Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Oont Kis Karwat Baithega?

Oont Kis Karwat Baithega?

اونٹ کو ہر ایک نے دیکھا ہی ہوگا، اسے کھڑا ہوتا یا بیٹھتے دیکھنا بھی ایک دلچسپ تجربہ ہے۔ یہ عمل قسطوں میں انجام پاتاہے۔ بیٹھتے ہوئے خاص طور سے بہت زیادہ ڈولتا ہے کہ اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ اردو کی اس کہاوت کا ایک دلچسپ پس منظر بھی بیان کیا جاتا ہے۔

کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک گھسیارے (گھاس والے)اور کمہار نے مل کر اونٹ کرائے پر لیا اور منڈی کی طرف روانہ ہوئے۔ کمہار نے اونٹ کی ایک طرف اپنے مٹی کے برتن لاد دئیے، جبکہ دوسری طرف گھسیارے نے گھاس لاد ی۔ اونٹ ویسے بھی من موجی جانور ہے، راستے میں اسے بھوک لگی تو اپنی لمبی گردن گھما کرگھاس والی سائیڈ سے گھاس کھانے لگا۔ دوچار بار ایسا ہوا، ہر بار گھسیارہ تلملا کر اونٹ کی گردن کو لکڑی چبھو کر اسے سیدھا کر دیتا۔

کمہار یہ منظر دیکھ کرہنسنے لگا۔ گھسیارہ کو مزید تپ چڑھی کہ میرے نقصان پر یہ کم بخت خوش ہو رہا ہے۔ اس نے اپنے مخصوص دہقانہ انداز میں کہا، "کاہے ہنسے کمہار کے پوت، کونے کروٹ بیٹھے اونٹ۔ "یعنی اے فرزندِ کمہار تو میرے نقصان پر اب دانت نکال رہا ہے، تمہیں تب پتہ چلے گا جب یہ اونٹ بیٹھے گا اور کیا خبر کس کروٹ بیٹھے۔ وہی ہوا، جب منڈی پہنچے تو اونٹ اچانک اسی کروٹ بیٹھ گیا جہاں کمہار کے برتن لدے تھے، اس کے بہت سے برتن چکنا چور ہوگئے۔ تب گھسیارے کے مسکرانے کی باری تھی۔

سچی بات ہے کہ ہم نے کالم کا عنوان سوچا تھا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس کہاوت کا پس منظر جاننے کے لئے تھوڑی سی نیٹ پر سرچ کی تو یہ کہانی سامنے آ گئی۔ اپنی معلومات کا رعب جھاڑنے کے لئے لکھ ڈالی۔ کالم ہم سیاسی لکھنا چاہتے ہیں، عنوان بھی اسی پس منظر میں ہے، مگر یہ کہاوت ادبی ہی ہے، اس میں سیاست نہ نکالی جائے۔ ہم کسی پیشے کے خلاف نہیں، محنت کرکے کمانے والا ہر شخص بڑا آدمی ہے۔

ویسے قومی سیاست کا معاملہ اونٹ کی کروٹ والا ہوگیا ہے، نجانے آخر میں کیا بنے؟ حکومت گر جائے یا اپوزیشن کی بھد اڑے۔ سیاسی صورتحال ڈرامائی تبدیلیوں کا شکار ہے اور نت نئے زاویے بن رہے ہیں۔ ہر قسم کی سازشی تھیوری مارکیٹ میں موجود ہے۔ اس وقت تک یہ پوزیشن ہے کہ اپوزیشن اپنی نمبر ز گیم پوری ہونے کے دعووں کے باوجود پراعتماد نہیں۔ وہ تمام لوگ جن کے بارے میں شبہ تھا کہ وہ اپوزیشن سے جا ملے ہیں، وہ وزیراعظم سے بھی ملاقاتیں کرچکے، نجی محفلوں میں وہ یار لوگوں سے قسمیں کھا کر اپنی وفاداری کا یقین بھی دلاتے رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ کچھ لوگ دونوں فریقوں سے وعدے وعید کرچکے ہیں۔ آخر میں وہ کس طرف جائیں گے، یہ شائد وہ خود بھی نہیں جانتے۔

