Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Kya Imran Khan Sadme Se Bahir Aa Sakenge?

Kya Imran Khan Sadme Se Bahir Aa Sakenge?

پاکستانی سیاست کا معاملہ عجیب ہے، یہاں بہت سی چیزیں دوسرے ممالک سے مختلف ہیں۔ اگر مغربی پارلیمانی جمہوریت کے حوالے سے پاکستانی سیاست کو دیکھا جائے تو اکثر غلط نتائج اخذ ہوتے ہیں۔ مغرب میں عوامی سروے اور الیکشن سے پہلے پول کا بڑا رواج ہے اور اکثر بیشتر وہاں اندازے درست بھی نکلتے ہیں۔ پاکستان میں بھی آج کل سروے اور پول کا رواج چل نکلا ہے اس کے نتائج بڑے تزک واحتشام سے شائع یا نشر کئے جاتے ہیں۔ میرے جیسے لوگوں کو کبھی ان سروے رپورٹوں پر زیادہ یقین نہیں رہا۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں حلقہ جاتی سیاست (Constituency Politics)کا رواج ہے۔

خاص کر پنجاب میں ایک حلقے کی سیاست دوسرے سے بالکل مختلف ہوسکتی ہے۔ ایک ہی ضلع میں دو حلقے ہیں اور دونوں کی ڈائنامکس الگ الگ ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے دو دیہی حلقوں کی سیاست بھی مختلف ہوسکتی ہے۔ درجنوں مثالیں پیش کر سکتا ہوں، مگر تحریر طویل ہوجائے گی۔ بڑی وجہ ہمارے سماج میں شخصیات، برادریوں اوردھڑے کی سیاست کا غلبہ ہے۔ مختلف وجوہات کی بنا پر ہم اس سے نکل نہیں پائے۔ پارٹی کاووٹ بھی ہے، اس سے انکار نہیں، مگر امیدوار کی ذات برادری، شخصیت، لوگوں سے میل جول اور مقامی سطح پر دھڑا ضرور دیکھا جاتا ہے۔ اب ایسی صورتحال میں سروے کیا اثر کرے گا جب ایک ہی محلہ میں ساتھ ساتھ گھر والے مختلف برادریوں کے ہونے کی وجہ سے الگ الگ امیدواروں کو ووٹ ڈالیں؟

شخصیات کا اپنا کردار ہے، مقامی سطح پر طاقتور سیاسی شخصیات اپنا اثرورسوخ برقرار رکھنے کے لئے سال بھر کوشاں رہتی ہیں۔ یہ لوگ تھانے کچہری کی سطح پر مقامی لوگوں سے جڑے رہتے ہیں، ان کے کام آتے ہیں۔ سال بھر اپنے ڈیرے چلاتے ہیں جہاں لوگوں کو دو وقت روٹی، چائے شربت، حقہ وغیرہ دستیاب ہوتا ہے۔ ایسے مقامی لوگ مشکل پڑنے پر اپنے لوگوں کے ساتھ آدھی رات کو بھی تھانے چل پڑتے ہیں اور مقدور بھر کام نکلوانے کی سعی کرتے ہیں۔ لوگوں کی خوشی غمی میں شریک ہونا بہت اہم ہے۔ کسی کی فوتیدگی پر مقامی رکن اسمبلی یا اس کی طرف سے نمائندہ شامل نہیں ہوا تو یہ بات لوگ برسوں یاد رکھتے ہیں۔

ایک سیاسی رہنما کو میں جانتا ہوں، ان کا تعلق ضلع ناروال کے ایک حلقے سے تھا، بتانے لگے کہ میں نے اپنے گائوں کے قبرستان کے گورکن کو موبائل لے کر دیا ہے، کسی کے فوت ہونے ہونے پر قبر کھدائی کا اسے ہی کہا جاتا ہے، وہ مجھے فوری بتاتا ہے اور جنازے میں پہنچ جاتا ہوں یا کسی بھائی بھتیجے کو جانے کا کہہ دیتا ہوں۔ میانوالی میں عمران خان کے مقابلے میں عبیداللہ شادی خیل نے الیکشن لڑا تھا، وہ وہاں سے الیکشن جیتتے بھی رہے ہیں۔

