Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Islamia University Bahawalpur, Mobayyana Scandal, Aham Pehlu

Islamia University Bahawalpur, Mobayyana Scandal, Aham Pehlu

پچھلے چند دنوں سے پہلے مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے حوالے سے ایک مبینہ سکینڈل گردش کرتا رہا۔ لودھراں کے ایک سوختہ بخت وی لاگر نے اس پر نہایت غیر ذمہ دارانہ وی لاگ کرکے بعض ایسی افواہیں اور غلط خبروں کو وائرل کر دیا جن میں کوئی حقیقت نہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ چلتا رہا کہ جو چند ملزم گرفتار ہوئے، ان کے موبائل فونز سے ہزاروں قابل اعتراض تصاویر اور ویڈیوز برآمد ہوئیں، جن میں ساڑھے پانچ ہزار لڑکیوں کی ویڈیوز ہیں۔ یوں تاثر دیا جاتا رہا جیسے خدانخواستہ یہ بچیاں طالبات ہیں۔ حقائق اس سب سے بہت ہی مختلف ہیں۔

1: پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ سب الزامات ہیں۔ بنیادی طور پر یہ پولیس کا موقف ہے، پنجاب پولیس کا روایتی موقف۔

2: اس سب میں ابھی بہت کچھ تفتیش ہونا باقی ہے۔ اس کیس کے لئے یونیورسٹی انتظامیہ نے جے آئی ٹی کا مطالبہ کیا تھا۔ وہ تو نہیں مانا گیا، مگر نگران وزیراعلیٰ نے تین رکنی انکوائری کمیٹی بنا دی ہے، جس میں سیکرٹری معدنیات اور دو ڈی آئی جی شامل ہیں۔

3: انکوائری کمیٹی کی رپورٹ اہم ہوگی۔ ان تمام الزامات کو عدالت میں ثابت کرنے کا مرحلہ بھی کم اہم نہیں۔

4: یہ بھی یاد رہے کہ پولیس حراست میں لئے گئے بیانات یا مبینہ اعترافی ویڈیو بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ البتہ ملزم عدالت میں بھی اپنے اعترافی بیان پر قائم رہے، پھر معاملہ مختلف ہے۔ تاہم اس کے باوجود جن پروفیسروں پر اس نے الزامات لگائے، ثابت کرنے کے لئے اس حوالے سے شواہد بھی پیش کرنے پڑیں گے۔

پچھلے دو دن خاکسار نے بھی اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کی۔ پولیس کا موقف اچھی طرح پڑھا، سنا۔ ایف آئی آر، ڈی پی او بہاولپور کی پریس کانفرنس وغیرہ، ان کی ایک رپورٹ کئی صحافتی واٹس ایپ گروپوں میں گردش کر رہی ہے جو مبینہ طور پر وزیراعلیٰ کے لئے تھی، اسے بھی پڑھا۔ مقامی صحافیوں سے بات ہوئی۔ یونیورسٹی میں کام کرنے والے کئی لوگوں، خاص کرجاننے والے پروفیسروں سے آف دی ریکارڈ بات کی۔ وائس چانسلر کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کی۔ نائنٹی ٹو نیوز چینل کے بہاولپور میں نمائندہ امجد اعوان سے تفصیلی ڈسکشن ہوئی۔ امجد اعوان محنتی رپورٹر ہیں، انہوں نے غیر جانبداری سے اس کیس کے حقائق اکھٹے کئے اوربیلنس رپورٹنگ کی ہے۔ امجد اعوان نے مجھے ایف آئی آرز وغیرہ کی نقول بھی بھیجیں۔

قارئین کے لئے اختصار کے ساتھ پورا معاملہ بھی بیان کر دیتا ہوں۔ اس کی ابتدا تو احسان جٹ نامی ایک شخص کی گرفتاری سے ہوئی، جس پر بعض کریمنل نوعیت کے الزامات بھی ہیں۔ اس گرفتاری سے پھوٹتے معاملات کے اگلے مرحلے میں تین یونیورسٹی ملازمین کی گرفتاری ہوئی۔ سب سے پہلے ڈاکٹر ابوبکر کی گرفتاری ہوئی، یہ پروفیسر ہیں، مگر بطور خزانہ دار (ٹریژی)کام کر رہے ہیں۔ ان کی گرفتاری عید سے پہلے ہوئی۔ جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا گیا اور بعد میں ضمانت ہوگئی۔

