پنجاب میں بیس نشستوں پر ضمنی انتخابات کا معرکہ چار دن بعد سترہ جولائی کو لڑا جائے گا۔ یہ الیکشن دونوں فریقوں کے لئے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ ن لیگ کے لئے تو یہ سیدھا سادا پنجاب کی صوبائی حکومت کا سوال ہے۔ حمزہ شہباز عدالت کے فیصلے کے مطابق وزیراعلیٰ نہیں رہے اور اب انہیں ہر حال میں مطلوبہ اکثریت حاصل کر کے پنجاب اسمبلی سے وزیراعلیٰ منتخب ہونا پڑے گا۔ ن لیگ کے پاس اس وقت پنجاب اسمبلی میں 176 نشستیں ہیں، انہیں سادہ اکثریت (186)لینے کے لئے دس نشستوں کی ہر حال میں ضرورت ہے۔ اگر دس سیٹیں نہ ملیں توا س کا مطلب ہوگا کہ وزارت اعلیٰ ن لیگ /پی ڈی ایم سے نکل کر تحریک انصاف/ق لیگ کے پاس چلی جائے۔
دوسری طرف عمران خان کا بھی خاصا کچھ دائو پر لگا ہوا ہے۔ ان کے جارحانہ بیانیہ کا یہ ٹیسٹ کیس ہے۔ تحریک انصاف حکومت ختم ہونے کے بعد لوگوں کو سٹرکوں پرلانے کی کوشش کر چکی ہے، عمران خان نے مختلف شہروں میں خاصے بڑے جلسے کئے ہیں، بعض تو بہت ہی متاثرکن تھے۔ اس کے باوجود ضمنی انتخابات کے نتائج ہی عمران خان کے بیانیہ اور عوامی سپورٹ کے دعوئوں کو ثابت کریں گے۔ تحریک انصاف کے پاس پنجاب اسمبلی میں 173نشستیں موجود ہیں، یعنی انہیں مزید تیرہ (13)نشستوں کی ضرورت ہے۔ دوسرے لفظوں میں تحریک انصاف کو ن لیگ کی نسبت زیادہ سیٹیں جیتنا ہوں گی۔
ضمنی انتخابات کے نتائج ایک اور بڑے اہم مسئلے کا بھی تعین کریں گے۔ اگر تحریک انصاف اکثریت لیتی اور صوبائی حکومت بناتی ہے تب وفاقی حکومت کے لئے کام کرنا مشکل ہوجائے گا۔ کسی بھی قسم کے ممکنہ لانگ مارچ کی صورت میں تحریک انصاف نہایت آسانی سے پنجاب سے اپنے کارکن اکھٹے کر کے پنڈی تک پہنچا دے گی۔ ایسی صورت میں جبکہ پنجاب اور کے پی تحریک انصاف کے پاس ہو، تب وفاقی حکومت کے لئے اسلام آباد کاسیاسی دفاع کرنا مشکل ہوجائے گا۔
اسی لئے عمران خان جلسوں اور نجی محفلوں میں یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ہم الیکشن جیت گئے تو پھر عام انتخابات دو تین ماہ میں ہوجائیں گے۔ انہیں اندازہ ہے کہ اگر وہ الیکشن ہار گئے تب ن لیگ اور پی ڈی ایم کا بیانیہ جیت جائے گا اور پھر حکومت کو اگلے ایک سال تک ہلانا بہت مشکل ہوجائے گا۔ پھر الیکشن اگلے سال اکتوبرنومبر2023کو ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ن لیگ نے الیکشن کو اتنا سیریس لیا ہے اور اپنے چار وزرا کو استعفے دلائے ہیں تاکہ وہ الیکشن کمیشن کی پابندی سے آزاد ہو کر حلقوں میں کام کر سکیں۔ وفاقی وزیر ایاز صادق اور تین صوبائی وزرا سلمان رفیق، احمد خان اور اویس لغاری نے صرف اسی مقصد کے لئے استعفے دئیے ہیں۔
