وزیراعظم جو اپنی مدت مکمل نہیں کر سکا۔ عمران خان کی حکومت، ان کی کارکردگی، حکومتی خوبیاں، خامیاں، یہ سب اب تاریخ کا ایک باب ہے۔ اس پر تجزیے، تبصرے آتے رہیں گے۔ آج کل تو ویسے ہی ہنگامی حالات چل رہے ہیں، ہر روز کوئی نیا واقعہ، نیا ایشو، جو فوری تبصرے کا متقاضی ہوتا ہے۔ ذرا سکون اور یکسوئی ملے تو عمران کے دور کا تفصیلی تجزیہ کریں گے۔

اس وقت تو سوال دو ہی ہیں۔ اپوزیشن اتحاد جو اب حکومت میں آ چکا ہے، اپنے فطری تضادات اور سودے بازی کے شائق چھوٹے گروپوں کے باوجود کتنا عرصہ حکومت چلا پائے گا؟ ابھی تو حکومت سازی کا عمل جاری ہے، کابینہ بنے گی اور پھر ممکن ہے ہر کچھ عرصے بعد کسی نہ کسی گروپ کے شاکی ہونے کی خبریں سنی جائیں۔

دلچسپ صورتحال بلوچستان میں پیدا ہوچکی ہے جہاں کی تقریباً تمام نمایاں سیاسی جماعتیں حکومتی اتحاد میں شامل ہیں۔ اختر مینگل کی جماعت، ڈاکٹر مالک بلوچ کی نیشنل پارٹی، محمود اچکزئی کی جماعت پختون خواہ میپ، شاہ زین بگٹی کی جمہوری وطن پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)وغیرہ۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف ان سب سے کیسے نمٹتے ہیں؟ جسے وزیر بنائیں گے، دوسرا ناراض ہوجائے گا۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟ کیا وہ اقتدار میں واپس آ پائیں گے؟ یہ سوال الیکشن سے بھی جڑا ہوا ہے کہ آئندہ عام انتخابات ہی سے عمران خان کے لئے کوئی راہ نکل سکتی ہے۔ یہ کالم لکھنے سے پہلے ڈی جی آئی ایس پی آر کی بہت اہم پریس کانفرنس سامنے آئی، جس سے یہ تو کلیئر ہوگیا کہ ایکسٹینشن لینے کی آپشن نہیں اور آرمی چیف اپنی مدت مکمل کر کے انتیس نومبر کو ریٹائر ہوجائیں گے۔ اس سے یقینی طور پر افواہوں کاخاتمہ ہوگا۔

پریس کانفرنس میں کئی اور اہم باتیں بھی کی گئیں، مگر ریٹائرمنٹ والی بات سن کر مجھے احساس ہوا کہ شہباز شریف حکومت اگلے نو دس ماہ تک لازمی رہے گی۔ جو حلقے جلد الیکشن کی بات کر رہے ہیں، انہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ الیکشن دسمبر جنوری 2023سے پہلے ممکن نہیں ہوگا۔ وزیراعظم شہباز شریف یقینی طور پر نئے تقرر خود کرنا چاہیں گے۔

عمران خان البتہ بہت جارحانہ موڈ میں نظر آ رہے ہیں۔ کسی ایسے کھلاڑی کی طرح جس کی میچ فیس کٹ گئی ہو یا کوئی اور جرمانہ ہوا اور وہ مشتعل ہو کر اگلے میچ میں نہایت تباہ کن بائولنگ کرانے کا عہد کئے بیٹھا ہو۔ خان صاحب کی کوشش ہے کہ اگلے انتخابات جلد سے جلد ہوجائیں، تین چارماہ کے اندر۔ انہیں لگ رہا ہے کہ وہ اپنی احتجاجی سیاست کا ٹمپو تب تک جاری رکھیں گے اور الیکشن میں فائدہ ملے گا۔

عمران خان کی سیاست کے حوالے سے دو باتیں تو ماننا پڑیں گی۔ ان کی سپورٹ بیس پہلے جیسی پوزیشن میں آ گئی ہے۔ ساڑھے تین سالہ بری حکومت کارکردگی اور نالائق ٹیم کی وجہ سے پی ٹی آئی کا کارکن دلبرداشتہ ہوگیا تھا۔ ان میں سے کچھ سائیڈ پر ہوگئے، جبکہ باقیوں کے لئے حکومت کا دفاع کرنا مشکل ہوگیا تھا۔