اس بار یہ لگ رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بڑی حد تک غیر جانبدار ہے۔ اگر غیر جانبدار نہ ہوتی تو تحریک عدم اعتماد پیش ہی نہ ہوتی یا صورتحال اتنی واضح ہو چکی ہوتی کہ وزیراعظم کے لئے رہنے کا جواز بھی نہ رہتا۔ تجزیہ نگاروں کو کنفیوژن اسی وجہ سے ہے کہ اس بار دونوں طرف باقاعدہ قسم کی سیاست ہو رہی ہے۔ سیاسی چالیں چلی جا رہی ہیں، ان کا توڑ ڈھونڈا جا رہا ہے۔ جینوئن صحافی حضرات اصل سورسز سے اپنی معلومات اکھٹی کرتے ہیں اور پھر انہیں مختلف حوالوں سے کائونٹر چیک کرتے ہیں۔

آج کل سورسز بھی اِدھر اُدھر ہوئے ہیں یا وہ بھی کنفیوز کہ لیڈر حضرات کہیں ہمیں تو الو نہیں بنا رہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہر طرف سے اپنا اصل گیم پلان چھپا کر مصنوعی پلان سامنے کر دیا جاتا ہے، تھوڑی سی تحقیق کرنے سے وہ غلط ثابت ہوجاتا ہے۔ اس لئے ٹامک ٹوئیاں ماری جا رہی ہیں، کبھی ایک طرف پلڑا جھکتا لگتا ہے تو کبھی دوسری سائیڈ پر چلا جاتا ہے۔ ویسے ویسے تجزیے بھی تبدیل ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک لحاظ سے اچھی بات ہے۔ سیاست میں یہی ہونا چاہیے۔

ایک دلچسپ معاملہ وی لاگر حضرات کا ہے، آج کل یوٹیوب پر بے شمار وی لاگر موجود ہیں، اچھے برے ہر قسم کے۔ کچھ ایسے جو کسی نہ کسی کیمپ سے بنا بنایا مواد لے کر دھڑلے سے چلا دیتے تھے۔ کبھی وہ ٹھیک نکل آیا تو کبھی غلط۔ اب جبکہ دینے والا کوئی نہیں، انہیں بھی شام کو دفتروں سے نکلنا پڑتا ہے۔ پنجابی محاورے کے مطابق کام کر کے کھانا پڑ رہا ہے تو انہیں بھی دقت ا ٓرہی ہے۔ صبح کے وقت وی لاگ کوئی اور، شام کو بالکل ہی بدلی کہانی سناتے ہیں۔ فیس بک والے بلاگر تو فٹ سے اپنا بلاگ ڈیلیٹ کر کے سائیڈ پر ہوجاتے ہیں۔ وی لاگر اپنی ویڈیو کا کیا کریں جو اتنی دیر میں کمائی بھی کر چکی ہوتی ہے۔

اس رسہ کشی، کشمکش کا انجام جو بھی ہو، دو باتیں بہرحال واضح ہوچکی ہیں۔ اپوزیشن نے اپنا انقلابی، جمہوری، اعلیٰ اخلاقی برتری والا بیانیہ بالکل ہی ترک کر دیا ہے۔ پچھلے کئی دنوں سے بڑی دلیری، جسے معذرت کے ساتھ ڈھٹائی بھی کہا جا سکتا ہے، اس کے ساتھ یہ قائدین دعوے کر رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے اتنے ارکان اسمبلی ہمارے ساتھ مل چکے ہیں۔ ارکان اسمبلی کا ان کے ساتھ ملنا کیا مطلب؟ صاف طور پر یہ ہارس ٹریڈنگ ہے۔ کوئی بھی رکن اسمبلی آئینی، قانونی، سیاسی طور پر اپنی پارٹی کے خلا ف ووٹ نہیں ڈال سکتا۔