تحریک انصاف کے پچیس ارکان اسمبلی نے حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنانے کے لئے ووٹ ڈالا تھا، عدالتی فیصلے کی رو سے ان تمام کی سیٹیں ختم ہوگئیں، ان میں سے پانچ مخصوص نشستوں پر رکن اسمبلی بنے تھے، عدالت کے حکم پر ان کی جگہ تحریک انصاف کے پانچ متبادل ارکان اسمبلی کے نوٹیفکیشن جاری کر دئیے گئے، یعنی تحریک انصاف کو پانچ سیٹیں واپس مل گئیں، بیس سیٹوں کے لئے یہ معرکہ لڑا جائے گا۔ ان بیس کو لوٹا کہا جا رہا ہے کیونکہ وہ فلور کراسنگ کی شق کے تحت آتے ہیں، تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ ان بیس میں سے دس ارکان اسمبلی تحریک انصاف کی ٹکٹ پر الیکشن نہیں جیتے تھے۔ وہ آزاد الیکشن لڑ کر فاتح بنے اور زیادہ تر سیٹوں میں انہوں نے تحریک انصاف کے امیدوار ہی کو شکست دی، مگر چونکہ وہ الیکشن جیتنے کے بعد تحریک انصاف میں شامل ہوگئے، ا س لئے قانون ان پر بھی لاگو ہوا۔
بیس نشستوں میں سے چار حلقے لاہور کے ہیں پی پی (158، 167، 168، 170)، دو حلقے ضلع لودھراں (224، 228)، دو حلقے ضلع جھنگ (125، 127)، دو حلقے ضلع مظفر گڑھ(272، 273)جبکہ دس اضلاع یعنی بھکر، لیہ، بہاولنگر، شیخوپورہ، ملتان، ڈی جی خان، ساہی وال، فیصل آباد، خوشاب، پنڈی کے اضلاع میں ایک ایک نشست پر ضمنی الیکشن ہو رہا ہے۔
پی ڈی ایم گیارہ جماعتی اتحاد ہے، مگر ان ضمنی انتخابات میں بیس کی بیس نشستوں پر مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں، پیپلزپارٹی یا کسی اور جماعت کو ایڈجسٹ نہیں کیا گیا۔ ن لیگ کی مجبوری یہ تھی کہ جن بیس منحرف انصافین ارکان اسمبلی نے حمزہ شہباز کو ووٹ ڈالا، ان سب سے ضمنی الیکشن میں ٹکٹ دینے کی ڈیل اور گارنٹیڈ کمٹمنٹ ہوچکی تھی۔ اس لئے ن لیگ نے بعض حلقوں میں اپنے اچھے اور مضبوط امیدواروں کو نظرانداز کر کے منحرف ارکان ہی کو ٹکٹ دیا۔ بیس میں سے صرف دومنحرف سابق ارکان (عبدالعلیم خان لاہور اورمحسن عطاکھوسہ، ڈی جی خان)نے ازخود یہ ضمنی الیکشن نہیں لڑا۔ ان کی جگہ مقامی ن لیگی امیدوار کو ٹکٹ دیا گیا۔ خوشا ب کے حلقہ میں منحرف رکن اسمبلی غلام رسول سنگھا نے خود الیکشن نہیں لڑایا اور اپنی جگہ اپنے بھائی امیر حیدر سنگھا کو ٹکٹ دلوایا۔
ن لیگ کے لئے ایک لحاظ سے ایڈوانٹیج بھی ہے کہ سابق الیکشن میں جونمبر ون امیدوار تھا، ان کے پلیٹ فارم سے وہ الیکشن لڑ رہا ہے جبکہ اس نے چونکہ ن لیگ کے ووٹ نہیں لئے تھے تو اب کم از کم تھیوری کی حد تک ن لیگ کے ووٹ جمع ہوجانے سے اسے بونس مل گیا۔ ان میں سے بعض الیکٹ ایبلز ہیں جیسے بھکر کے نوانی، وہاں سے سعید اکبر نوانی الیکشن لڑ رہے ہیں جو سات مرتبہ پہلے بھی ایم پی اے بن چکے ہیں جبکہ ان کا بھائی چار بار رکن قومی اسمبلی رہ چکا ہے۔ اسی طرح جیسا کہ اوپر ذکر آیا، دس لوگ آزاد اپنے شخصی ووٹ یا برادری دھڑے کی محنت سے جیتے تھے، ن لیگ کے ساتھ مل کر ان کا وزن اور قوت بڑھ گئی۔
دوسری طرف ڈس ایڈوانٹیج یا گھاٹے کے سودے بھی ہیں۔ سب سے اہم منحرف ہونا یا عوامی زبان میں لوٹا بن جانا۔ حلقوں میں اس کا منفی اثر ہے، کہیں زیادہ، کہیں کم۔ دوسرایہ کہ جس شخص نے تین چار سال اسمبلی میں گزارے ہوں، اس سے ہمیشہ مقامی سطح پر کچھ شکوے شکایتیں بھی ہوتی ہیں۔ اگر اس نے حلقے میں وقت نہیں دیا، لوگوں کے کام نہیں کئے، خوشی غمی میں شامل نہیں رہا تو الیکشن کے موقعہ پر غبار نکلتا ہے۔
