چند ماہ پہلے میں نے اپنی تحریروں کے لئے واٹس ایپ گروپ بنائے۔ اس کی بڑی وجہ فیس بک کی سخت سنسر پالیسی ہے۔ فیس بک پر ہم بہت سی چیزیں پوسٹ نہیں کرسکتے۔ کئی ایسے الفاظ ہیں جو اگر کسی پوسٹ میں ہوں تو فیس بک کا خاص الگورتھم اسے پکڑ لیتا ہے۔ بعض اوقات تو آئی ڈی یا پیج بھی اڑا دیا جاتا ہے۔ تنگ آ کر ہم نے اپنے پڑھنے والوں کی سہولت کے لئے کچھ واٹس ایپ گروپ بنا لئے۔
میں اپنے واٹس ایپ گروپوں کو صرف اپنی تحریریں (کالم، بلاگ، سوشل میڈیا سٹیٹس)لگانے کے لئے استعمال کرتا ہوں۔ گروپ چونکہ سولہ سترہ ہیں، اس لئے انہیں مینیج کرنا بھی آسان نہیں۔ کمنٹس آپشن بند رہتی ہے، کبھی کبھار کچھ دیر کے لئے کمنٹس اوپن کر کے کچھ گپ شپ لگ جاتی ہے۔ اس گپ شپ سے مجھے اندازہ ہوا کہ پروپیگنڈہ کی قوت سے بعض کمزور اور غلط باتوں کو بھی یوں بنا دیا جاتا ہے کہ سادہ لوگ اس پر یقین لے آتے ہیں۔ تکنیک وہی ہے کہ ایک جھوٹ بار بار بولا جائے، حتیٰ کہ لوگ یا ان کا ایک حلقہ اس پر یقین کرنے لگیں۔ مثال کے طور پرکئی لوگوں نے مجھ سے یہ کہا کہ دیکھیں عدالتوں نے ایک جیسے دو کیسز میں دو مختلف فیصلے سنائے ہیں، یہ کتنی زیادتی ہے۔ اس پر حیرت زدہ رہ گیا کہ کس طرح دو انتہائی مختلف کیسوں کو ایک سا کیس کہا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے تو ن لیگی رہنمائوں سی دیدہ دلیری، دروغ گوئی اورفکری بددیانتی درکار ہے۔
بات ایک منٹ میں سمجھی جا سکتی ہے۔ ایک کیس میں تحریک انصاف کے پچیس ارکان اسمبلیوں نے فلور کراسنگ کی، لوٹے بن گئے اور اپنی جماعت کے امیدوار چودھری پرویز الٰہی کے بجائے مخالف امیدوار حمزہ شہباز کو ووٹ دے کر انہیں جتوایا۔ یہ آئین کی صاف خلاف ورزی تھی، اس پر وہ ڈی سیٹ ہوگئے۔ آئین یہی کہتا ہے، یہی ہونا تھا۔ آئین اس معاملے میں ایک شرط بھی عائد کرتا ہے کہ وہ ارکان اسمبلی اگر پارلیمانی پارٹی کی ہدایت پر عمل نہ کریں تب ان کے خلاف کارروئی ہوگی۔ کارروائی کے لئے پارٹی کا سربراہ خط لکھے گا۔ اس کیس میں تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سبطین خان کی جانب سے منحرف ارکان اسمبلی کو آفیشل خط جاری کیا گیا تھا، یہ احتیاط بعدمیں کام آئی۔
دوسرے کیس میں مسلم لیگ ق کے ارکان اسمبلی نے اپنی ہی پارٹی کے لیڈر اور رکن اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کو ووٹ دیا۔ مسلم لیگ ق کے پارلیمانی لیڈر ساجد بھٹی نے تمام ارکان اسمبلی کو آفیشل خط لکھا کہ چودھری پرویز الٰہی ہی ہمارا امیدوار ہے، اسے ہی ووٹ ڈالنا ہے۔ اس ہدایت پر عمل ہوا، پرویز الٰہی کو ووٹ ڈال دیاگیا۔ یہ سب نہایت مناسب اور آئینی اور قانونی اعتبار سے درست تھا۔
