کالم ایک اور موضوع پر لکھنے کا ارادہ تھامگر ایک بین الاقوامی نیوز ویب سائٹ پر سٹوری دیکھی کہ پاکستان میں مسکان خان کی بھرپور حمایت کی جا رہی ہے، جبکہ عورت مارچ کے شرکا کو گالیاں دی جاتی ہیں۔ نیوز فیچر پڑھنے کے بعد ارادہ کیا کہ اس پر لکھا جائے کہ یہ سوال اپنی نوعیت میں جینوئن اور اہم ہے۔
مسکان خان کے بارے میں قارئین جانتے ہی ہوں گے، یہ کرناٹک کے ایک کالج کی مسلمان طالبہ ہے، کرناٹک میں بی جے پی کی حکومت اور گہرا اثرونفوذ ہے۔ وہاں بعض کالجوں میں برقعہ(عبایا) اور حجاب لینے والی لڑکیوں کے داخلہ پر پابندی لگائی گئی ہے۔ مسکان خان نے اس پابندی کو توڑا اور عبایہ، حجاب کے ساتھ اندر چلی گئی۔ وہاں درجنوں بے لگام ہندو شدت پسند لڑکوں نے اسے گھیرا اورآوازے کسنے کے ساتھ جے شری رام کے نعرے لگائے۔
اس ہجوم میں مسکان خان اکیلی تھی، مگر اس انیس سالہ بچی نے غیر معمولی جرات کا مظاہرہ کیا اور ڈرے سہمے بغیر جرات سے ان کا سامنا کیا اور اللہ اکبر کے نعرے لگائے۔ وہاں پر فوٹوگرافر موجود تھے اور جیسا کہ عام رواج ہے ہر کوئی اپنے موبائل سے ویڈیو بنا لیتا ہے۔ مسکان خان کے اس طرز عمل کی ویڈیو جیسے ہی انٹرنیٹ پر آئی، وہ وائرل ہوگئی۔ دنیا بھر میں اس نے تہلکہ مچادیا۔ پاکستان میں بھی اس ویڈیو کی غیرمعمولی پزیرائی ہوئی اور چند گھنٹوں میں بیٹی مسکان خان عزم وہمت اور جرات کا پیکر بن کر ابھری۔ پچھلے کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر مسکان خان کے حق میں ہزاروں لاکھوں پاکستانیوں نے پوسٹیں کیں۔ ہمارے ہاں کا لبرل، سیکولر کیمپ اس پر چکرایا ہوا ہے۔ مسکان کی جرات کی تعریف تو کیا کرتے، الٹا مختلف حیلوں بہانوں سے اس کی تضحیک کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں۔
بھارت میں خاص قسم کے نیشنلسٹ میڈیا کے حلقے کاردعمل دلچسپ رہا۔ انہیں یہ فکر ہے کہ پاکستانی سوشل میڈیا پر مسکان خان کی حمایت کیوں کر رہے ہیں؟ بھئی تم اپنے اندر چیزیں ٹھیک کرو۔ جب خرابی اندر ہو توتنقید کہیں سے بھی ہوسکتی ہے۔ کسی کو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے، آپ کیوں بول رہے ہو؟ مذمت غیر مشروط اور وسیع تر ہوتی ہے، اس کی سرحدیں، رنگ، نسل، قوم نہیں ہوتی۔
دو سال پہلے امریکہ میں ایک سیاہ فام کو گورے پولیس والے نے زمین پر گرا کر گھٹنا گردن پر دباکر مار ڈالا۔ دنیا بھر سے اس کی مذمت ہوئی۔ امریکی یہ نہیں کہہ سکتے کہ غیر امریکی کیوں اس واقعے کی مذمت کر رہے ہیں۔ اس سے چند سال قبل ٹی ٹی پی کے درندوں نے ملالہ یوسف زئی کو گولی ماری تو دنیا بھر سے اس کی مذمت ہوئی۔ ملالہ یوسف زئی کی شخصیت، اس کی آرا سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، مگر جس درندگی سے اس نہتی معصوم بچی کو گولی ماری گئی، وہ ہر لحاظ سے قابل مذمت تھا۔ یہی مسکان خان کا معاملہ ہے۔ اس کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ غلط اور جیسی جرات کا مظاہرہ مسکان نے کیا، وہ قابل تعریف ہے۔ ہم پاکستانیوں کو اپنا ردعمل دینے کے لئے مسکان خان یا بھارتی مودی میڈیا کی اجازت درکار نہیں۔ ہم اپنا اصولی موقف دے رہے ہیں، چاہے وہ کسی کو اچھا لگے یا برا۔