ایک مقامی رپورٹر نے بتایا تھا کہ اس کا راز ان کے پورے خاندان کی متحد ہو کر سال بھر سیاسی ورکنگ ہے، کہنے لگے کہ عبیداللہ کے دو چچا ہیں، روز صبح دونوں گاڑیاں لے کر علاقہ کی مختلف سمت میں روانہ ہوجاتے ہیں، دن بھر جہاں کہیں کسی کی خوشی غمی ہو، وہاں شریک ہوتے، کہیں شادی پر نیندر(سلامی کے پیسے)دیتے ہیں، کہیں فاتحہ پڑھتے ہیں اور شام ڈھلے گھر لوٹتے ہیں۔ الیکشن کے موقعہ پر جب یہ بھتیجے کے لئے ووٹ مانگنے نکلیں تو لوگ اس کا کیسے حیا نہیں کریں گے؟

یہ بات اتنی اہم ہے کہ ڈاکٹر شیر افگن جیسا شخص جو پیپلزپارٹی کا اہم رہنما تھا، وہ اس لئے محترمہ بے نظیر بھٹو سے ناراض ہوگیاکہ ان کے صاحبزادے کے انتقال پر بی بی نے ذاتی طور پر فون کر کے تعزیت نہیں کی تھی۔ ڈاکٹر شیرافگن کے بقول اس کی پارٹی قائدنے فون نہیں کیا جبکہ صدر جنرل پرویز مشرف نے فون کر کے تعزیت کی۔ شیرافگن جنرل مشرف کے ساتھ شامل ہوگئے اور ان کی حکومت کا اہم حصہ رہے۔ برسبیل تذکرہ یاد آیا کہ یہی شکوہ معروف ادیب، مترجم محمد کاظم مرحوم کو سید مودودی سے ہوا تھا۔

کاظم صاحب عربی کے بڑے ماہر تھے، ان کی کتاب "عربی ادب کی تاریخ"اپنے موضوع کی شاندار کتاب ہے، "عربی ادب میں مطالعے"، " اخوان الصفہ اور دیگر مضامین "وغیرہ بھی کاظم صاحب کی تحریر کردہ کتابیں ہیں، یہ سب سنگ میل پبلشر نے شائع کی ہیں۔ کاظم صاحب فکری طور پر جماعت اسلامی سے قریب تھے، انہوں نے مولانا مودودی کی بعض کتابیں عربی میں ترجمہ کی تھیں۔ کاظم صاحب نے صحافی، انٹرویوز محمودالحسن کو انٹرویو میں بتایا کہ میرے بیٹے کا انتقال ہوا جس کافطری طور پر شدید صدمہ ہوا، مولانا مودودی مگر تعزیت کے لئے خود آئے نہ خط لکھا۔

کاظم صاحب اتنادلبرداشتہ ہوئے کہ ان کا مولانا کے ساتھ تعلق ہی ٹوٹ گیا، مولانا نے تفہیم القرآن یا دیگر کتب کے عربی ترجمے کا کہا تو محمد کاظم نے بہانہ کر کے معذرت کر لی۔ مولانا مودودی شائد اس لئے کاظم صاحب سے تعزیت کرنے نہیں گئے تھے کہ ایوب دور تھا اورمولانا حکومت مخالف سیاسی رہنما کے طور پر مطعون تھے، کاظم صاحب سرکاری ملازمت میں تھے، مولانا نے سوچا کہ میرے جانے سے یہ بھی مارک ہوجائیں گے۔

پاکستان کی عمومی سیاست اور خاص کر پنجاب کی سیاست کے یہ رنگ ہیں، دیہی سیاست میں یہ معاملہ شدید ہے جبکہ شہروں میں بھی یہ اہم فیکٹر ہے۔ ن لیگ ان تمام چیزوں کو سمجھتی ہے۔ شریف خاندان کو دھڑے کی سیاست پر عبور حاصل ہے۔ وہ ایک ایک حلقے میں اہم لوگوں، دھڑوں، شخصیات کو ذاتی طور پر جانتے ہیں اور سیاست کے بدلتے رخ کے مطابق ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

عمران خان نے یہ چیزیں سیکھنے کی تھوڑی بہت کوشش کی، مگر فطری طور پر ان کا یہ میدان نہیں، وہ برطانوی، امریکی سیاست کے آدمی ہیں۔ اپنے بیانیہ سے ایک لہر پیدا کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے والے۔ انہوں نے ہمیشہ ایسا ہی کرنے کی کوشش کی، ابتدائی برسوں میں ناکام ہوئے۔ 2013میں انہیں اپوزیشن کے سیاسی خلا کی وجہ سے عوامی پزیرائی ملی اور جولائی اٹھارہ کے الیکشن میں تو خیر جیت ملی، مگر اس میں ان کے" سپورٹرز" کا بڑا حصہ ہے۔ یہ تمام باریکیاں، نزاکتیں اور جوڑ توڑ خان صاحب کے" حامیوں " نے کیں۔