چند دن پہلے یونیورسٹی کے چیف سکیورٹی آفیسر میجر ریٹائر اعجاز احمد شاہ کی گرفتاری ہوئی۔ زیادہ شورشرابااس گرفتاری کے بعد ہوا کیونکہ پولیس کے بیان کے مطابق اعجاز شاہ سے ممنوعہ جنسی ادوایات اور موبائل فونز سے لاتعداد ویڈیوز برآمد ہوئیں۔ بعد میں یونیورسٹی کے شعبہ ٹرانسپورٹ کے ایک ملازم کو بھی گرفتار کیا گیا۔

تینوں گرفتاری ایک خاص انداز میں ہوئی، پولیس کا روایتی گھسا پٹا طریقہ۔ الگ الگ ایف آئی آز کے مطابق ملزم گاڑی میں آ رہاتھا، پولیس نے تلاشی لی تودائیں بغلی جیب سے چند گرام آئس (منشیات)برآمد ہوئی اور انہوں نے آئس استعمال کرنے اور فروخت کرنے کا اعتراف کر لیا۔ ایک پر چھ گرام آئس، دوسرے پر آٹھ گرام اور تیسرے پر دس گرام آئس ڈالی گئی یا کہہ لیں پولیس نے یہ برآمدگی کا دعویٰ کیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اصل حقیقت کیا ہے، مگر ہم اپنے سکول کالج کے زمانے سے یہ خبریں سنتے آئے ہیں کہ پولیس نے فلاں پر چرس کی پڑیا ڈال کر اسے پکڑ لیا یا ہیروئن کی پڑی برآمدکر لی۔ آج کل آئس اِن فیشن ہے تو برآمدگی آئس کی ہے۔

بہاولپور پولیس جو مرضی کہتی رہے، مگر معذرت کے ساتھ خاصی کمزور ایف آئی آر ہیں اور یہ بادی النظر ہی میں گھسے پٹے روایتی پولیس حربے معلوم ہو رہے ہیں۔ ایسے کیس تو چند دن عدالت میں نہیں ٹھیر سکتے۔ ویسے مقامی سطح پر پورے معاملے کے پیچھے بعض مقامی طاقتور سیاسی شخصیات کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔

مرکزی ملزم اعجاز شاہ کے حوالے سے ایک وی لاگر نے اپنا وی لاگ کیا، جس سے سنسنی پھیلی۔ مبینہ طور پر اس نے خود کو انٹیلی جنس اہلکار ظاہر کرکے زیرحراست اعجاز شاہ کا انٹرویو کیا اور پھر یونیورسٹی کے گیٹ پر کھڑے ہو کر وی لاگ کیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ اعجاز شاہ کے فون سے ہزاروں طالبات کی ویڈیوز برآمد ہوئیں۔ پولیس کو اس کی تحقیق کرنی چاہیے کہ لودھراں کے اس وی لاگر کو زیرحراست ملزم تک رسائی کس نے دلائی؟ سوشل میڈیا پر اس پورے معاملے کو اس سیکس سکینڈل کے طور پر دیکھا گیا اور تشویش کی لہر دوڑ گئی کہ ایک بڑی معروف سرکاری یونیورسٹی میں اگر خدانخواستہ ہزاروں بچیوں کے ساتھ ایسے مسائل پیدا ہوئے ہیں، انہیں پاس ہونے کے لئے منظم طور پر بلیک میل کیا جا رہا ہے تو یہ سب نہایت خوفناک امر ہے۔

پولیس کا بیان ہے کہ ملزم اعجاز شاہ کے دو موبائل فونز سے قابل اعتراض ویڈیوز برآمد ہوئی ہیں، موبائل فرانزک کے لئے بھیج دئیے گئے، اس کی رپورٹ ابھی آنا باقی ہے۔ تاہم مبینہ طور پربہاولپور پولیس نے جو رپورٹ اعلیٰ حکام کے لئے بھیجی ہے، اس میں دیگر تفصیل کے ساتھ ابوبکر اور اعجاز شاہ کے بعض قابل اعتراض واٹس ایپ میسجز کے سکرین شاٹ بھی شامل ہیں۔