اس کیس میں ارکان اسمبلی کے بجائے پارٹی کے سربراہ چودھری شجاعت حسین دراصل منحرف ہوئے اور وہ زراری صاحب سے جوڑ توڑ کے بعد ایسے بدلے کہ انہوں نے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کو خفیہ خط لکھ دیا کہ ق لیگ کے ارکان اسمبلی اگر پرویز الٰہی کو ووٹ ڈالیں تو انہیں گنتی میں شمار نہ کریں۔ چودھری شجاعت کی یہ ہدایت واضح طو رپر بدنیتی پر مبنی تھی۔ انہیں اس کا کوئی حق حاصل نہیں تھا۔ ڈپٹی سپیکر نے بھی صاف بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گنتی مکمل ہوجانے کے بعد ق لیگ کے دس ووٹوں کو نااہل قرار دیا۔ یہ سب کچھ غلط، غیر آئینی، غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر سیاسی تھا۔ دنیا کی کوئی عدالت ہوتی، کوئی سے بھی جج ہوتے، انہوں نے اسے غلط ہی کہنا تھا۔
یہ بات ن لیگ بھی جانتی تھی کہ جو بھی جج یا بنچ ہوگا فیصلہ یہی آئے گا۔ اس لئے انہوں نے کسی دوسرے بنچ یا لارجر بنچ (پانچ، چھ یا سات ججز پر مشتمل)کا مطالبہ نہیں کیابلکہ فل کورٹ کی رٹ لگائے رکھی۔ انہیں معلوم تھا کہ آدھی سے زیادہ سپریم کورٹ بیرون ملک تعطیلات پر ہے اور ستمبر کے وسط سے پہلے فل کورٹ ہو نہیں سکتا۔ مقصد یہی تھا کہ اس چکر میں حمزہ شہباز مزید دو ماہ وزیراعلیٰ رہیں اور پھر وہ جوڑ توڑ کر کے مزید ارکان اسمبلی منحرف کرا سکیں۔ فیصلہ خلاف آیا تو ن لیگ اور پی ڈی ایم رہنمائوں نے نہایت درجے کی دروغ گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بار بار یہ کہنا شروع کر دیا کہ عمران خان عدالتوں کا لاڈلا ہے۔
اب اسی بات کو لے لیں کہ عمران خان عدالتوں کا لاڈلا ہے۔ آخر کیسے؟ پچھلے آٹھ نو سال کو لے لیتے ہیں۔ 2013ء الیکشن کے بعد عمران خان نے دھاندلی کا شور مچایا اور احتجاجی تحریک چلائی۔ عدالتوں نے خان کو کوئی لفٹ نہیں کرائی۔ وہ کئی ماہ سڑکوں پر رہا، کچھ بھی نہیں ہوا۔ بعد میں چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں ایک جوڈیشل کمیشن بنا، اس کی سماعت میں بہت سی سنسنی خیز اخباری سرخیاں لگتی رہیں، مگر اس جو ڈیشل کمیشن کا فیصلہ عمران خان کے خلاف تھا۔ جب حلقے کھولے گئے تو بیلٹ پیپرز کے تھیلوں میں ردی بھری تھی، ہزاروں ووٹ غائب تھے۔ اس کے باوجود جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ تھا کہ منظم دھاندلی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ سچ تو یہ ہے کہ عمران خان کی سیاست اس کے بعد ختم ہوگئی تھی۔ یہ تو سال بعد پانامہ کا ایشو کھڑا ہوا، وہ بھی عالمی سطح پر تو عمران کو دوبارہ سے موقعہ ملا۔ جس سے اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
پانامہ کیس میں بھی عمران خان اور بعض دیگر (جماعت اسلامی، شیخ رشید وغیرہ)سپریم کورٹ رٹ لے کر گئے، مگرتکنیکی اعتراض ہی لگتے رہے۔ سپریم کورٹ میں کیس چلوانے کے لئے عمران خان کو بڑی دھواں دھار تحریک چلانا پڑی۔ ہزار جتن کے بعد سپریم کورٹ میں کیس چلنا شروع ہوا۔ پانامہ کیس واحد ایشو ہے جس میں عدالتی فیصلے سے مسلم لیگ ن کو بڑا دھچکا پہنچااور میاں نواز شریف نااہل ہوئے۔ اس میں مگر میاں صاحب کے کمزور کیس، ناقابل فہم قطری خط اور کیلبری فونٹ میں لکھی مشکوک دستاویزات کا بڑا ہاتھ ہے۔ اتنے کمزور کیس کا یہی بننا تھا۔ البتہ بعد میں چیف جسٹس ثاقب نثارنے جس پھرتی سے نواز شریف کو مسلم لیگ ن کی صدارت سے ہٹنے پر مجبور کیا، وہ سراسرغلط اور نامناسب تھا۔
