مشترکہ خاندانی نظام پر ہمارے پاس اکثر بحث چلتی رہتی ہے۔ میرے نزدیک مشترکہ خاندانی نظام سے مراد ماں باپ کا اولاد کے ساتھ رہنا ہے۔ اگر کوئی چھوٹی غیر شادی شدہ بہن ہو یا چھوٹا نا بالغ بھائی تو وہ بھی ایک خاص عرصے کے لئے شامل ہو سکتا ہے۔
کمانے والے شادی شدہ بھائیوں کو الگ گھروں میں رہنا چاہئیے۔ اگر کہیں پر دو یا زیادہ بھائی ایسا کرنا چاہتے ہیں تو وہ اپنی بیویوں سے ان کی آزادانہ رائے لے کر فیصلہ کریں۔ انہیں مجبور نہ کریں۔
مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ اگر بھائی الگ الگ گھروں میں رہیں تو باہمی تعلق زیادہ خوشگوار رہتا ہے کہ دونوں فیملیز کو سپیس بھی ملتی ہے اور خاتون خانہ کو اپنی مرضی اور پسند سے اپنے گھر کا نظام تشکیل دینے کا حق بھی۔
البتہ میں کسی بہو کو یہ حق دینے کو قطعی تیار نہیں کہ وہ اپنے بزرگ ساس، سسر کو ساتھ رکھنے سے انکار کرے۔ نہیں۔ ایسا کرنے والی عورت میرے نزدیک اس قابل بھی نہیں کہ وہ اس فیملی کا حصہ بن کر رہ سکے۔ اسے خوش اسلوبی سے علیحدہ کرکے اس کے میکے بھیج دیا جائے، پہلے عارضی اور پھر مستقل طور پر۔
تاہم کسی بیوی کا یہ حق ضرور ہے کہ وہ ایک خاص مدت کے بعد الگ رہنے کا سوچے اور میاں کے ساتھ مل کر پلان کرے، البتہ اس پلاننگ میں ماں باپ لازمی شامل ہوں۔ خاص مدت کا فیصلہ وہ جوڑا مشاورت سے کرے، مگر کم از کم تین چار سال تو اکھٹے گزرنے چاہئیں۔
میرے نزدیک جو لڑکی اکیلے گھر میں رہنا چاہتی ہے یا جس کے نزدیک اس کے بزرگ ساس سسر کا خیال رکھنا اس کی ذمہ داری نہیں اور اس کا شرعی "فہم" اسے یہ بتاتا ہے، توایسی ہر بی بی کو چاہئیے کہ وہ اپنے ان اقوال زریں سے شادی سے پہلے اپنے ساس سسر کو آگاہ کرے۔
اگر شادی سے پہلے ہونے والے خاوند سے ملاقات کی سبیل نکلے یا واٹس ایپ چیٹ وغیرہ کی تو اسے ضرور ضرور بتائے۔ یہ اس کی اصل شرعی ذمہ داری ہے، ورنہ وہ دھوکہ بازی، فریب اور عیاری کی مرتکب سمجھی جائے گی
نکاح ایک کانٹریکٹ ہے، بہتر ہے کہ آگے کی تمام چیزیں پہلے سے طے کر لی جائیں۔ جیسے بہونے جاب کرنا ہے یا نہیں کرنا؟ اسے گھر کے کام آتے ہیں یا نہیں اور کام سیکھنے سے کوئی دلچسپی بھی ہے یا نہیں؟ جوائنٹ فیملی سیٹ آپ ہوگا یا شادی کے دوسرے چوتھے مہینے لڑکی اپنے دولہا کو ہائی جیک کرکے سب سے الگ ہو جانا چاہتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
جس لڑکی نے ایسا نہیں کیا، اسے بعد میں (ساس سسر کے حوالے سے) اپنے شرعی حقوق گنوانے کا کوئی حق حاصل نہیں۔
یہ بات مگر تب مکمل ہوگی جب ساس سسر کو بھی واضح تلقین کی جائے کہ وہ بھی اپنی بہو کو کچھ سپیس دیں، اس کی غلطیوں کو اپنی بیٹی کی طرح درگزر کریں اور اس کے خاوند کو جا بے جا بھڑکانے سے گریز کریں۔
اس معاملے میں خاص کر ساسیں اللہ سے ڈریں، وہ بہو کو سوکن کی نظر سے دیکھتی اور کبھی کسی خوفناک خون آشام چڑیل کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ ظاہر ہے سب ایسی نہیں مگر کچھ برے واقعات ہمیشہ دیکھے گئے ہیں۔ دونوں طرف اعتدال، انصاف اور خدا خوفی کا مظاہرہ کرنا چاہئیے۔