تحریک انصاف کے رہنما مخدوم شاہ محمود قریشی آج کل جنوبی پنجاب صوبے کے حوالے سے بہت متحرک اور فعال ہیں۔ وہ مختلف پریس میٹنگزمیں صوبے کی بات کرتے ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے اپوزیشن لیڈروں کو ایک خط بھی لکھا، یہ بات وہ ہر بار میڈیا نمائندوں کوزور دے کر بتاتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کو اندازہ ہے کہ الیکشن میں بہت زیادہ وقت نہیں رہا، ووٹروں کو دکھانے کے لئے زیادہ کچھ نہیں۔ اسی لئے جنوبی پنجاب صوبہ کی بات اچانک انہیں یاد آنے لگی ہے۔
سوال یہ ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالے سے اگر تحریک انصاف کچھ کرنا چاہ رہی ہے تو اس کا طریقہ کار کیا ہو؟ اسے کیا ایسا کرنا چاہیے جس سے نئے صوبہ کی راہ ہموار ہو اور یہاں کے عوام کی زندگیوں میں آسانی پیدا ہو؟
سب سے اہم کام جو شاہ محمود قریشی اور تحریک انصاف کے دیگر رہنمائوں کو یہ کرنا چاہیے کہ جنوبی پنجاب صوبے پر سیاست نہ کریں۔ اسے پوائنٹ سکورنگ کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔ ایک عام سیاسی کارکن بھی سمجھ سکتا ہے کہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے شہباز شریف اور بلاول بھٹو کو بھیجے گئے خطوط بے سود رہیں گے۔ انہوں نے پوائنٹ سکورنگ کے لئے یہ خطوط لکھے تاکہ بعد میں کہہ سکیں کہ ہم نے اپوزیشن کو نئے صوبے کے حوالے سے بلایا تھا، مگر انہوں نے جواب نہیں دیا۔ درحقیقت شاہ محمود قریشی کا طریقہ کار ہی غلط ہے۔
جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالے سے حکومت کو خط بھیجنے یا سیاسی نعرہ بازی کے بجائے جامع پلان بناناہوگا۔ اٹھارویں ترمیم سے پہلے پیپلزپارٹی حکومت نے تمام پارلیمانی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی اور یہ طے کیا کہ بند کمروں میں اس کے اجلاس ہوں گے، میڈیا میں قبل از وقت کچھ نہیں دیا جائے گا اور جب تک حتمی مسودہ نہ بن جائے تب تک کسی کو اس کے بارے میں نہیں بتانا۔ یہ حکمت عملی کامیاب رہی۔
جنوبی پنجاب صوبے کے حوالے سے یہی کرنے کی ضرورت تھی۔ تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار میں آتے ہی ایسا کر لینا چاہیے تھا۔ اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا۔ ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جو جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالے سے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لے کر متفقہ تجاویز دے اور پھر پارلیمنٹ سے اس حوالے سے قانون سازی کرنا ممکن ہو پائے۔ اس سے کسی ایک سیاسی جماعت کو کریڈٹ یا ڈس کریڈٹ نہیں ملے گا اور یوں تمام بڑی جماعتیں مل کر لائحہ عمل طے کر سکیں گی۔
پارلیمنٹ سے باہر بھی اچھا خاصا کام ہونے والا ہے۔ نیا صوبہ بنانا آسان کام نہیں، پاکستان میں ایسا پہلی بار ہونے جا رہا ہے۔ بہت کچھ تقسیم ہوگا۔ ملازموں کا مسئلہ، نئے صوبے کی استعداد کاراور اس حوالے سے کیپیسٹی بلڈنگ کا ایشو وغیرہ وغیرہ۔ اس وقت جنوبی پنجاب صوبہ کے منصوبے میں تین ڈویژن (بہاولپور، ملتان، ڈی جی خان)شامل ہیں۔ ان تینوں ڈویژنز کے تمام اضلاع مجوزہ منصوبے میں شامل ہیں، جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ بھی ان تینوں ڈویژنز کے عوام کے لئے بنایا گیا ہے۔ اب اس میں ایک سوال یہ ہے کہ بعض اضلاع ایک دوسرے کے اتنے قریب ہیں کہ اکثر لوگوں کی زمینیں آس پاس اور رشتے داریاں یوں گندھی ہوئی ہیں کہ صوبے تقسیم ہونے کی صورت میں ان کے لئے مسائل پیدا ہوں گے۔