مسکان خان کی حمایت پاکستان کے مذہبی حلقوں نے زیادہ جوش وخروش سے کی، پولیٹیکل سائنس کی اصطلاح کے مطابق پاکستانی رائٹ ونگ یا رائٹ آف سنٹر لوگوں نے بڑھ چڑھ کرایسا کیا۔ یہی لوگ عورت مارچ پر تنقید کرتے ہیں۔ ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ جواب سمجھنا مشکل نہیں۔ مسکان خان کی حمایت اس لئے کہ وہ مظلوم تھی۔ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی، اسے اس کے فطری حق سے محروم کرنے کی جبری کوشش ہوئی۔ سکارف پہننا نہ پہننا اس کا حق ہے، بھارت کا آئین، قانون اور اس تعلیمی ادارے کے ضوابط اس کی اجازت دیتے ہیں۔ صرف جبر اور دھونس سے کسی بچی کو اس سے محروم کرنا ظلم ہے۔
عورت مارچ کا معاملہ مختلف ہے۔ عورت مارچ کوالٹرالبرل، الٹراسیکولر مائنڈ سیٹ رکھنے والی مغرب زدہ این جی اوز نے ہائی جیک کر لیا ہے۔ اس مارچ میں خواتین کے جینوئن مسائل کی بات ہی نہیں کی جاتی بلکہ مخصوص لبرل ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہیں۔ عورت مارچ پر تنقید ہی یہ ہے کہ اس میں خواتین کو درپیش اصل مسائل کی بات نہیں کی جاتی؟ مثال کے طور پر ہماری عورت کے بڑے مسائل میں سے ایک موروثی جائیداد میں حصہ نہ ملنا ہے۔ دیہی معاشرے میں خاص کر اچھے بھلے لوگ اپنی بہنوں، بیٹیوں کا زمین کا شرعی، قانونی حصہ دینے کو تیار نہیں۔ انہیں لگتا ہے جیسے ہماری زمین غیروں میں چلی جائے گی۔ ان سے کوئی پوچھے کہ صرف چار پانچ نسل پہلے یہ زمین کس کی تھی؟ اس حوالے سے قانون سازی ہوئی ہے، مگر یہ کافی نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ والد کے انتقال کے بعد اس کی زرعی زمین کی آٹو میٹک تقسیم ہو کر نادراریکارڈ کے مطابق تمام ورثا بشمول بیٹیوں کے نام منتقل ہوجائے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو حق دلوائے۔ اگر عورت مارچ میں اس نکتہ پر بات ہو تو کوئی اس کی مخالفت نہیں کرے گا۔ تمام مذہبی جماعتیں، تمام علما کرام، ہر مذہبی گروہ اس کی حمایت کرے گا۔
گھر سے باہر، بازار، ٹرانسپورٹ اور کام کی جگہ (ورک پلیس) پر خواتین کی ہراسمنٹ ایک اور بڑا ایشو ہے۔ اس حوالے سے سخت قوانین بننے چاہئیں۔ گلیوں، بازاروں میں فقرے کسنے والے بدبخت لونڈوں کو ایسی خوفناک سزائیں ملیں کہ ان کی اگلی نسلیں کانپ اٹھیں۔ یہ نہایت آسانی سے ہوسکتا ہے۔ ریپ کرنے والے کو ایسی بدترین سزا دی جائے کہ وہ نشان عبرت بن جائے۔ ہراسمنٹ اور ریپ کے حوالے سے خاصا کچھ ہوا ہے، مگر بہت کچھ مزید کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال یہ ہے کہ عورت مارچ اور دیگر این جی اوز خواتین کے لئے مخصوص ٹرانسپورٹ شروع کرنے کی مہم کیوں نہیں چلاتیں؟ خواتین کے لئے الگ سے بسیں چلنی چاہئیں۔ صبح کام پر جاتے ہوئے، دوپہر کو سکول، کالج سے چھٹی اور چار پانچ بجے دفاتر سے چھٹی کے وقت ان بسوں کی تعداد زیادہ ہو۔ بڑے شہروں میں جہاں فاصلے زیادہ ہیں، وہاں ایسا لازمی ہونا چاہیے۔ اگر عورت مارچ والے یہ مطالبہ اٹھائیں تو کون مخالفت کرے گا؟ میں یقین دلاتا ہوں کہ کوئی مذہبی تنظیم یا جماعت خواتین کے لئے الگ بسوں کی مخالفت نہیں کرے گی۔