متحدہ اپوزیشن اتحاد نے جس طرح عمران خان کی حکومت پر حملہ کیا، ان کے اراکین منحرف کئے اور پھر انہیں نہایت ڈھٹائی آمیز دیدہ دلیری کے ساتھ سندھ ہائوس رکھ کر ٹی وی چینلز کو انٹرویو دلوائے۔ اس سے برہم ہو کر پی ٹی آئی کارکن کسی طاقتور مقناطیس سے چپک جانے والے لوہے کے ذرے کی طرح واپس اپنی پارٹی کی طرف آیا۔

عمران خان نے سفارتی مراسلہ کا کارڈ بڑی ہوشیاری سے کھیلا اور وہ جو تاثر بنانا چاہتے تھے، اس میں کامیاب ہوئے۔ سات مارچ کو ملنے والے مراسلے کو انہوں نے ستائیس مارچ کے عوامی جلسہ میں بے نقاب کیا اور تب سے غیر ملکی سازش کی ایسی رٹ لگائی کہ ان کے کارکنوں اور حامیوں کے علاوہ غیر جانبدار عوامی حلقوں کے بڑے حصے کو اس پر یقین آگیا۔ اب کوئی جو بھی کہے، عوام کا بڑا حصہ حکومتی علیحدگی کو کسی سازش کا حصہ ہی سمجھتا ہے اور عمران خان کے اینٹی امریکہ بیانیہ کو بھرپور عوامی پزیرائی مل رہی ہے۔ دس اپریل کو جس طرح ملک بھر میں لوگ دیوانہ وار رات کو نکلے اور اب پشاور میں ایک غیر معمولی جلسہ کر کے عمران خان نے اشارہ دے دیا ہے کہ بڑے اجتماعات اورشو آف پاور کا نیا سلسلہ چلے گا۔

اگر الیکشن جلدہوئے تو اب عمران خان حکومت کی کارکردگی کے بارے میں نہیں پوچھا جائے۔ یہ باتیں پیچھے چلی گئیں۔ عمران خان نے نیا ایجنڈا سیٹ کر دیا ہے اور پی ٹی آئی کے حامی متحد اور یکسو ہو کر ان کے پیچھے کھڑے ہیں۔ کم از کم مجھے توکوئی شک نہیں کہ ستائیس مارچ کے اسلام آباد جلسہ اور تیرہ اپریل کو پشاور جلسے کی طرح کراچی اور لاہور میں بھی تاریخ ساز اجتماعات ہوں گے۔

عمران خان کے علاوہ کوئی بھی سیاسی لیڈر رمضان اور گرم موسم میں ایسے جلسے رکھنے کا فیصلہ اور فیصلہ نہیں کر سکتا۔ رمضان میں معمولات اس قدر تبدیل ہوجاتے ہیں کہ روزہ افطار کے بعد تھکن کے مارے گھر سے نکلنا محال ہوتا ہے۔ عمران خان کے حامی مگر جوق در جوق باہر نکل رہے ہیں۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ درست، مگر پاکستانی سیاست صرف اسی کا نام نہیں اور یہاں اقتدار میں آنے کے لئے صرف یہی فیکٹر کافی نہیں۔ عمران خان کا بیانیہ تین نکات پر مشتمل ہے۔ امریکہ نے میری حکومت ختم کرنے کا متکبرانہ حکم دیا، پاکستان میں متحدہ اپوزیشن اتحاد آلہ کار بنا اور اس امریکی ایجنڈے کو مکمل کیاجبکہ جنہیں اس ایجنڈے کو روکنا چاہیے تھاوہ سائیڈ پر رہے، تیسرا یہ کہ وہ" چوروں کے اس ٹبر"کے ساتھ کوئی تعاون یا بات نہیں کرے گا اور پھر حکومت میں ا ٓکر ان کے خلاف کرپشن کیسز مکمل کرے گا۔

اس بیانیہ میں عوام کے لئے کشش ہے کیونکہ یہ بہت سادہ ہے اور عام آدمی کے جذبات اور امنگوں کے قریب۔ پاکستان میں بے شک لوگ امریکی ویز ا لینے کو تیار رہتے ہیں، مگر وہ امریکی حکومتی پالیسیوں اور اس کے ایجنڈے کے شدید نقاد ہیں۔ امریکہ کی حمایت کر کے کوئی سیاسی جماعت عوامی پزیرائی نہیں لے سکتی۔ عمران خان کے اس بیانیہ میں مگر دو کمزوریاں با ئی ڈیفالٹ موجود ہیں۔