عمران خان کے بنی گالہ کیس میں انہیں ریلیف ملنا ہی تھا۔ وہ کوئی قبضے کی زمین تھی نہ رشوت یا کرپشن کا پیسہ، اس کی منی ٹریل بھی عدالت میں پیش کی گئی۔ نقشہ کی منظوری نہ ہونے پر جرمانہ وغیرہ ہی ہوتا ہے، وہ ادا کر دیا گیا۔ جہانگیر ترین کا معاملہ البتہ مختلف تھا، ان پر ان سائیڈ ٹریڈنگ کا الزام تھا کہ وہ حکومتی مشیر تھے اورکابینہ کے کسی فیصلے پر انہوں نے درپردہ اپنے منشی کے نام پر کروڑوں کے فائدے لئے۔ اس کیس میں جہانگیر ترین نے پھنسنا ہی تھا۔ ان کی قسمت اچھی تھی کہ معاملہ فوجداری رخ اختیار نہ کر گیا۔ ورنہ سزا بھی ہوجاتی۔
عمران خان وزیراعظم بنے تو عدالتوں کے ساتھ ان کے مسائل ہی رہے۔ انہیں کہاں ریلیف دیا گیا؟ وہ ہمیشہ عدالتوں سے شاکی رہے، خاص کر لاہور ہائیکورٹ میں جس طرح ن لیگ کے رہنمائوں کو متواتر ریلیف ملتا رہا۔ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے موقعہ پر چیف جسٹس آصف کھوسہ نے پوری سول حکومت کو چکرا کر رکھ دیا تھا، اتنے مسائل بنے۔ بار بار نوٹیفکیشن درست کرائے گئے، حتیٰ کہ پھر پارلیمنٹ سے قانون سازی کرائی گئی۔ اس میں کہاں عمران خان یا حکومت کو ریلیف ملا؟
میاں نواز شریف کے ملک سے باہر بھیجے جانے کی باری آئی تو تحریک انصاف کو بخوبی اندازہ تھا کہ میاں صاحب نے واپس نہیں آنا۔ حکومت نے بڑی کوشش کی کہ پانچ سات ارب کی رقم ضمانت کے طور پر لی جائے، مگر عدلیہ نے بقول فواد چودھری پچاس روپے کے ایک سٹامپ پیپر پر میاں نواز شریف کو باہر بھیج دیا۔ تحریک انصاف حکومت اور عمران خان کو قطعی ریلیف نہیں ملا۔ میاں نواز شریف بھی واپس نہیں آئے۔
سینٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لئے عمران خان حکومت نے عدالت میں ریفرنس بھیجا مگر عدلیہ نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ میں یہ مسئلہ حل کریں۔ ہر ایک کو اگرچہ بخوبی اندازہ تھا کہ پارلیمنٹ میں یہ اس وقت ہونا ممکن نہیں۔ تحریک انصاف کو قطعی ریلیف نہیں ملا اور پھر ان کے خدشات کے عین مطابق یوسف رضا گیلانی ہارس ٹریڈنگ کی قوت سے سینیٹر بن گئے۔ یہ اور بات کہ پھر بعد چیئرمین الیکشن میں وہ خود اپنے ہی ہتھیار کا نشانہ بن گئے۔
سب سے اہم یہ کہ قاسم سوری کی قومی اسمبلی میں رولنگ کے معاملے پر سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے پورے کیس کو اڑا کر رکھ دیا۔ وزیراعظم کی قانونی ٹیم کا خیال تھا کہ قومی اسمبلی کی اندرونی کارروائی کے نام پر اس رولنگ کو تحفظ مل جائے گا۔ سپریم کورٹ نے قطعی طور پر تحریک انصاف کو ریلیف نہیں دیا۔ تحلیل شدہ اسمبلی بحال ہوگئی۔ آج پی ڈی ایم حکومت اسی عدالتی فیصلے کی مرہون منت ہے۔
اس لئے یہ محض پروپیگنڈہ ہے کہ عمران خان عدالتوں کا لاڈلا ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ن لیگ کو جس قدر ریلیف ملتے رہے ہیں، اس کا عشر عشیر بھی تحریک انصاف یا عمران خان کو نہیں ملا۔ البتہ پانامہ کیس میں ضرور میاں نواز شریف کو سزا ملی۔ اس میں مگر ن لیگ کو عمران خان کو مطعون کرنے کے بجائے کسی اور جانب دیکھنا چاہیے۔