ضلع وہاڑی میں یہ مسئلہ خاص طور سے پیدا ہوگا۔ تحصیل بورے والا کے لوگ ساہی وال ڈویژن سے جڑے ہوئے ہیں اور وہ لاہور کے ساتھ رہنا پسند کریں گے۔ تھوڑا بہت خانیوال میں بھی یہ ایشو آئے گا۔ بہاولپور، ڈی جی خان ڈویژن میں اتنا مسئلہ نہیں، ملتان، لودھراں بھی اس حوالے سے یکسو اور واضح ہیں۔ ان تمام مسائل اور سوالات کو دیکھنے کے لئے ماہرین پر مشتمل ایک کمیشن بنانا چاہیے۔ اس کمیشن میں ٹائون پلاننگ، زراعت، انڈسٹری، پانی، انرجی وغیرہ کے ماہرین ہوں اور وہ یہ سب کچھ دیکھ کر پورا روڈ میپ دیں جس پر عمل کر کے نیا صوبہ زیادہ سے زیادہ بہتر انداز میں چلایا جانا ممکن ہو۔ جنوبی پنجاب صوبے کے حوالے سے خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنانے اور نئے صوبوں کے حوالے سے ایک بااختیار کمیشن بنانے میں کیا رکاوٹ ہے؟ حکومت نہایت آسانی سے یہ سب کر سکتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ قومی اسمبلی، سینٹ اور پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے پاس مطلوبہ اکثریت نہیں۔ وہ چاہے بھی تو نیا صوبہ نہیں بنا سکتی۔ بات سمجھ آتی ہے، اس کی رعایت حکومت کو دی جا سکتی ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ نئے صوبے کے لئے جو لازمی چیزیں ہیں، جو ضروری کام کئے جانے ہیں، وہ کیوں نہیں کئے جاتے؟ جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ بنانا ایک اہم فیصلہ اور قدم تھا۔ تحریک انصاف اور عمران خان کو اس کا پورا کریڈٹ ملنا چاہیے۔ یہ معمولی بات نہیں بلکہ حقیقت میں یہ نئے صوبے کی طرف پہلا قدم ہے۔ اس سے بہت کچھ واضح اور متعین ہوگیا۔ اگرچہ سیاسی وجوہات کی بنا پر حکومت یہ طے نہیں کر پائی کہ ملتان سیکریٹریٹ بنے گا یا بہاولپور۔ ابھی مکس معاملہ چلانے کی کوشش کی گئی ہے، مگر ظاہر ہے کسی ایک جگہ کا تعین کرنا پڑے گا۔
جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ پہلا قدم ہے، مگر اس کے بعد منطقی طور پر دوسرا، تیسرا قدم بھی اٹھانا چاہیے۔ دوسرا قدم جنوبی پنجاب کے لئے پبلک سروس کمیشن کا قیام ہے۔ یہ بہت ضروری ہے۔ لوگوں کو ملازمتوں کی ضرورت ہے۔ جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقوں کے ٹیلنٹیڈ نوجوانوں کو سرکاری ملازمتوں کا ترجیحی موقعہ ملنا چاہیے۔ یہ کام آسانی سے ہوسکتا ہے۔ ایک زمانے میں پنجاب میں زون اے اور بی کے لئے الگ الگ مقابلے کے امتحان ہوتے تھے۔ صوبائی حکومت ایسا کر سکتی ہے۔
جنوبی پنجاب کے لئے الگ پبلک سروس کمیشن یا کوٹہ بنا کر مقابلے کا امتحان لیا جائے جبکہ اس کے علاوہ بھی مختلف محکموں میں ملازمتوں کا کوٹہ بنے جو محکمانہ امتحانات کے ذریعے پر کیا جائے۔ ایکسٹر ا اسسٹنٹ کمشنر سے سیکشن آفسر اور تحصیل دار سے لے کر نیچے پٹواری وغیرہ تک مقامی لوگ بھرتی ہوں تاکہ نیا صوبہ بننے سے پہلے انہیں چند برسوں کا انتظامی تجربہ بھی حاصل ہوجائے اور جب الگ صوبہ بنے تو اچھے طریقے سے انتظام چلایا جا سکے۔
