روس کے یوکرائن پر چڑھ دوڑنے سے عالمی سطح پر تقسیم کی ایک فضا پیدا ہوئی ہے۔ اس بار البتہ سرد جنگ (Cold Warکے دنوں جیسی تقسیم نہیں، تب تو امریکی اور روسی بلاک واضح طور پرآمنے سامنے کھڑا تھا۔ اس بار امریکہ، یورپ اور ان کے اتحادی ایک طرف ہیں جبکہ دوسری طرف روس ہے، اس کی اعلانیہ حمایت کرنے والا کوئی دوسرا قابل ذکر ملک نظر نہیں آیا۔ ممکن ہے وینزویلا کے بڑبولے آنجہانی لیڈر ہیوگو شاویز یا مشرق وسطیٰ کے قذافی اور صدام جیسے عاقبت نااندیش آمر موجود ہوتے تو وہ نعرہ مستانہ لگا دیتے۔ البتہ کچھ ممالک مختلف مفادات کی بنا پر کھل کر روس کی مذمت نہیں کر رہے۔
ریاستوں کے معاملات ویسے مختلف ہی ہوتے ہیں، خارجہ پالیسی خالص اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر نہیں بنائی جاتی۔ اس میں گروپ اور علاقائی اتحاد اہم ہیں۔ ہر ملک دیکھتا ہے کہ کون میرا دوست ہے اور کون دشمن، مشکل میں کون ساتھ کھڑا ہوگا جبکہ کون سے ممالک میرے دشمن کے ساتھی بنیں گے۔ اس پیچیدہ حساب کتاب کے بعد بڑی احتیاط، نزاکت اور سلیقے سے پالیسی بنائی جاتی، نپے تلے بیان جاری ہوتے ہیں۔
انفرادی طور پر معاملات مختلف ہوتے ہیں۔ میں آپ یا کوئی دوسرا ملکی پالیسی میں اثرانداز ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ ہمیں اپنی بات مگر کھل کر کہہ دینی چاہیے۔ ہم کسی اور کے سامنے نہ سہی، اپنے ضمیر اور قارئین کو تو جواب دہ ہیں۔ مجھے شدید حیرت اور افسوس ہے کہ ایک واضح معاملے میں ہمارے ہاں تقسیم کیوں پیدا ہوئی؟ جو بات اصولی نقطہ نگاہ سے صاف ہے، اس میں مختلف حیلے پیدا کر کے روس کی جارحیت کی حمایت اور حوصلہ افزائی کے جواز بنائے جا رہے ہیں۔
روس کے یوکرائن پر حملہ نے ہمارے لبرلز اور لیفٹ کے (باقی ماندہ)لوگوں کی مصلحت اندیشی اور کمزوری ایکسپوز کر دی ہے۔ وہ لبرلز جو امریکہ کے افغانستان، عراق اور یمن وغیرہ پر حملوں کی کبھی مذمت نہیں کر پائے بلکہ ان کا تمام تر زور افغان طالبان پر تنقید میں صرف ہوتا تھا، اب اچانک ہی انہیں پتہ چلا ہے کہ کسی دوسرے ملک پر حملہ غلط اور ناجائز ہے۔ اس بار چونکہ لبرلز کا پسندیدہ ملک امریکہ اور مغربی دنیا یوکرائن کے ساتھ ہے تو یہ بڑھ چڑھ کر روسی حملے کی مذمت کر رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ان کا یہی اصول چند سال پہلے کہاں تھا؟ ایک جدیدسوشل میڈیائی محاورے کے مطابق کیا یہ لوگ نیپال گئے ہوئے تھے؟ یہی معاملہ لیفٹ والوں کے ساتھ ہے۔ وہ پچھلے برسوں میں امریکہ کے ہر حملے کی مذمت کرتے رہے ہیں۔ اب اچانک ہی وہ روس کی جارحیت کا نہ صرف دفاع کر رہے ہیں بلکہ اس کے لئے عجیب وغریب تاویلیں لائی جا رہی ہیں۔ بھیا ایک اصول تو بنا لیں۔
سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ امریکہ مخالفت میں خواہ مخواہ روس کی حمایت کر ہے ہیں اوراس کے صریحاًظلم کی مذمت نہیں کر رہے، ان کے دلائل کمزور اور وش فل تھنکنگ پر مبنی ہیں۔ ایک نظر ایسے دلائل پر ڈالتے ہیں۔ روس کے گر د گھیرا ڈالا جا رہا تھا، اس لئے حملہ کیااس موقف کی وکالت کرنے والے زور شور سے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ سوویت یونین جب ٹوٹا تو مغربی دنیا نے یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ مشرقی یورپ کے سوشلسٹ ممالک خاص کر روس کے پڑوسیوں کو نیٹو میں شامل نہیں کریں گے۔ اب جبکہ نیٹو نے اس کی خلاف وزری کی ہے، اس لئے روس نے حملہ کر دیا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کے پڑوس میں نیٹو کے میزائل نصب ہوں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ سوویت یونین کسی خاص معاہدے کے تحت نہیں ٹوٹا، اس لئے الگ ہوا کہ مزید چلانا ممکن ہی نہیں رہا تھا۔ سوویت یونین نے ان تمام ممالک (یوکرائن، بالٹک ریاستوں، سنٹرل ایشین ریاستوں، جارجیا، بیلاروس، ملاڈونا وغیرہ)پر جبری قبضہ کر رکھا تھا اور ہر جگہ قتل وغارت کی خوفناک داستانیں موجود ہیں۔ خود یوکرائن میں پچھلی صدی کے تیسرے چوتھے عشرے میں کمیونسٹوں کے ہاتھوں لاکھوں یوکرائنی لوگ مارے گئے تھے۔ ان ممالک کو جیسے ہی موقعہ ملا وہ ظالمانہ روسی آہنی گرفت سے آزاد ہوگئے۔ نیٹو کی جانب سے روس کو بار بار یہ کہا جا رہا ہے کہ ایسا کوئی تحریری معاہدہ اگر ہے تو بتائے؟
ممکن ہے زبانی کلامی انڈرسٹینڈنگ کہیں ہوئی ہو، مگر یاد رکھنا چاہیے کہ اس کو اکتیس سال گزر چکے ہیں اور تب پیوٹن جیسا جارحیت پسند اور سخت گیر آمر روس پر حاکم نہیں تھا۔ بورس یلسن اور پیوٹن کے انداز حکمرانی میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ ابتدائی برسوں میں روس کی پڑوسی ممالک میں مداخلت نہیں تھی۔ اب پیوٹن کے روس نے ہر جگہ پنگے لئے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ سوویت یونین کے زمانے کی متحدہ سلطنت بنے جس کا مطلب ہے کہ ماضی کی طرح ظالمانہ قبضے اور لاکھوں لوگوں کی اموات۔ پیوٹن کو یہ حق کیسے دیا جا سکتا ہے؟ ویسے بھی یوکرائن یا دوسرا کوئی ملک نیٹو میں شامل کیوں نہ ہو؟ جب روس جیسا جارح اور غصیلا پڑوسی ہو تو ہر کوئی اپنی جان بچانے کے لئے کسی سے ہاتھ ملائے گا۔ روس کو اپنے پڑوسیوں پر غصہ کرنے کے بجائے اپنے رویے اور پالیسیوں پر غور کرنا چاہیے۔
نیٹو کی توسیع پسندی کے باعث ایسا ہوایہ بات اس لئے درست نہیں کہ خود روس نے ہر جگہ اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے کی کوششیں کی ہیں۔ شام سے روس کا کیا لینا دینا تھا؟ ان کی سرحد ملتی تھی کیا؟ صرف اپنے مفادات اور اثرورسوخ کی خاطر روس نے شامی حکومت کو سپورٹ کیا اور امریکی ایجنڈے کو کائونٹر کیا۔ روس ترکی، لبیا میں بھی اپنا اثر بڑھانے کے لئے کوشاں ہے۔ امریکہ کے پڑوس میں کیوبا کی ریاست کو روسیوں نے ستراسی سال سے بھرپور سپورٹ پہنچائی ہے، روسی لاطینی امریکہ کے سوشلسٹ لیڈروں اور ان کی حکومت کو سپورٹ دے رہے ہیں، وہاں اپنی قوت بڑھانا چاہتے ہیں، صرف اس لئے کہ امریکہ کے آس پاس اپنی قوت بنائی جائے۔
یہی اگر نیٹو کر رہا ہے تو اعتراض کیسا؟ دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہر اہم ملک اپنے حساب سے لابنگ کرتا اور اپنے علاقائی، بین البراعظمی اتحاد بناتا ہے۔ یہی بھارت کر رہا ہے، یہی پاکستان نے کیا۔ سٹریٹجک پالیسی ہر ملک بناتا ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے ملک پر سیدھا حملہ ہی کر دیا جائے۔ روسی حملہ نری جارحیت اورسائوتھ انڈین فلموں کے ولن جیسا ہے، بلا سوچے سمجھے چڑھ دوڑنا۔