ن لیگ کو تیسرا بڑا نقصان یہ پہنچا کہ موجودہ امیدواروں کا ن لیگ یا انکے کارکنوں سے کوئی تعلق نہیں بلکہ زیادہ ترن لیگ کے امیدواروں اور کارکنوں کو سیاسی شکست دے کررکن اسمبلی بنے تھے۔ یوں ن لیگ کی مقامی تنظیم دل سے ان کی اونرشپ لینے کو تیار نہیں۔ چوتھا نقصان یہ ہوا کہ بعض حلقوں میں ن لیگی امیدوار جو دوسرے نمبر پر رہا تھا، اب وہ خفا ہو کر آزاد الیکشن لڑ رہا ہے اور یوں ن لیگ کے موجودہ امیدوار کو نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتا ہے۔ خوشاب کے حلقہ میں آصف بھا اور لیہ (چوک اعظم، چوبارہ)سے ریاض گرواں ایسے ہی مضبوط امیدوار ہیں جو اس بار آزاد الیکشن لڑ رہے ہیں، لودھراں (pp228)سے بھی ایک آزاد امیدوار پیر رفیع الدین شاہ کی مقامی ن لیگی ارکان اسمبلی درپردہ حمایت کر رہے ہیں۔
ویسے یہ تینوں آزاد امیدوار اگر جیتے تو قوی امکان ہے کہ ن لیگ میں شامل ہوں گے، لیکن الیکشن میں ان کے کھڑے رہنے کا بھی ن لیگی امیدوار کو نقصان ہے اور تحریک انصاف کا امیدوار فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ پی ٹی آئی نے چند حلقوں میں اپنے سابق رنر اپ امیدوار ہی کو ٹکٹ دیا، تاہم بعض جگہوں پر ٹکٹیں تبدیل کی ہیں۔ دو تین حلقوں میں پی ٹی آئی کو اچھا امیدوار نہیں مل سکااور نئے لوگوں کو ٹکٹ دئیے ہیں جن کا تمام تر انحصار عمران خان کے ووٹ بینک اور ان کی لہر پر ہے۔ ان میں بہاولنگر pp237، لودھراں pp228سر فہرست ہیں، لودھراں کے اس حلقے میں تو کہا جا رہا ہے کہ کہیں تحریک انصاف تیسرے نمبر پر نہ رہے۔ اسی طرح خوشاب میں بھی تحریک انصاف کا امیدوار نیاہے، لاہور کے ایک حلقے میں بھی یہی صورتحال ہے۔
عمران خان کے جلسوں سے پی ٹی آئی امیدواروں کو تقویت مل رہی ہے، آج بھی ان کے ملتان اور ڈی جی خان میں جلسے ہیں اور مقامی صحافیوں کے مطابق یہ جلسے بہت کچھ طے کریں گے۔ دوسری طرف مریم نواز شریف کے جلسوں سے ن لیگی امیدوار کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔
اس وقت حتمی طور پر کچھ کہنا آسان نہیں، البتہ عمران خان نے اپنے بڑے جلسوں اور جارحانہ کمپین سے ماحول گرما دیا ہے اور پی ٹی آئی نصف سے زیادہ حلقوں پر اچھی پوزیشن میں ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق پی ٹی آئی آٹھ دس حلقوں میں مضبوط پوزیشن میں ہے، پانچ میں سخت مقابلہ ہے جبکہ پانچ کے لگ بھگ حلقوں میں ن لیگ کو واضح برتری ہے۔ کئی حلقوں میں اس وقت مقابلہ 52:48 یا 51;49کا چل رہا ہے۔
جب اتنا کلوز مقابلہ ہو، تب کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ایسے میں الیکشن ڈے کی پرفارمنس فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف کا تمام تر فوکس اسی پر ہے۔ خان صاحب کی پوری کوشش ہے کہ پولیٹیکل انجینئرنگ نہ ہونے دی جائے اور نتائج پر نادیدہ قوتیں اثراندازنہ ہوں۔ سترہ جولائی کی شام یہ طے ہوگا کہ وہ کس حد تک کامیاب ہو پائے۔