Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Jamat Islami Kyon Nakam Ho Rahi Hai?

Jamat Islami Kyon Nakam Ho Rahi Hai?

جماعت اسلامی کے حوالے سے پچھلے تین چار دنوں میں بہت سے لوگوں سے بات ہوتی رہی۔ سوشل میڈیا کے آنے سے جہاں سماج کے دیگر شعبوں میں تبدیلی آئی، جماعت اسلامی جیسی سخت ڈسپلن والی جماعت پر بھی اس کے اثرات پڑے۔ اب جماعت اسلامی کے اراکین اور ہمدرد حضرات بلا ججھک اپنی رائے سوشل میڈیا پر دے دیتے ہیں، اندرونی حلقے میں تو خیر تنقید چلتی رہتی ہے، مگر اب اس کی لہریں باہر بھی چھلک آتی ہیں۔ کراچی، پشاور اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں مقیم بعض جماعتی احباب سے بھی ڈسکشن چلتی رہی۔ ایک بات میں نے محسوس کی کہ جماعت کی داخلی دنیامیں ایک خاص قسم کی مایوسی اور فرسٹریشن بہرحال موجود ہے۔ اخبارنویسوں کو سوال پوچھنے سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے، جواب ان کے پاس ہوتے نہیں یا اگر ہوں بھی تو وہ اتنی آسانی سے جواب ارزاں کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ ادھر جماعت کے لوگ کسی جادوئی فارمولے کی تلاش میں ہیں۔ جس کسی سے بات ہو، وہ فوری طور پر تجاویز مانگ لیتا ہے کہ کیا کرنا چاہیے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے اندر مختلف قسم کے سروے، تبادلہ خیال، داخلی احتساب کا عمل جاری رہتا ہے۔ اس حوالے سے کئی پلیٹ فارم موجود ہیں، جہاں اراکین سخت تنقید کر کے بعض پارٹی پالیسیوں کے پرخچے اڑا دیتے ہیں، امیر جماعت تک کو نہیں بخشا جاتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ پاکستان کی واحد سیاسی پارٹی ہے جس کے سربراہ پر کارکنوں کی جانب سے سخت تنقید کی جاتی ہے۔ جسے سنا، برداشت کیا اور پھروضاحت کی جاتی ہے۔ یہ اور بات کہ اب اس کے اندر سے یہ آوازیں اٹھنے لگی ہیں کہ امیر جماعت اور تنظیمی قیادت پر تنقید کے حوالے سے پابندی لگنی چاہیے۔ حالیہ الیکشن میں بدترین شکست کے بعد یہ آواز کئی جگہوں پر سنائی دی۔ ایسا کہنے والے بے خبر ہیں کہ اگر تنقید کے داخلی فورمز بند ہوگئے تو پھرگہرائی کی طرف پھسلواں سفرزور پکڑ لے گا۔ کالم کا عنوان ہے، "جماعت اسلامی کیوں ناکام ہورہی ہے؟ " اسے کوئی چاہے تو یوں بھی لے سکتا ہے کہ جماعت اسلامی کیوں ناکام ہوئی؟ " ہورہی ہے" میں البتہ مستقبل کے حوالے سے کچھ نہ کچھ امید کا پہلو باقی رہتا ہے۔ میرے نزدیک جماعت کی حتمی ناکامی کا فیصلہ صادر کرنا ابھی درست نہیں۔ حالات بدل سکتے ہیں، سیاست میں بھی معجزات رونما ہوتے ہیں۔ رب کریم کی ذات ہی ہے جو لوگوں کے دلوں کو پلٹتی ہے اور گاہے کسی کے لئے محبت بھر دیتی ہے۔ موہوم ہی سہی، مگر ایسے معجزے کی امید کسی نظریاتی دینی جماعت کے لئے کیوں نہ رکھی جائے؟ اس کے لئے البتہ کوئی جادوئی فارمولہ، تیر بہدف نسخہ تو شائد کسی کے پاس نہ ہو۔ جماعت کی داخلی سطح پر ہی اس کا حل ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ اس تحریر کا مقصد صرف برین سٹارمنگ یا لائوڈ تھنکنگ سمجھ لیجئے۔ سب سے پہلے تو جماعت اسلامی کے وابستگان، اراکین، کارکنوں اور حامیوں کو اپنی شکست تسلیم کرنی چاہیے۔ یہ تو خیر امر واقعہ ہے، ماننے میں حرج نہیں ہوگا، مگر اس کی ذمہ داری بھی قبول کرنی چاہیے۔ 2013ء کے انتخابات، اس کے بعد ہونے والے مختلف ضمنی انتخابات اور پھر 2018ء کے عام انتخابات میں ایم ایم اے کا حصہ بننے کے بعد بھی ملنے والی بدترین شکستوں سے یہ واضح ہوگیا کہ جماعت اسلامی کی کشش(جتنی ایک بھی تھی)ختم ہوچکی ہے، اس کا دائرہ کار اور اثر ورسوخ خوفناک رفتار سے سکڑا ہے اور اب وہ اپنے روایتی پاکٹس میں افسوسناک حد تک کمزور پوزیشن میں جا چکی ہے۔ پسپائی کا ایک ایسا سفر ہے جس کا بظاہر کوئی انت نہیں۔ اس لئے اس وقت جماعت اسلامی کے سامنے اپنے حال اور مستقبل کا نقشہ بڑی حد تک واضح ہے، … مایوس کن، یعنی مِٹا ہوا۔ اس ناکامی کی ذمہ داری اہل جماعت کو قبول کرنا ہوگی۔ ان کی حکمت عملی غلط ہے، نظریاتی بیانیہ بے اثر اوربے کشش رہا، پارٹی میں کرائوڈ پُلر نہیں، قیادت کنفیوز ہے یا پھر کارکن بے سمت؟ وجوہات جو بھی ہیں، قصور پارٹی کا اپنا ہے، ناکامی کا ذمے دار عوام کو نہیں ٹھیرانا چاہیے۔ یہ بات پچھلے کچھ عرصے میں کئی جگہوں پر پڑھی کہ اگر عوام جماعت اسلامی کو ووٹ نہیں ڈالنا چاہتے تو یہ ان کا قصور (نالائقی )ہے۔ گویا یہ عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ جوق در جوق الیکشن ڈے پر جا کر جماعت کے تقدس مآب امیدواروں کو ووٹ ڈال آئیں۔ یہ سوچ تو شکست خوردگی کی انتہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ کارکنوں سے زیادہ قصور خود جماعت اسلامی کی کنفیوز، بے ربط اور ڈھلمل پالیسیوں کا ہے۔ وہ ایک ایسا نیریٹو یا بیانیہ تشکیل ہی نہیں دے پائی جو لوگوں کو اپنی طرف کھینچ سکتا۔ ورنہ کوئی بتا سکتا ہے کہ عمران خان کی کامیابی میں کارکنوں کا کیا کردار ہے؟ کراچی میں کسی نے تحریک انصاف کے کارکن دیکھے ہوں تو ہمیں بھی اطلاع دے۔ اسی طرح خیبر پختون خوا میں کلین سویپ کیا تحریک انصاف کی تنظیم سازی کی وجہ سے ہوا؟ ہرگز نہیں۔ یہ عمران خان کا واضح اور دو ٹوک بیانیہ تھا، جس نے پڑھے لکھے لوگوں کو اپنی طرف کھینچا۔ جماعت اسلامی نے بھی کرپشن کے خاتمے کی بات کی، احتساب کا نعرہ لگایا، پانامہ کے خلاف عدالت میں گئی، مگر اس کا موقف کبھی واضح، مضبوط اور دو ٹوک نہیں رہا۔ اس نے ہمیشہ تمام "آپشنز "اپنے لئے کھلی رکھیں۔ یہ درست کہ عملی سیاست میں ایسا ہوتا ہے، مگر رومانویت میں اس کی گنجائش نہیں، وہاں کشتیاں جلانا پڑتی ہیں۔ عمران خان نے ایک رومانوی سیاسی کرشمہ تخلیق کیا۔ انقلاب یا غیر متوقع کامیابی کے پیچھے سیاسی رومان اور آئیڈیل ازم ہی ہوتا ہے (بعد میں چاہے وہ خواب کرچی کرچی ہوجائیں )۔ جماعت اسلامی کہتی ہے کہ سابق حکمرانوں نے ملک کا بیڑا غرق کیا، اس کا مطلب یہ کہ زرداری اور شریف خاندان ہی اس کے ذمے دار ہیں۔ پھرن لیگ سے اتحاد، سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے سوچنے کا کیا جواز تھا؟ جماعت کے مخالفین اسی رویے کو سیاسی منافقت کا نام دیتے ہیں۔ عمران خان مخالفین کے حوالے سے یکسو رہا، ثمرات بھی اسے ملے۔ جماعت اسلامی کی اصل قوت اور اثاثہ دینی ذوق رکھنے والے نوجوان تھے۔ تعلیمی اداروں میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ذریعے ایک طرح سے ٹیلنٹ ہنٹنگ ہوتی رہی۔ جماعت کی موجودہ قیادت کا نوے فیصد حصہ جمعیت ہی سے اوپر آیا۔ آج مگر جمعیت کے حوالے سے دل خوش کن منظر موجود نہیں۔ ٹیلنٹیڈ مڈل کلاس کا بڑا حصہ اب نجی تعلیمی اداروں کا رخ کرتا ہے، جہاں جمعیت کو پرمارنے کی اجازت نہیں، وہ صرف سرکاری یونیورسٹیوں میں کام کر سکتی ہے۔ وہاں بھی اس کا دائرہ کار محدود سے محدود تر اور کردار نہایت متنازع ہوچکا ہے۔ بیشتر نوجوانوں نے خطبات جیسی بنیادی کتاب نہیں پڑھ رکھی ہوتی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ جمعیت سے اب جماعت اسلامی کو فائدہ زیادہ ہو رہا ہے یا نقصان؟ خاص کر اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب یونیورسٹی نے ماضی میں ممکن ہے مثبت کنٹری بیوشن کیا ہو، مگر آج وہ لوگوں میں صرف اینٹی جماعت اسلامی جذبات کاشت کرنے کے سوا کچھ نہیں کر رہی۔ جامعہ پنجاب میں پڑھنے والا ہر طالب علم جمعیت کی مورل پولیسنگ(Policing) اور عاقبت نااندیشانہ رویے کے باعث زندگی بھر کے لئے جماعت اسلامی سے شدید بیزاری اور ناپسندیدگی کے جذبات لے کر باہر نکلتا ہے۔ جمعیت کے مستقبل کے حوالے سے جماعت کو کوئی بڑا فیصلہ کرنا ہوگا، خاص کر جامعہ پنجاب کے سیکٹر کو تو چند برسوں کے لئے ختم یامعطل کر دینا کوئی برا خیال نہیں۔ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ جماعت کی نشاتہ ثانیہ یا ری وائیول کے لئے پارٹی سٹرکچر اور سسٹم بدلنا ہوگا۔ جماعت اسلامی کے اندر بھی کئی لوگ یہ سوچ رکھتے ہیں، مگر شائد کھل کر کہنا ان کے لئے آسان نہیں۔ ستر برسوں سے چلا آ رہا پراناپارٹی سٹرکچر اور دستوراب ڈیلیور نہیں کر سکتا۔ شوریٰ کی جانب کئی احباب انگلی اٹھاتے ہیں کہ موجودہ سسٹم میں زیادہ تر امرا ضلع ہی منتخب ہو کر آ جاتے ہیں، جن کا ویژن ضروری نہیں کہ قابل رشک ہو۔ ان میں سے بہت سوں کو بدلے ہوئے سیاسی منظر نامے اور عوامی احساسا ت کا ادراک نہیں۔ وہ ووٹ سازی کو کارکن سازی کی طرح کا کام سمجھتے ہیں۔ ووٹ نہ ملنے کی تمام تر ذمہ داری کارکنوں پر عائد کرتے ہیں۔ حالانکہ صرف مضبوط موقف اپنانے، نیا نظریہ دینے سے ایک بڑی لہر پیدا کی جا سکتی ہے۔ شوریٰ کا سٹرکچر، رکن بنانے کا طریقہ کار اور بہت کچھ بدلنے کی ضرورت ہے۔ ری وائیول کے کام کے لئے کسی مجدد کی ضرورت پڑتی ہے، جو ظاہر ہے آنے سے رہا۔ دوسرا حل آئوٹ آف باکس تھنکنگ ہے، جس کی جماعت کے حلقوں میں شدید قلت ہے۔ جمعیت کے خاص سسٹم سے نکل کر اوپر گئے لوگ آخر تک ایک خاص تقلیدی ذوق اور مزاج لے کر چلتے۔ تبدیلی کی راہ میں یہ مزاحم ہوجاتے ہیں۔ اولڈ گارڈز کا اخلاص بھی قابل رشک، مگر ان کا بے لچک ہونا باعث تشویش ہے۔ ایک رکن جماعت نے دل سوزی سے تبصرہ کیا کہ امیر کے لئے شوریٰ جو تین نام تجویز کرتی ہے، وہ بھی ہربار ایک سے ہوتے ہیں، کسی نئے نام کا اضافہ نہیں ہوپاتا، اگرچہ اراکین پر پابندی نہیں، مگر عمومی طور پر ان تینوں ناموں سے ایک کو ترجیح دی جاتی ہے، یوں تبدیلی کی ہوا کے لئے جماعت کے کواڑ بند ہی رہتے ہیں۔ جماعت میں نئی روح پھونکنے، اٹھ کھڑے ہونے اور کامیاب ہونے کے لئے یہ دروازے کھولنے ہوں گے۔ کیا ایسا ہو پائے گا؟