یہ سیاسی تنہائی میں لے جاتا ہے۔ جب آپ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو کرپٹ، چور، ملک دشمن، غدار وغیرہ کہہ دیں تو اس کا مطلب ہے کہ ان کے ساتھ حال اور مستقبل میں کسی قسم کا رابطہ، تعلق، تعاون ممکن نہیں۔ اس کا مطلب یہ کہ عمران خان کو اپنی اگلی تمام تر سیاست اکیلے کرنا پڑے گی۔

ماضی میں بھی میاں نواز شریف نے اپنے سیاسی جوڑ توڑ سے عمران خان کو تنہا کر دیا تھا، مگر تب عمران کو مقتدر قوتوں، میڈیا کے بڑے حصے اور کئی مختلف طبقات کی حمایت حاصل تھی۔ وہ پاکستان میں اینٹی نواز شریف ووٹ بینک کے بیٹھے بٹھائے وارث بن گئے تھے۔ ہر وہ شخص جو شریف برادران کی سیاست سے اختلاف کرتا تھا، پنجاب میں اس کے لئے پی ٹی آئی ہی واحد آپشن تھی۔ اب چیزیں مختلف ہیں۔

عمران خان ایک بار آزمائے جا چکے ہیں۔ دوسری طرف میاں نواز شریف چند سال مشکلات کا شکار رہے، جیل بھی کاٹی اور پی ٹی آئی کے بعض اہم دھڑے اب عمران خان کے ساتھ نہیں رہیں۔ عمران خان کو اس سیاسی تنہائی سے نکلنا ہوگا۔ مجبوری یہ ہے کہ اس کے لئے انہیں اپنے موقف میں کچھ گنجائش پیدا کرنا پڑے گی، کچھ نرمی، سپیس وغیرہ، مگرلڑائی کے اس مرحلے پر وہ ایسا کر نہیں سکتے۔ یوں تنہا ہی رہیں گے۔

دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ خان صاحب اینٹی امریکہ نعرے میں خاصا آگے چلے گئے ہیں۔ وہ حکمران اتحاد کو نشانہ بناتے ہوئے بھی ضرورت سے زیادہ تلخ ہو جاتے ہیں۔ پشاور کے جلسہ میں انہوں نے ایک نہایت غیر ذمہ دارانہ جملہ کہا کہ کیا پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو ان چوروں پر چھوڑا جا سکتا ہے؟ یہ بات بالکل نہیں کہنی چاہیے تھی اور گزشتہ روزڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں اس حوالے سے درست تنبیہ دی گئی کہ ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے کچھ غیر ذمہ دارانہ نہیں کہنا چاہیے۔ عمران خان کو سمجھنا چاہیے کہ ان کے ایسے ہر بیان کو بھارتی میڈیا کوریج دے گا اور بھارت اسے اپنی سفارتی مہم کا حصہ بنائے گا۔

عمران خان اس وقت تازہ تازہ حکومت سے الگ ہوئے ہیں، ان میں تلخی اورغصہ جھلکتا ہے۔ ان کے سیاسی مشیروں کو سمجھانا چاہیے کہ اپنے بیانیہ کو تیز رکھیں، مگر اداروں پر حملہ آور نہ ہوں اور بین الاقوامی تعلقات کی نزاکتوں کا بھی خیال رکھیں۔ اگر عمران خان اقتدار میں جلد واپسی چاہتے ہیں اورآئندہ الیکشن میں میدان مارلینے کے خواہاں ہیں تو انہیں تمام سٹیک ہولڈرز کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔

وہ اقتدار چھوڑ تے وقت خود کو ایک غیر ذمہ دار شخص ثابت کر چکے ہیں، جو کچھ بھی کر سکتا ہے، کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ یہ تاثر پاور گیم کے کسی کھلاڑی کے لئے زہر ہلاہل کی حیثیت رکھتا ہے۔ عمران خان کو یہ تاثر اور رویہ بدلنا ہوگا۔ انہیں اپنی غلطیوں سے سیکھناچاہیے۔

سوال تو مگر یہ بھی ہے کہ کیا عمران خان کے پاس وقت ہے کہ وہ کراچی، لاہور کے جلسوں سے پہلے اپنے کارڈز کا ازسرنو جائزہ لے کربیانیہ میں کچھ ایڈجسٹمنٹ کر سکے؟