ان چیزوں کو بدلنے کے لئے پارٹی کو گراس روٹ لیول پر مضبوط بنانا پڑتا ہے۔ نظریاتی کمیٹیڈ کارکن جو دن رات محنت کر کے اپنے حلقوں میں پارٹی وابستگی کو سیاسی دھڑوں اور برادری ازم پر فوقیت دلائیں۔ ضروری ہے کہ ایسے لوگ ہوں جو آپ کی پارٹی کی اپنی پراڈکٹ ہوں اور کل کو الیکشن جیت کر بھی ساتھ کھڑے رہ سکیں۔ جولائی اٹھارہ کے الیکشن میں یہی ہوا کہ جو لوگ "کسی اور" جانب سے آئے تھے، وقت آنے پر وہ سب ادھر ہی نکل دئیے، خان صاحب منہ تکتے رہ گئے۔

عمران خان کو اقتدار چھوڑے ڈھائی تین ماہ ہوچکے ہیں، مگر لگتا ہے وہ ابھی تک اس صدمے سے باہر نہیں آ سکے۔ انہیں ایک ہی شارٹ کٹ لگ رہا ہے کہ کسی طرح دبائو ڈال کر جلد از جلدجنرل الیکشن کرا لیا جائے اور اس میں انہوں نے جو عوامی لہر (امریکہ مخالف، امپورٹڈ حکومت وغیرہ)پیدا کی ہے، اس پر سواری کر کے وہ اقتدار میں پھر سے پہنچ جائیں گے۔ ایسا مگر بظاہر ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ عمران خان کو اس بارخاصی محنت کرنا پڑے گی اور وہ بھی اپنے بل بوتے پر۔ اگر وہ اپنے پچھلے معرکہ کی کمزوریوں کا جائزہ لے کر انہیں دور نہیں کریں گے، ایک نئے پلان کے ساتھ سامنے نہیں آئیں گے تونہ صرف ضمنی الیکشن بلکہ اگلا عام انتخاب بھی ہار بیٹھیں گے۔

خان صاحب کو مایوسی سے نکل کر عمل کی دنیا میں آنا ہوگا۔ صرف الزامات لگانے اور تنقید سے کچھ نہیں گا۔ پیپلزپارٹی نے سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں پندرہ سے چودہ اضلاع کا صفایا کر ڈالا۔ اپوزیشن دھاندلی کے الزامات لگا رہی ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ آج کے دور میں دھاندلی کی ویڈیوز بنانا کون سا مشکل کام ہے؟ کیا جے یوآئی سندھ، جی ڈی اے، تحریک انصاف، ایم کیو ایم وغیرہ نے ایسی ویڈیوز، کلپس بنائے اور انہیں سوشل میڈیا پر ڈالا؟ نہیں۔ پھر ان کی بات پر کون یقین کرے گا؟

سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر عمران خان پچھلے کئی برسوں سے اندرون سندھ کی سیاست میں داخل ہی نہیں ہوئے، بطور وزیراعظم بھی انہوں نے ادھر توجہ نہیں دی، اب بھی وہ بنی گالہ میں سر ڈالے پڑے ہیں، تو سندھی ووٹر انہیں ووٹ کیوں دے گا؟ جو سیاسی قوت سندھ میں پیپلزپارٹی کے مقابلے میں کھڑی ہی نہیں ہو رہی، اسے ووٹر کیوں ترجیح دے گا؟ اندیشہ ہے کہ کم وبیش یہی حال جنوبی پنجاب میں ہوگا۔ خان صاحب وہاں کا رخ ہی نہیں کر رہے۔

لاہور میں ن لیگ کے امیدوار دھڑا دھڑ ترقیاتی کام کرا رہے ہیں، پی ٹی آئی چلو فنڈز نہیں دلوا سکتی مگر اس کی تنظیمی سرگرمیاں بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کیا اس طرح ضمنی الیکشن لڑا جاتا ہے؟ خان صاحب سب بھروسہ اپنے بیانیہ پر کئے بیٹھے ہیں، ان کے خیال میں عوام کو ازخود باہر نکل کر امپورٹڈ حکومت کو مسترد کر دینا چاہیے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ خان صاحب اپنے صدمہ سے باہر آئیں اور یہ بوجھ عوام کے کاندھوں پر ڈالنے کے بجائے اپنی تنظیم اور کارکنوں پر ڈالیں۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ ضمنی انتخابات کا نتیجہ اگلے عام انتخابات کی ایک جھلک ہوگا۔ یہاں ہارے تو آگے بھی زیادہ امید نہ رکھی جائے۔