کراچی کے حوالے سے دو تین باتوں کی مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی۔ بہت سوچنے، غور کرنے پر بھی ان کی کوئی توجیہہ اور منطق نہیں ملی۔ آج تک یہ نہیں سمجھ سکاکہ سندھ کا وزیراعلیٰ آخر کراچی سے کیوں نہیں ہوسکتا؟ بہت سوچنے کے بعد بھی پاکستان کی جدید سیاسی تاریخ میں ایسا نام یاد نہیں آسکا۔ ہمیشہ سندھ کا وزیراعلیٰ دیہی سندھ سے بنتا ہے جسے اندرون سندھ کہہ دیا جاتا ہے، اگرچہ سندھی قوم پرست اندرون سندھ کی اصطلاح پر ناخوش ہوتے ہیں۔
اکثر خیر پور ضلع کی سیاسی شخصیات یہ منصب سنبھالتی رہی ہیں، قائم علی شاہ ان میں سرفہرست ہیں۔ ایک زمانے میں غوث علی شاہ بھی رہے، روہڑی کے مہر بھی وزیراعلیٰ رہے، تھرپارکر کے ارباب کو بھی شیئر ملا۔ آفتاب شعبان میرانی، مظفر شاہ، عبداللہ شاہ، لیاقت جتوئی بھی اندرون سندھ کے تھے، موجودہ وزیراعلیٰ کا سیاسی تعلق بھی انہی علاقوں سے ہے۔ ایک زمانے میں جام صادق بھی پورے تزک واحتشام سے وزیراعلیٰ رہے اور پیپلزپارٹی کا ناک میں دم کئے رکھا، ممتاز بھٹو کودو بار وزارت اعلیٰ ملی۔ ان میں سے کسی کا سیاسی تعلق کراچی سے نہیں تھا۔
کراچی سندھ کا سب سے بڑا اور اہم ترین شہر ہے، یہاں سے ارکان صوبائی اسمبلی کی اچھی خاصی تعداد منتخب ہوتی ہے، اس کے باوجودکراچی سے منتخب ہونے والے رکن اسمبلی کو وزیراعلیٰ نہیں بنایا جاسکتا۔ اس سے بڑی سیاسی محرومی کسی بڑے شہر کے لئے کیا ہوسکتی ہے کہ کوئی آئینی یا قانونی رکاوٹ نہ ہونے کے باوجود غیر رسمی پابندی کے تحت کراچی شہر کو وزارت اعلیٰ کا منصب نہیں دیا جاتا۔
ایسا باقی صوبوں میں نہیں۔ پنجاب میں شریف خاندان کے دور میں سیاسی طاقت لاہور میں مرتکز ہوجاتی ہے، مگرپرانے دور میں انہوں نے میاں چنوں کے غلام حیدر وائیں کو وزیراعلیٰ بنایا۔ مشرف دور میں گجرات کے چودھری پانچ سال تک پنجاب کے سیاہ وسپید کے مالک رہے۔ نوے کے عشرے میں اوکاڑہ کے منظور وٹو وزیراعلیٰ رہے اور بھائی پھیرو کے عارف نکئی بھی۔ آج کل تونسہ، جنوبی پنجاب سے عثمان بزدار کویہ اعزاز ملا ہے۔ خیبر پختون خوا میں بھی یہی ملا جلا رجحان رہا۔ ہزارہ سے ن لیگی وزرا اعلیٰ بنتے رہے، مردان سے محمد علی ہوتی، بنوں کے اکرم درانی اور پھر نوشہرہ کے پرویز خٹک بنے، آج کل سوات کے محمود خان ہیں۔ ماضی میں ڈی آئی خان کے مفتی محمود وزیراعلیٰ رہے اور چارسدہ کے آفتاب شیر پائو بھی۔ صوبے کے مختلف سیاسی مراکز کو مختلف ادوار میں یہ عہدہ ملتا رہا۔
صرف کراچی ہی ایسا بدنصیب شہر ہے جہاں صوبے کی سب سے زیادہ آبادی، سب سے زیادہ نشستیں ہیں، ملک کا اہم ترین سیاسی مرکز ہے، اس کے باوجود صوبے میں حکومت بنانے والی کسی بھی جماعت نے اہل کراچی کو یہ اعزاز نہیں سونپا۔ میں اس وقت مہاجر، سندھی بحث میں پڑے بغیر کہہ رہا ہوں۔ کراچی سے سندھی بولنے والے ارکان اسمبلی منتخب ہوتے ہیں، انہیں بھی درخوراعتنا نہیں سمجھا گیا۔ ویسے تو مہاجروں نے کیا قصور کیا ہے کہ انہیں وزیراعلیٰ نہیں بنا یا جا سکتا؟