تھوڑی دیر کے لئے فرض کر لیں کہ وہ سکرین شاٹ درست ہیں تب بھی اس میں ملوث لڑکیوں کی تعدادچند ایک ہی ہیں جبکہ بعض میسجز سے لگتا ہے کہ وہ خاتون کسی سکول میں کام کرتی ہے۔ اس لئے یہ خوفناک اور ہلا دینے والی سٹیٹمنٹ کہ یونیورسٹی کی ساڑھے پانچ ہزار طالبان کی قابل اعتراض ویڈیوز برآمد ہوئی ہیں، یہ ہر اعتبار سے غلط اور انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان ہے۔ ان میں کوئی دھمکی آمیز میسج بھی نہیں کہ اگر دوستی نہیں کی تو فیل کرادوں گا وغیرہ وغیرہ۔ واضح رہے کہ میرے نزدیک ایک طالبہ یا کسی اور بچی کا بھی اس طرح کے معاملے میں انوالو ہونا شدید دکھ، صدمے اور پریشانی کا باعث ہے، مگرجب موازنہ ساڑھے پانچ ہزار یا ساڑھے سات ہزار کے انتہائی خطرناک اعداوشمار سے کیا جائے تو صورتحال مختلف ہوجاتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پولیس اب اس پورے معاملے کو آئس کی خرید وفروخت کے حوالے سے پیش کر رہی ہے۔ ڈی پی او بہاولپور نے اپنی پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ ہم نے تو صرف منشیات فروشوں کے خلاف کریک ڈائون کیا ہے اور ہم آئس بیچنے والوں کو پکڑ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ یونیورسٹی کے ایک سو تیرہ لڑکے آئس استعمال یا فروخت میں ملوث ہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی میں اس وقت مجموعی طو رپر چونسٹھ ہزار سٹوڈنٹس ہیں۔ ایک سو تیرہ لڑکے ایک فی صد بھی نہیں بنتے، مگر پولیس کو انہیں پکڑ کر تعلیمی ادارے کو اس ناسور سے نجات دلانی چاہیے۔

یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب کا چار سالہ دور آج یعنی منگل کے روز ختم ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر اطہر محبو ب بہت متحرک اور نہایت فعال وی سی رہے ہیں۔ ان کے دور میں یونیورسٹی میں بہت سے نئے شعبے کھلے، فیکلٹی کی تعداد خاصی بڑھ گئی اور سٹوڈنٹس کی تعداد ڈبل سے زیادہ ہوئی۔ یونیورسٹی میں کئی سٹیٹ آف آرٹ قسم کے شعبے بھی بنے۔ یونیورسٹی میں ایسا انرجیٹک وی سی خاصے عرصے کے بعد آیا۔ اب ان کی مدت ختم ہونے کے آخری دنوں میں اس سکینڈل کا پراسرار طریقے سے ابھرنا معنی خیز ہے۔ اسے اینٹی وی سی لابی خوب اچھال رہی ہے، مقامی اخبارات میں خبریں بھی لگوائی گئیں۔ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ یہ سب وائس چانسلر کی ساکھ اور نیک نامی پر دھبہ لگانے کے لئے کیا گیا ہو۔

پولیس کا رویہ اس اعتبار سے مشکوک اور نامناسب رہا کہ اگرکسی یونیورسٹی ملازم کے موبائل فون سے لڑکیوں کی ویڈیوز برآمد ہوئیں تو پولیس کیسے یہ بتا سکتی ہے کہ یہ یونیورسٹی کی طالبات ہیں؟ چہرے سے یہ کیسے پتہ چل سکتا ہے؟ اس کا اندازہ تو یونیورسٹی انتظامیہ ہی اپنے ریکارڈ کو چیک کرکے لگا سکتی ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق پولیس نے انہیں کوئی ویڈیو نہیں دکھائی۔ پولیس نے ایسا کیوں کیا؟

پولیس کو وضاحت کرنی چاہیے کہ جب موبائل فونز کا فرانزک ہی نہیں ہوا تو پھر یہ سب جھوٹے اور انتہائی مبالغہ آمیز دعوے کیوں میڈیا اور سوشل میڈیا پر لیک کئے گئے؟ ایک وی لاگر کو زیرحراست ملزم تک رسائی کیوں دی گئی؟ یونیورسٹی انتظامیہ سے مل کر آگے بڑھنے کے بجائے پہلے سیکس سکینڈل اور پھر ڈرگ سکینڈل کا تاثر دے کر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے خلاف منفی مہم کا حصہ کیوں بنا گیا؟

وزیراعلیٰ کی طرف سے بنائی گئی اعلیٰ سطح انکوائری کمیٹی کو تمام پہلوئوں پر غور کرنا چاہیے۔ البتہ اگر ملزما ن واقعی سیکس سکینڈل میں ملوث ہیں یا ان کا آئس کی خرید وفروخت سے تعلق ہے تو ان کے خلاف ٹھوس شواہد کے ساتھ مضبوط کیس بنا کر کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