پنجاب پولیس میں جنوبی پنجاب کے لڑکے بہت کم ہیں۔ جنوبی پنجاب کا الگ کوٹہ رکھ کر پولیس میں نئی بھرتی کی جائے۔ خاص کر اے ایس آئی، سب انسپکٹر کی سیٹوں پر مقامی نوجوانوں کو مقابلے کے امتحان کے بعد بھرتی کیا جائے۔ نیا صوبہ بننے کی صورت میں مقامی پولیس فورس کی شدید ضرورت پڑے گی۔ ایسے جوان اور پولیس افسر جو بار بار چھٹیاں لے کر سنٹرل پنجاب یا اپر پنجاب نہ جائیں بلکہ وہ مقامی ہوں۔
یہی کام ماتحت عدالتوں کے لئے بھی کرنا چاہیے۔ سول ججوں، ایڈیشنل سیشن ججوں کی معقول تعدادسٹینڈرڈ عدالتی امتحانات کے طریقہ کار کے مطابق لی جائے۔ نیا صوبہ بننے میں شائد دو چار سال لگ جائیں، تب تک وہ تجربہ بھی حاصل کر لیں گے۔ یہ بہت آسان ہے، چیف جسٹس لاہو ہائی کورٹ کی مشاورت سے فول پروف اور شفاف نظام بنایا جا سکتا ہے۔
تیسرا اہم ترین کام اس خطے میں نئے اضلاع بنانا ہے۔ لاہور، پنڈی اور دیگر بڑے شہروں والے لوگ نہیں جانتے کہ ایک تحصیل جب ضلع بنتی ہے تو وہاں کتنی بڑی تبدیلی رونما ہوجاتی ہے۔ جنوبی پنجاب اس لحاظ سے بدنصیب ہے کہ وہاں نئے اضلاع بنانے میں خوفناک غفلت برتی گئی ہے۔ بہاولپور ڈویژن کی مثال لے لیں کہ پچھلے ستر برسوں سے اس کے تین اضلاع (بہاولپور، بہاول نگر، رحیم یار خان) ہی ہیں۔ گوجرانوالہ ڈویژن میں منڈی بہائوالدین، حافظ آباد اور لاہور ڈویژن میں ننکانہ جیسے چھوٹے شہر ضلع بنا دئیے گئے، مگر کسی کو بہاولپور ڈویژن پر ترس نہیں آیا۔ یہاں پر احمد پورشرقیہ، خان پور جیسے قدیم شہر ہیں۔
خان پور تو ایک زمانے میں ضلع تھا، مگر اسے پھر سے تحصیل بنا دیا گیا۔ احمد پو رشرقیہ، خان پور اور بہاولنگر کی تحصیل چشتیاں کو ضلع بنانا چاہیے۔ ڈی جی خان میں جام پور کا ضلع بننے کا ہر لحاظ سے حق بنتا ہے۔ معلوم نہیں راجن پور کی سیاسی اشرافیہ اس کی مخالفت کیوں کر رہی ہے۔ جام پور اور تونسہ کوالگ الگ ضلع بنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ایک اور بڑا کام تھل ڈویژن بنانے کا ہے۔ اگر لیہ، بھکر، میانوالی کو اکٹھا کر کے یہ ڈویژن بنایا جائے، اس میں کوٹ ادو بھی ضلع بنا کر شامل کیا جا سکتا ہے، اسے مگر جنوبی پنجاب صوبے کا حصہ ہونا چاہیے کہ یہ فطری طور پر اس کے ساتھ جڑا ہے۔ اگر میانوالی والے اس میں نہیں آنا چاہتے تو لیہ، بھکر، اوباڑو، کوٹ ادو وغیرہ کو ملا کر ہی الگ ڈویژن بنا دیا جائے جوجنوبی پنجاب کا حصہ بنے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے جنوبی پنجاب صوبہ کا وعدہ ایک انتخابی نعرے کے طو رپر لگایا، عمران خان آج بھی یہ اصرار کرتے ہیں کہ وہ اس حوالے سے سنجیدہ ہیں۔ انہیں عملی ثبوت دینا ہوگا۔ صرف جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ بناکرو ہ سرخرو نہیں ہوسکتے۔ اگر وہ نیا صوبہ بنانے کے لئے مخلص ہیں تو مزید قدم اٹھانا ہوں گے۔ نئے اضلاع بنانے میں کوئی انتظامی مشکل نہیں۔ صوبائی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت بھی درکار نہیں۔ صوبہ بھی ان شااللہ بنے گا، مگر تب تک چند نئے اضلاع تو بنا دئیے جائیں، اس سے وہاں کے عوام کے لئے کشادگی اور آسانی کی سبیل پیدا ہوگی۔