Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Kuch Musbat Bhi Sunne Ko Mila

Kuch Musbat Bhi Sunne Ko Mila

اخوت کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب کی نوبیل انعام (برائے امن) کے لئے نامزدگی پر دلی خوشی ہوئی۔ ڈاکٹرامجد ثاقب ہر لحاظ سے بڑے آدمی ہیں۔ سماجی خدمت کے لئے ہمہ وقت تیار۔ ہر مثبت منصوبے کے لئے ہاں کر دیتے ہیں۔ میں نے پچھلے دس پندرہ برسوں میں بارہا دیکھا کہ کسی بھی اچھے کام کے لئے ان سے رابطہ کیا جائے، وہ کبھی ناں نہیں کہتے۔ کسی نہ کسی طرح اس میں حصہ ڈالنے، اسے کامیاب بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی چیز میں نے ڈاکٹر امجد ثاقب کے دست راست اور قریبی ساتھی ڈاکٹر اظہار ہاشمی میں دیکھی ہے۔ ڈاکٹر اظہار بھی ون مین آرمی ہیں، ہر اچھے کام میں بھاگ کر شریک ہونے والے۔

ڈاکٹر امجد ثاقب کی شخصیت کی کئی جہتیں ہیں، ان پر الگ الگ بات ہونی چاہیے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ البتہ بلاسود قرضے دینے والی تنظیم اخوت ہے۔ اخوت کامیابی ڈاکٹرا مجد اور ان کی ٹیم کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ انہوں نے بلاسود مائیکروکریڈٹ فانس کا ماڈل دنیا بھر میں عملی طور پر بنا کر دکھایا ہے۔ یہ غیر معمولی کام ہے۔

یاد رہے کہ دنیا بھر میں چھوٹے قرضے یعنی مائیکرو کریڈٹ فنانس کی شرح سود عام قرضوں سے خاصی زیادہ ہوتی ہے، ایسے کئی مشہور اداروں میں شرح سود تیس سے پینتیس سینتیس فیصد تک ہے۔ ایسے میں جب کوئی یہ سنے کہ کوئی تنظیم بلاسود قرضے دے رہی ہے تو پہلا سوال یہی ذہن میں آتا ہے کہ جب یہ اپنے دئیے قرضوں پر سود نہیں لیں گے تو پھر اپنا کام کیسے چلا پائیں گے، یہ پراجیکٹ مستقل بنیادوں پر کس طرح سروائیو کرے گا؟

ظاہر ہے اس تنظیم کے سٹاف کی تنخواہیں، دفاتر کا کرایہ، بلز وغیرہ، بہت کچھ آپریشنل، نان آپریشنل اخراجات کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ ذہن میں رہے کہ عام قرضہ لینے کے لئے لوگ بینک جاتے ہیں جبکہ مائیکرو کریڈٹ فنانس میں ٹیم کے لوگ قرضے دینے خود لوگوں تک پہنچتے ہیں، اس لئے ان کے اخراجات روٹین سے زیادہ ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے اخوت کی صورت میں ایک بہت کامیاب ماڈل بنا کر چلا کر دکھا دیا ہے۔ یہ ثابت کر دیا کہ سود لئے بغیر بھی کوئی تنظیم لاکھوں لوگوں کو اربوں روپے قرضے بانٹ سکتی ہے۔ کاش اسلامی ممالک کا کوئی بڑا مشترکہ اعزاز ہوتا تو یہ اب تک ڈاکٹر امجد کو مل چکا ہوتا۔

ڈاکٹر امجد کے کام کو دنیا بھر میں بے پناہ پزیرائی مل رہی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں اخوت کے ماڈل کوکاپی کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹرا مجد اپنے کامیاب ماڈل کو ہاورڈ یونیورسٹی میں خصوصی لیکچر کے ذریعے پیش کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثٓقب ہر لحاظ سے نوبیل انعام کے مستحق ہیں۔ افسوس کہ عالمی سطح پر یہ انعام بھی ایک خاص ایجنڈے کے تحت ہی دئیے جاتے ہیں۔ ورنہ عبدالستار ایدھی کو کب کا ایوارڈ مل چکا ہوتا۔ ایدھی صاحب کی خدمات کسی بھی طرح نوبیل انعام یافتہ افراد سے کم نہیں تھیں۔ اللہ کرے ڈاکٹر امجد ثاقب کے حوالے سے کوئی رکاوٹ آڑے نہ آئے اور انہیں یہ بڑا، وقیع انعام ملے۔

