پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی اور ہمارے ہاں لیفٹ ونگ کے عناصر ایک زمانے میں یہ بات کہا کرتے تھے کہ بھٹو صاحب کو امریکہ نے سزا کے طور پر اقتدار سے ہٹایا۔ تب اینٹی امریکہ جذبات پیپلزپارٹی میں نمایاں تھے۔ پارٹی جلسوں میں امریکی جھنڈے جلائے جاتے اور امریکہ کے خلاف نعرے عام تھے۔ یہ تو جب بی بی کی واپسی ہوئی (اپریل1986) تب رفتہ رفتہ پیپلزپارٹی کا مزاج بدلتا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ خود محترمہ بے نظیر بھٹو ہی نے پہلے امریکہ کے جھنڈے جلانے پر پابندی لگائی اور پھر جلسوں میں امریکہ کے خلاف نعرے بھی ختم ہوگئے۔
بھٹو کی بیٹی اور سیاسی جانشین بے نظیر بھٹو کے امریکی اداروں سے خوشگوار تعلقات قائم رہے، انہوں نے امریکہ میں سیاسی لابنگ کرنے کے لئے لائبسٹ فرم کی خدمات حاصل کیں۔ میں یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ اگر بی بی کو یقین ہوتا کہ امریکہ نے بھٹو کو اقتدار سے محروم کرایا اور پھانسی تک پہنچایا ہے، تب بھی وہ امریکیوں کے ساتھ اتنے خوشگوار تعلقات قائم رکھتیں۔ اگر بی بی اور پیپلزپارٹی جنرل ضیا الحق کو مرنے کے بعد بھی معاف نہیں کر سکی تو یہی رویہ امریکہ کے بارے میں کیوں نہ اپناتی؟
پیپلزپارٹی اور بھٹو صاحب کا یہ بھولا بسرا حوالہ اس لئے یاد آیا کہ آج کل سابق وزیراعظم بڑے زور شور سے سیاسی جلسوں میں یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ امریکہ نے بھٹو صاحب کو ان کی آزاد خارجہ پالیسی کی وجہ سے نشانہ بنایا اور انہیں (عمران خان کو)بھی اسی آزادانہ خارجہ پالیسی کی وجہ سے ہدف بنایا گیا۔
عمران خان کا مزاج ہے کہ وہ ہمیشہ دو چار موٹی باتوں کو مضبوطی سے پکڑ کر ان پر اپنے دلائل کی پوری دیوارکھڑی کر دیتے ہیں۔ زہنی عرق ریزی یا تفصیل سے کسی ایشو کو سمجھنا انہیں ناپسند ہے۔ لگتا ہے ان کے کسی لبرل ساتھی نے بھٹوا ور امریکہ دشمنی والی کہانی سنا دی۔ انہیں شائد یہ بھی بتایا گیا کہ بھٹو کے خلاف تحریک چلانے والے اتحاد میں مسلم لیگ نامی جماعت بھی شامل تھی اوراتحاد کی قیادت مفتی محمود کر رہے تھے جو مولانا فضل الرحمن کے والدہیں۔ خان صاحب نے اس پر یہ استدلال قائم کیا جسے وہ بڑے ذوق شوق سے بطور وزیراعظم ایک جلسہ میں بیان بھی کر چکے ہیں کہ دیکھیں انہی لوگوں یعنی(جے یوآئی اور مسلم لیگ)نے امریکہ کے کہنے پر بھٹو کے خلاف تحریک چلائی تھی اور تختہ الٹا تھا جبکہ یہی لوگ اب امریکہ کے اشارے پر میرے درپے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ نہایت کمزور، بودا اور سراسر غلط استدلال ہے۔ اس میں کوئی صداقت نہیں۔ مجھے نہایت افسوس سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے رائٹ ونگ میں سے کسی نے اس غلط بات بلکہ تہمت کی تردید اور وضاحت نہیں کی۔ بلکہ ہمارے بلوچ، پشتون قوم پرست حلقوں نے بھی اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ وہ حالانکہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ولی خان جیسا اینٹی امریکہ اور پرو روس سیاستدان اس تحریک کا مرکزی حصہ تھا۔