یوکرائن والوں کو اپنے کئے کی سزا ملیسب سے کمزورموقف یہ اپنایا گیا ہے۔ یہ لوگ مثالیں دے کر کہتے ہیں کہ یوکرائن نے غزہ، عراق، افغانستان میں مظالم پر خاموشی سادھ لی تھی، اب اس پر حملہ ہوا تو مکافات عمل کے تحت اسے سزا ملی۔ دو باتیں ہیں، پہلی یہ کہ ریاستی پالیسی ایک الگ چیز ہے اور عام شہری مختلف۔ روسی حملے سے یوکرائنی عام شہری متاثر ہو رہے ہیں، لاکھوں بے گھر ہوچکے، کریمیا کے تنازع میں اب تک چودہ ہزار لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔ جی چودہ ہزار ہلاکتیں، صرف روسی ضد اور من مانی کے باعث۔
روسی افواج کیف اور دیگر یوکرائنی شہروں پر قبضے کی کوشش میں بے شمار انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بنیں گی۔ ان شہریوں کا کیا قصور ہے؟ دوسرا یہ کہ ہمیں اپنی بات کہنی ہے، اخلاق اور اصول کے مطابق۔ اسلامی، اخلاقی، قانونی، اصولی موقف کیا ہونا چاہیے، ہم صرف یہ دیکھیں۔ اگر اللہ ہوش دے تو یہ بھی سوچ لیں کہ روس جیسی سوچ اور دلائل ہمارا ظالم بے لگام پڑوسی بھی دے کر ہمارے اوپر حملہ آور ہوسکتا ہے، تب ہم کیا دلائل دیں گے؟ روسی دلائل کو ایک لمحے کے لئے بھارتی دلائل کے فریم ورک میں رکھ کر دیکھیں تو شدت پسند ہندو موقف بالکل ایک سا ہے۔
بہترین جارحیت بہترین دفاع ہےکہا جارہا ہے کہ روس نے اس اصول پر عمل کیا ہے اور اس سے پہلے کہ نیٹو اس پر یوکرائن کے ذریعے حملہ آور ہو، اس نے پہل کر دی۔ بات یہ ہے کہ اس قول کا مطلب یہ نہیں کہ ننگی جارحیت اپنائی جائے۔ آپ مسلسل فعال اور تیز ڈپلومیسی کے ذریعے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں، مگر کسی آزاد ملک پر حملہ خواہ وہ امریکہ کرے یا روس یا کوئی اور، وہ غلط ہے۔ امریکہ خود ظالم ہے، وہ کیسے مذمت کر سکتا ہے؟
یہ بات اپنی جگہ درست ہے۔ امریکہ اور مغربی دنیا نے افغانستان اور عراق کو تباہ وبرباد کیا، لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے، لبیا، شام، یمن وغیرہ میں جو خونی کھیل کھیلا گیا، مغرب اس کے پیچھے تھا۔ مصر میں اخوانیوں کے ساتھ بے پناہ ظلم ہوا، اس پر بھی مغرب خاموش حمایتی رہا۔ یوکرائن پر حملہ کی مذمت کرتے ہوئے امریکہ اور مغربی ممالک کسی صورت نہیں جچ رہے۔ بات مگر ان کی نہیں، بات ہماری ہے۔
میرے جیسے لوگ جنہوں نے ہمیشہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی، ہم نے افغانستان اور عراق پر امریکی حملوں کے خلاف لکھا، یمن، شام، عراق اور لبیا میں ان کے رچائے خونی کھیل کی مذمت کی۔ ہمیں پورا حق پہنچتا ہے کہ ہم دوٹوک الفاظ میں، کسی اگر مگر کے بغیر یوکرائن پر روسی حملے کی مذمت کریں۔ یہی رویہ سب کو اپنانا چاہیے۔ اگر ماضی میں کسی نے فکری غلطی کی تو اس بار موقعہ ہے کہ اپنی اصلاح کریں اور آئندہ کے لئے ایک مستقل، واضح سوچ اپنائیں کہ جدید دنیا میں ایسی جارحیت کا کوئی جواز نہیں، کوئی منطق نہیں۔ وما علینا الالبلاغ۔