اب تک صرف دو پاکستانیوں کو نوبیل انعام ملے ہیں۔ معروف غیر مسلم سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام جنہیں فزکس کے میدان میں اپنی تھیوریز پر دو دیگر سائنس دانوں کے ساتھ مشترکہ نوبیل انعام دیا گیا۔ چند سال پہلے یہ نوبیل انعام ایک ایسی پاکستانی لڑکی کو دیا گیا جس کی سماجی خدمات صفر تھیں، جس نے زندگی میں اس حوالے سے کبھی کچھ کام نہیں کیا۔

البتہ وہ دہشت گردی کی ایک واردات کا نشانہ ضرور بنی۔ ایک افسوسناک واردات جس میں اس کی جان بھی جا سکتی تھی۔ دہشت گردوں کے ایک حملے نے اسے ہیرو بنا دیا اور مغرب کو چونکہ اسکی امیج بلڈنگ سوٹ کرتی تھی، اس لئے اسے انعام دے دیا گیا۔ ورنہ اگر دیکھا جائے تو ملالہ یوسف زئی نے کچھ ایسا کام نہیں کیا تھا، جس پر اسے نوبیل تو کجا پاکستان کا کوئی صدارتی ایوارڈ ہی دیا جاتا۔

ملالہ کے کریڈٹ میں صرف ایک مبینہ ڈائری ہے جو بی بی سی کے لئے لکھی گئی۔ ڈائری نما پانچ سات کالم اور بس۔ پھراس پر ملنے والے حکومتی انعامات اور کچھ واہ واہ کے بعد وہ آرام سے سکول میں پھر سے تعلیم حاصل کرنے لگ گئی۔ اگر اس کی سکول وین پر حملہ نہ ہوتا، دہشت گرد اسے گولی نہ مارتے تو شائدآج پاکستان میں ملالہ کا نام بھی لوگوں کو یاد نہ ہوتا۔

گولی لگنے پر وہ مظلوم بنی اور اس کے ساتھ ہمدردی کرنا فطری امر تھا۔ بالکل ٹھیک بات ہے۔ دہشت گردوں نے جنونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک سکول کی بچی پر گولیاں چلائیں۔ اس کا مفت علاج ہوا، خیال رکھا گیا، آگے آکسفورڈ میں داخلہ دیا گیا، سب ٹھیک ہے۔ کچھ اور بھی کرنا چاہیے تھا۔ مگر نوبیل انعام تو خدمات پر دیا جاتا ہے۔ تعلیم کے میدان میں ملالہ کی کیا خدمات تھیں؟ یہ گولی لگنے سے پہلے کے تین برسوں میں اس نے کیا کیا تھا؟ کچھ بھی نہیں۔ صفر۔

انجیلا جولی نے نیوز ویک میں کالم لکھاکہ میں نے اپنے بچوں کو ملالہ کی تصویر دکھائی کہ اسے اس لئے گولی ماری گئی کیونکہ یہ بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے کھڑی رہی تھی۔ بالکل غلط بات۔ انجیلا جولی بے چاری کو جو مغربی میڈیا نے بتایا، اس نے وہی سمجھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ملالہ نے ایسی کوئی سرگرمی نہیں دکھائی تھی۔ وہ تو تین برسوں سے(2009-2012) معمول کی سکول کی پڑھائی کر رہی تھی، سوات کی ہزاروں دیگر بچیوں کی طرح۔ اسے صرف اس لئے گولی ماری گئی کہ فوج نے اس کی قدرومنزلت کی تھی اور اسے سوات آپریشن کے دوران ڈائری لکھنے پر انعامات وغیرہ دئیے گئے تھے۔

فورسز کوتکلیف پہنچانے کے لئے یہ سفاکانہ حملہ کیا گیا۔ اس کا فائدہ ملالہ کو ملا، وہ انگلینڈ پہنچ گئی، آکسفورڈ داخل ہوگئی۔ دنیا بھر سے اس کی مدد کی گئی۔ اس کی فیملی نے نوبیل انعام کی لابی کرنے کے لئے باقاعدہ ایک ادارے کی خدمات حاصل کیں اور آخر کار نوبیل انعام اسے مل گیا۔ سوات کی خوش نصیب ترین لڑکی بن گئی۔ نوبیل انعام پانے والوں کا بعد کا کام ہی اتنا وقیع ہوتا ہے کہ لوگ اش اش کر اٹھتے ہیں۔ ملالہ نے نوبیل انعام پانے کے بعد بھی کچھ غیر معمولی کیا ہو توضرور بتائیں، مجھے اسے جاننے کی خواہش ہے۔