ولی خان کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی (نیپ)جو بعد میں این ڈی پی بن گئی، اسکے پلیٹ فارم سے ملک بھر کے بلوچ، پشتون قوم پرست حلقوں نے بھٹو صاحب کے خلاف تحریک چلائی تھی۔ تحریک استقلال کے اصغر خان جو ایک سیکولر شخص تھے، وہ پی این اے کے مرکزی قائدین میں سے تھے۔ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان پی این اے میں پیش پیش تھے۔
ملک کی اہم ترین دینی جماعتوں جماعت اسلامی، جمعیت علما اسلام(جے یوآئی) اور جمعیت علما پاکستان (جے یوپی)کے تحت ملک بھر کی تمام دینی قوتیں پی این اے تحریک میں پوری قوت سے شامل تھیں۔ کوئی پرلے درجے کا بے خبر اور سیاسی جاہل شخص بھی مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا عبدالستار نیازی جیسی بلند پایہ اور شفاف شخصیات پر کیچڑ نہیں اچھال سکتا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا کردار مثالی تھا، جو ناقابل فروخت تھے اور جنہوں نے ہمیشہ استعمار کی مزاحمت کی۔
ویسے تو یہ بھی پرلے درجے کی سادہ لوحی بلکہ بے وقوفی کی انتہا ہے کہ نواز شریف کی مسلم لیگ کو پیر پگاڑا کی مسلم لیگ کا جانشین قرار دیا جائے۔ کون نہیں جانتا کہ پیر پگاڑا اور نواز شریف ہمیشہ ایک دوسرے کے انتہائی مخالف کیمپوں میں رہے اور پی این اے میں شامل کمزور سی مسلم لیگ کا آج کی ن لیگ سے کیا رشتہ ہوسکتا ہے؟ اسی طرح مولانا مفتی محمود کی اپنی شخصیت، واضح پالیسیاں اوراصولی سوچ تھیں۔ مولانا فضل الرحمن کی اپنی عملیت پسندانہ اور گاہے موقعہ پرستی سے گندھی ہوئی سیاست ہے۔ اس کا مفتی محمود کی جے یو آئی سے کیا موازنہ؟
سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ان سیاسی مخالفین نے ہوا میں تحریک نہیں چلائی تھی، بلکہ خود جناب بھٹو نے انہیں اس پر مجبور کیا تھا۔ اگر وہ1977 کے انتخابات میں بدترین دھاندلی نہ کراتے، خود اور اپنے صوبائی وزراعلیٰ کو بلامقابلہ منتخب نہ کراتے تو کبھی ان کے خلاف سیاسی تحریک نہ چلتی۔
کیا امریکہ نے کہا تھا کہ بھٹو صاحب دھاندلی کرائیں؟ اگر دھاندلی ہوگئی اور اس پر تحریک بھی شروع ہوئی تو ڈیمیج کنٹرول کس نے کرنا تھا؟ کیا اس سے بھی امریکہ نے منع کیا تھا؟ بھٹو صاحب اگر الیکشن دوبارہ کرا دیتے تو کیا امر مانع ہوتا؟ وہ پی این اے کی مذاکراتی کمیٹی سے مذکرات چھوڑ کر مڈل ایسٹ ممالک کے طویل دورے پر روانہ نہ ہوجاتے تو شائد الجھی ڈور سلجھ چکی ہوتی۔ ایسا کرنے کے لئے بھی کیا عالمی قوتوں نے کہا تھا؟
عمران خان کو کسی سے پوچھ لینا چاہیے کہ پی این اے کے جلسوں جلوسوں میں لاکھوں لوگ جمع ہوتے تھے۔ بے شمار لوگوں نے جیلوں کی سزا کاٹی، کئی جانیں گئیں۔ مساجد میں گولیاں چلائی گئیں، لوگ مگر ڈٹے رہے۔ اتنی بڑی عوامی تحریک کبھی کسی غیر ملکی قوت کے کہنے پر نہیں چل سکتی۔ یہ تحریک عوام کے اندر سے پھوٹی تھی اور اس کے بہت سے فیکٹرز تھے۔
بھٹو صاحب کا فسطائی طرز سیاست، اپنے مخالفوں کے خلاف مقدمات، اپنے مخلص سیاسی کارکنوں سے دوری، آمرانہ انداز میں معاملات کی ہینڈلنگ، مخصوص انداز کا جیالا کلچر جو مڈل کلاس مذہبی سماجی رویات سے متصادم تھا اور ان سب کو عام انتخابات میں دھاندلی نے بڑھا دیا۔ جب الیکشن کے ذریعے تبدیلی کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو عوام سڑکوں پر آگئے۔ پی این اے کی تحریک کو امریکہ سپانسرڈ کہنا پرلے درجے کے زیادتی اور تعصب سے کم نہیں۔