گھریلو تشدد بھی اہم ایشو ہے۔ ہمارے سماج میں بیویوں کی مارپیٹ کا رجحان موجود ہے۔ دیہی معاشرے میں تو فخریہ اس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یہ رویہ شرمناک اور قابل مذمت ہے۔ وہ بدبخت مرد کہلانے کا مستحق نہیں جو کسی عورت پر ہاتھ اٹھاتا ہے۔ اس پر قوانین موجود ہیں، مگر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ مختلف طریقوں جیسے خواتین کے لئے الگ سے تھانوں، کمیونٹی فورمز، محلوں کی سطح پر پنچایتی کمیٹیوں جن میں پڑھی لکھی خواتین بھی شامل ہوں، ان کے ذریعے یہ مسئلہ بڑی حد تک کنٹرول ہوسکتا ہے۔
خواتین کی صحت، خاص کر زچگی کے وقت درپیش طبی مسائل کے لئے مزید کلینک اور ہسپتال بننے چاہئیں۔ تحصیل، ڈسٹرکٹ سطح پر ایسے سنٹرز بڑھائے جائیں۔ اس سے لاکھوں لوئر کلاس، لوئر مڈل کلاس خواتین کو فائدہ پہنچے گا۔ ایسا کرنے کی کوئی مخالفت نہیں کرے گا کیونکہ عورت صرف بیوی نہیں ہوتی بلکہ اس کے دیگر روپ ماں، بہن اور بیٹی کے بھی ہیں۔ اپنی بیوی سے شاکی مرد بھی اپنی ماں، بہن اور بیٹی کو بہتر طبی سہولتیں ملنے کی خواہش کرے گا۔
اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ عورت مارچ کا تمام تر فوکس خواتین کے حقیقی مسائل کے بجائے لبرل ایجنڈے پر ہوتا ہے۔ میرا جسم میری مرضی جیسے فضول نعرے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر اس سے مراد یہ ہے کہ کسی عورت کو کوئی نہ چھیڑے، اس کی جبری شادی نہ ہو، اس کا خاوند اس پر ظلم نہ کرے تو یہ بات بہتر طریقے سے کہی جا سکتی ہے، ہم اس کی قطعی مخالفت نہیں کریں گے۔ البتہ میرا جسم میری مرضی کے نعرے کا معنی یہی ہے کہ میں اگر اپنی پسند سے کسی سے جسمانی تعلق رکھنا چاہوں تو مجھے کوئی نہ روکے، یہ میرا جسم ہے اسے میں جس طرح استعمال کروں، یہ میرا حق ہے۔ یوں یہ نعرہ مغربی لبرل ازم کا ترجمان ہے۔ اسلامی شریعت اور پاکستانی قوانین اسے کسی بھی صورت تسلیم نہیں کر سکتے۔
ہم مسلمان یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے جسم پر ہمارے مالک، خالق، ہمارے رب کا حق ہے۔ اپنے رب کے دئیے احکام کے مطابق ہمیں زندگی گزارنی ہے۔ اس کے برعکس نہیں۔ اسلام اور پاکستانی قانون کے مطابق اپنی پسند، مرضی اور چاہت سے بھی قانونی رشتے کے بغیر جسمانی تعلق قائم کرنا غلط اور قابل سزا جرم ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے رائٹ ونگ، رائٹ آف سنٹر بلکہ عمومی طو ر پر تقریباً تمام حلقے میرا جسم میری مرضی کے نعرے کی حمایت کیسے کر سکتے ہیں؟
عورت مارچ میں شامل کوئی خاتون اگر یہ پوسٹر اٹھائے کہ ٹانگیں کھول کر بے ہودہ انداز میں (اپنے پرائیویٹ پارٹس کو نمایاں کرتے ہوئے)بیٹھنے کا اسے حق ہے تو ایسا کر کے وہ فطری طو رپرعوامی حمایت کھو بیٹھے گی۔ ہر معاشرے کاا یک خاص عرف یا سماجی حساسیت ہے۔ عورت مارچ والے اس کا احساس کیوں نہیں کر پاتے۔؟ عورت مارچ کا سب سے بڑا ظلم ہی یہ ہے کہ اس نے سال بعد ہونے والے اتنے بڑے ایونٹ کو فضول نعروں میں ضائع کر دیا ہے۔