ڈاکٹرا مجد ثاقب اس کے برعکس ہر اعتبار سے جینوئن آدمی ہیں۔ وہ بیورو کریٹ تھے، ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر پہنچے، انہیں اندازہ ہوا کہ جس طرح وہ سماج کے لئے کنٹری بیوٹ کرنا چاہتے ہیں افسرشاہی میں رہ کر ایسا نہیں کر سکتے۔ انہوں نے ملازمت چھوڑ دی، سماجی خدمت کے لئے ایک سرکاری ادارہ جوائن کیا۔ پھر اسے بھی چھوڑ کر اخوت کا ایڈونچر شروع کیا۔ چند ہزار کی رقم سے شروع ہونے والا سفر آج اربوں کھربوں تک پہنچ چکا ہے، پچاس لاکھ لوگوں کو وہ قرضے دے چکے ہیں، یعنی پچاس لاکھ گھرانوں کی قسمت بدل دی۔

ڈاکٹر امجد کی زندگی کی ایک جہت ان کا علمی، ادبی، تحریری کام ہے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ مائیکرو کریڈٹ فنانس پر ایک کتاب لکھی۔ ان کا نیپال کا سفرنامہ "گوتم کے دیس میں "اپنی زبان وبیاں کے اعتبار سے بہت دلچسپ اور عمدہ سفرنامہ ہے۔ وہ چنیوٹ کے ڈپٹی کمشنر رہے، اس پر ایک ایوارڈ یافتہ کتاب لکھی، "شہر لب دریا"۔ انہیں خیال آیا کہ کامیاب کاروباری خاندانوں کی کامیابی کے راز جانے جائیں، انہوں نے ممتا ز چنیوٹی کاروباری خاندانوں پر ایک بہت دلچسپ اور معلومات افزا کتاب لکھی۔ یہ کتاب ہر انٹرپرینیور کو پڑھنی چاہیے۔ اخوت کے حوالے سے ان کے تجربات، مشاہدات اور اسباق کا نچوڑ ان کی کتاب "اخوت کا سفر "ہے۔

انہوں نے چند سبق آموز سچی کہانیوں پر مبنی ایک مختصر کتاب "مالومصلی"لکھی، یہ کتاب دل کو چھو جانے والی ہے۔ چند ہفتے قبل ان کی تازہ کتاب چار آدمی شائع ہوئی۔ یہ ایک شاندار کتاب ہے، اس پر کالم لکھ چکا ہوں۔ یہ چار لوگوں کا قصہ زیست ہے، ماہر نفسیاتی امراض ڈاکٹر رشید چودھری، سیلف میڈ درویش سیاستدان ملک معراج خالد اور جدید لاہور کا بانی سر گنگا رام۔ یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس میں بڑی محنت اور تحقیق سے ان تین شخصیات کی زندگی کے اچھوتے پہلو سامنے لائے گئے ہیں۔ چوتھی کہانی خود ڈاکٹر امجد ثاقب کی ہے۔ ایک سچا درویش۔

ڈاکٹر امجد ثاقب کی کامیابی میں کئی اور کردار بھی شامل ہیں، اگرچہ وہ سامنے نہیں آ سکے۔ دراصل ایک بڑی کامیابی کے پیچھے ہمیشہ ایسے کچھ لوگ ہوتے ہیں جو ہاتھ بٹاتے، ساتھ دیتے ہیں، مگر کریڈٹ نہیں لینا چاہتے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی اخوت ٹیم اور اخوت کے بانی اراکین کا بہت اہم حصہ ہے۔ ڈاکٹر اظہار ہاشمی، ڈاکٹر کامران شمس دونوں اخوت سے وابستہ ہیں، ڈاکٹر کامران تو اب اخوت مائیکرو کریڈٹ فنانس کے سی ای و ہیں۔

ممتاز دانشور اور ماہر قانون پروفیسر ہمایوں احسان اخوت کے بانی رکن اور بے لوث ساتھی ہیں۔ ہمایوں احسان کا ویژن، خلوص اور جذبہ ہمیشہ اخوت کے ساتھ معاون رہا۔ اسی طرح ڈاکٹر سلیم رانجھا بھی اخوت کے بانی اراکین میں سے ہیں۔ ڈاکٹر امجد کے دیگر ساتھیوں کا بھی اپنا کردار ہے۔ آج ڈاکٹر امجد ثاقب کی نوبیل انعام کے نامزدگی ان سب کی کاوشوں کا ثمر ہے۔

ڈاکٹر امجد کی کامیابی ہمارے زوال پزیرسماج کے لئے ایک بہت اچھی علامت ہے۔ ہمارے جیسی قوموں کو ہیرو اور رول ماڈل درکار ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر امجد جیسے رول ماڈل اگر ہوں تو قوم پھر سے اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