پاکستان میں نسل یا قوم کی بنیاد پر تو عہدے نہیں دئیے جاتے۔ جمہوری، سیاسی نظام میں کسی بھی نسل، رنگ، قوم کا فرد کوئی بھی اعلیٰ ترین سیاسی عہدہ لے سکتا ہے۔ افسوس کہ سندھ میں ایسا نہیں ہوسکتا۔ وہاں مہاجر وزیراعلیٰ بننے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ستم ظریفی یہ کہ طاقتور وزیراعلیٰ نہ سہی، برائے نام، دکھاوے کے وزیراعلیٰ کے طور پر بھی ایسا نہیں کیا جاتا۔ عثمان بزدار جیسی طاقت اور اتھارٹی والاہی مہاجر وزیراعلیٰ بنا دیا جاتا۔ نہیں، ایسا کرنے کی کوئی جرات نہیں کر سکتا۔
ہمیں تو کبھی یہ بات بھی سمجھ نہیں آئی کہ مردم شماری میں کراچی کی آبادی کی درست گنتی کیوں نہیں کی جاتی؟ یہ آئینی تقاضا ہے۔ سامنے کی بات ہے کہ آبادی کے درست اعداد وشمار ہوں تاکہ مناسب پلاننگ کی جا سکے۔ آخری مردم شماری جو چار سال پہلے ہوئی، اس کے مطابق کراچی کی آبادی ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس سے بھیانک مذاق اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ اتنی آبادی تو دس پندرہ سال پہلے کہی جاتی تھی۔ جس بندے کو کراچی میں چند دن رہنے اور گھومنے پھرنے کا موقع ملے، وہ آسانی سے بتا سکتا ہے کہ یہ شہر کم از کم ڈھائی تین کروڑ آبادی رکھتا ہے، ممکن ہے اس سے بھی زیادہ ہوجائے۔
مردم شماری میں لاہور کی آبادی سوا کروڑ بتائی گئی اور کراچی کی ڈیڑھ۔ کراچی لاہو ر سے دوگنا نہیں تو پچاس ساٹھ فیصد ضرور بڑا ہے۔ یہ ظلم نجانے کیوں اور کیسے کیا گیا؟ کہتے ہیں کہ ملیر کے ضلع کو کراچی سے الگ شمار کیا گیا۔ ایسا مگر کیوں ہوا؟ ملیر کو کراچی سے الگ کون شمار کرتا ہے۔ ، ملیر کراچی کا ایک حصہ ہے جیسے شمالی لاہور کی آبادیاں مصری شاہ، فیض باغ وغیرہ لاہور کا حصہ ہیں۔ کراچی کی آبادی صرف اس لئے گھٹائی گئی کہ اسے زیادہ حصہ دینا پڑے گا۔ اس میں سب ذمہ دار تھے، سول، خاکی، صوبائی، وفاقی حکومتیں سب۔ کراچی کے لوگ چیختے رہے، مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
تیسری بات جو ناقابل فہم ہے کہ کراچی کو اس کا جائز حصہ کیوں نہیں دیا جاسکتا؟ ایک شہر جسے ملکی معیشت کامرکز یا ہب کہا جاتا ہے، جس کی ترقی سے پورے ملک کی اکانومی بہتر ہوگی، اس پر آخر توجہ کیوں نہ دی جائے؟ اس حوالے سے خوفناک اعداد وشمار سامنے آئے ہیں۔ کراچی کے حصے پر مسلسل ڈاکہ مارا جاتا رہا ہے اور ایسا کرنے والے نہ صرف جمہوری، سیاسی لوگ ہیں بلکہ یہ خود کو جمہوریت کا چیمپین قرار دیتے ہیں۔ اگلے روز ایک انگریزی معاصر میں سابق سیکرٹری خزانہ یونس ڈھاگہ کاانکشاف انگیز آرٹیکل شائع ہوا۔ یونس ڈھاگہ نے اعداد وشمار سے ثابت کیا کہ کراچی کو اس کے حصے سے بہت کم مل رہا ہے اور ایسا دانستہ ہوا۔
یونس ڈھاگہ کے مطابق کراچی کو 2007/08 میں صوبائی بجٹ سے بیس فیصد یعنی سینتس ارب روپے ملتے تھے، حالیہ صوبائی بجٹ سے کراچی کا حصہ بیس سے گر کر صرف تین فیصد رہ گیا ہے یعنی 38 ارب روپے۔ دوسرے لفظوں میں کراچی کا حصہ چودہ برسوں میں صرف ایک ارب روپے بڑھایا گیا جبکہ اس دوران شہر کی آبادی اور مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اگر پرویز مشرف کے دور 2007-08والا معاملہ برتا جاتا تو اس بار کراچی کو صوبائی بجٹ سے ڈھائی سو ارب روپے کے لگ بھگ (244 Billion)ملتے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ وفاقی سطح پر بھی یہی ظلم کیا گیا۔ چودہ سال پہلے 2007-08میں وفاقی ترقیاتی بجٹ سے کراچی کا حصہ 6.6فیصد تھا، جواس سال کے بجٹ میں گر کر 2.1فیصد رہ گیا۔ صوبائی حکومتوں نے پچھلے چودہ برسوں میں کراچی کو اس کے جائز حق سے محروم کیا، وہ 663ارب روپے بنتا ہے، وفاق نے بھی کراچی کے حق میں 286ارب کا ڈاکہ مارا۔ دونوں نے مجموعی طور پر 949ارب روپے غصب کئے۔ تصور کریں کہ یہ سب رقم اگر کراچی کے انفراسٹرکچر پر خرچ ہوئی ہوتی تو اس شہر میں کتنا بڑا انقلاب آجاتا۔
سابق سیکرٹری خزانہ یونس ڈھاگہ کے مطابق کراچی شہر ملک کی مجموعی آبادی کا دس فیصد حصہ ہے، مگر یہ ملکی ایکسپورٹ میں پچاس فیصد سے زیادہ حصہ ڈالتا ہے، فیڈرل ریونیو میں 56فیصد جبکہ سندھ کے ریونیو میں 96فیصد دیتا ہے۔ سروسز پر سیلز ٹیکس میں کراچی کا حصہ اسی مد میں پورے پنجاب کے سیلز ٹیکس کے برابر ہے۔ کراچی کی اسی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے ورلڈ بینک نے چار سال پہلے سفارش کی تھی کہ کراچی کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لئے دس ارب ڈالر کے قریب رقم خرچ کی جائے۔ مزے کی بات ہے کہ کراچی کا جو شیئر اسے نہیں دیا گیا، وہ تقریبا اتنی رقم ہی بنتی ہے۔ دو سال پہلے وزیراعظم عمران خان نے بہت بڑے پیکیج کا اعلان کیا، مگر اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہوسکا۔
یہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ پیپلزپارٹی جو جمہوریت اور سیاست کا نام لیتے نہیں تھکتی، وہ کراچی کے لئے ایک نہایت نیم مردہ، کمزور اور تھکا ہارا بلدیاتی نظام کیوں لانا چاہتی ہے؟ میں اپنے پیپلزپارٹی کے دوستوں سے یہ بات اکثر پوچھتا ہوں کہ بلاول بھٹو جو آکسفورڈ یونیورسٹی سے پڑھے ہیں، لندن میں کئی سال رہے، کیا انہیں معلوم نہیں کہ لندن کا میئر برطانیہ کے وزیراعظم کے بعد سب سے طاقتور عہدہ ہے اور کئی ارب ڈالر کا لندن بلدیہ کا بجٹ ہے۔
آخر بلاول بھٹو اور ان کی چھوٹی ہمشیرہ جو مستقبل میں پاکستان کی وزیراعظم بننے کی خواہش مند ہیں، یہ پڑھے لکھے نوجوان سیاست دان بھی آخرکراچی کو مضبوط، بااختیار بلدیاتی نظام کیوں نہیں دیتے؟ کراچی میں گندگی کے ڈھیر اٹھوانے کا فیصلہ آخر وزیراعلیٰ سندھ کیوں کرے؟ یہ میئر کے کرنے کے کام ہیں۔ واٹر بورڈ، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، سیوریج کا نظام، بلڈ نگ کنٹرول اتھارٹی، بلدیاتی ٹیکس، سٹی ٹرانسپورٹ وغیرہ جیسے کام اور ادارے میئر کے ماتحت ہونے چاہئیں۔ حد تو یہ ہے کہ کراچی کا ایڈمنسٹریٹر پیپلزپارٹی کا اپنا وفادار بندہ ہے، اسے بھی اختیار دینے کو تیار نہیں۔
کراچی اور اہل کراچی کے ساتھ یہ زیادتی کب تک؟ پاکستان کی انٹیلی جنشیا، سول سوسائٹی، میڈیا اور سیاسی قوتوں کو اس حوالے سے یکسو ہونا چاہیے۔ ہمارے سندھی بولنے، لکھنے والے دوستوں کو بھی اس معاملے کا غیر جانبداری اور غیر متعصبانہ انداز میں جائزہ لینا چاہیے۔ خاص کر وہ سندھی جو کراچی میں رہتے ہیں، وہ تو اس پر اپنی آواز بلند کریں۔ کراچی کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے۔