ایک اور بات بہت سے لو گ نظرانداز کر دیتے ہیں کہ بھٹو صاحب کو مبینہ دھمکی امریکی وزیرخارجہ کسنجر نے دی تھی۔ اگرچہ اس دھمکی کا کوئی ثبوت موجود نہیں، ہنری کسنجر نے ہمیشہ اپنے انٹرویوز اور تحریروں میں اس سے انکار کیا ہے۔ فرض کریں کہ وہ دھمکی درست تھی، تب بھی بھٹو صاحب کے خلاف تحریک چلانے کے وقت کسنجر کی ری پبلکن حکومت برسراقتدار نہیں تھی۔ تب ڈیموکریٹ اقتدار میں آ گئے تھے جو نسبتاً زیادہ جمہوری اور اینٹی ڈکٹیٹر سمجھے جاتے ہیں۔
جمی کارٹر جیسا شخص صدر بنا تھا جس پر امریکہ میں یہ تنقید کی جاتی ہے کہ اس نے غیر ممالک میں موثر مداخلت سے گریز کئے رکھا اور یوں امریکہ کو رسوا کرایا۔ ایسے ہی ہے کہ فرض کریں سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کوئی اس طرح کی حرکت کی ہو تواب جبکہ بلاول بھٹو وزیرخارجہ ہیں، ان کا موقف اور پالیسی شاہ محمود سے سو فی صد مختلف ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد جنرل ضیا اقتدار میں آئے تو ان کے امریکیوں کے ساتھ نہایت ناخوشگوار تعلقات رہے۔ صدر کارٹر نے انہیں گھاس تک نہیں ڈالی، امریکہ میں ضیا کے خلاف بہت کچھ لکھا جاتا رہا۔ یہ تو دو سال بعدروس نے افغانستان پر حملہ کیا تو مجبوراً امریکہ کو پاکستان کی ضرورت پڑی۔ تب بھی کارٹر دور میں ضیا کی پزیرائی نہیں ہوئی۔
کارٹر نے ابتدا میں معمولی امداد کی پیش کش کی تھی جسے ضیا نے طنزیہ مونگ پھلی (پی نٹ)کہہ کر مسترد کر دیا تھا۔ 1980ء کے الیکشن میں کارٹر ہار گیا اور ری پبلکن امیدوار ریگن صدر بنا تو امریکی پالیسی میں یوٹرن آیا اور ریگن انتظامیہ نے دل وجاں سے ضیا اور پاکستان کی مدد کی۔
یہاں یہ بتانا بڑا ضروری ہے کہ مجھے امریکہ سے کوئی ہمدردی نہیں اور میں اسے استعمار ہی سمجھتا ہوں۔ امریکہ نے دنیا کے کئی ممالک میں حکومتیں تبدیل کرانے کا گندا کام کیا اور اس کا قطعی دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ پاکستان کا کبھی حقیقی دوست نہیں رہا اور ہمیشہ یہ تعلق مفاد پر مبنی رہا۔ اس لئے ان سطور کا مقصد امریکہ کا دفاع ہرگز نہیں بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ بھٹو صاحب کے خلاف پی این اے کی تحریک امریکہ کے اشارے پر نہیں چلی تھی۔ وہ ایک جینوئن عوامی سیاسی تحریک تھی اور اسے چلانے والوں میں اینٹی امریکی موقف رکھنے والے نظریاتی لیفٹسٹ لوگ بھی شامل تھے۔ بھٹو کو ہٹانے کی مکمل ذمہ داری امریکہ پر ڈالنا اوورسمپلی فکیشن ہے۔
عمران خان صاحب اپنے لئے جذباتی اینٹی امریکہ بیانیہ ضرور بنائیں، یہ ان کی سیاسی ضرورت ہوگی، مگر ایسا کرتے ہوئے وہ براہ کرم پاکستانی تاریخ کو مسخ نہ کریں۔ تاریخ کے ساتھ پہلے ہی بہت کھلواڑ ہوچکا۔ خان صاحب اس میں مزید حصہ نہ ڈالیں۔ بھٹو صاحب نے سیاسی غلطیاں کیں، ان کی سزا بھگتی۔ اگرچہ انہیں جس انداز میں پھانسی دی گئی، میں ذاتی طور پر اسے جوڈیشل مرڈر ہی سمجھتا ہوں اور یہ عدلیہ کے دامن پر ایک دھبہ ہے۔