اپوزیشن کو اپنے اخلاقی سٹینڈ پر رہتے ہوئے حکومتی پارٹی کے ان ارکان اسمبلی سے مستعفی ہونے کا کہنا چاہیے تھا۔ اگر پندرہ بیس پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی مستعفی ہوجاتے تو عمران خان کے پاس وزیراعظم رہنے کا جواز ہی ختم ہوجاتا۔ موجودہ صورتحال میں اپوزیشن کے تمام لیڈر اپنے ماضی کے بلند بانگ دعووں کے برعکس ارکان اسمبلی کی خرید وفروخت کا افسوسناک کھیل کھیلے جارہے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے انہیں معمولی سی ندامت بھی نہیں۔

افسوس تو یہ ہے کہ ان پارٹیوں میں شامل کسی ایک لیڈر یا کسی نچلی سطح کے کارکن نے بھی صدائے احتجاج بلند نہیں کی۔ اس نے یہ نہیں کہا کہ غلط ہورہا ہے، میں اس پر احتجاجاً اپنی پارٹی سے مستعفی ہوجاتا ہوں۔ رضا ربانی صاحب جن کی آنکھوں میں فوجی عدالتوں والے قانون پر دستخط کرتے ہوئے آنسو آ گئے تھے، معلوم نہیں اب ان پر اثر کیوں نہیں ہو رہا؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ ان کی جماعت کے قائد کیا ڈرٹی گیم کھیل رہے ہیں؟ ایسے بہت سے نام اپوزیشن کی تمام جماعتوں میں موجود ہیں۔ سب خاموش، منفقار زیرِپر ہیں۔

افسوسناک کردار جناب وزیراعظم کا بھی ہے۔ وہ نجانے کیوں انتہائی جارحانہ موڈ میں ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ انہیں اپنی حکومت جانے کا صدمہ اس قدر شدید ہے کہ وہ اس ضمن میں سب کچھ تباہ وبرباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ عوامی جلسے کر رہے ہیں، چلیں یہ ان کا حق ہے۔ وہاں پر جیسی زبان استعمال کی جا رہی ہے، اس کا کوئی جواز نہیں۔ ملک کا وزیراعظم اگر اپنے سیاسی مخالفین کے لئے ایسا لہجہ اختیار کرے گا تو پھر باقی پیچھے کیا رہ جاتا ہے۔ عمران خان کے ان اشتعال انگیزی بیانات کی بھی کسی انصافین رہنما یا کارکن نے مذمت نہیں کی۔ سب خاموش بیٹھے اپنے کپتان کی جلسوں میں دی گئی گالیاں سن رہے ہیں۔

سب سے خوفناک اعلان تحریک عدم اعتماد سے ایک دن پہلے ڈی چوک پر جلسہ منعقد کرنے کا اعلان ہے۔ ملک بھر سے سیاسی کارکن اس نازک مرحلے پر اسلام آباد میں جمع کرنے کا نتیجہ کیا عمران خان جانتے ہیں؟ یہ کالم لکھتے ہوئے ٹی وی سکرینوں پر تحریک انصاف کے مرکزی رہنمائوں کے بیانات کے ٹِکرز چل رہے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے لئے آنے والے ارکان اسمبلی کو لوگوں کے سمندر سے گزر کر جانا پڑے گا۔ یہ رہنما دعویٰ کر رہے ہیں کہ دس لاکھ کارکن جمع کئے جائیں گے۔ یہ سب اللہ نہ کرے خوفناک سیاسی ٹکرائو کا اشارہ ہے۔

عمران خان نے لگتا ہے تہیہ کر لیا ہے کہ سابق امریکی صدر ٹرمپ کی طرح وہ بھی باوقار، شائستہ طریقے سے ایوان اقتدار سے رخصت ہونے کے بجائے شورشرابا، ہنگامہ کرائیں گے۔ عمران خان کو اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ یہ سیاسی کشمکش ہے، اپنے کارڈز سیاسی جمہوری طریقے سے کھیلیں۔ یاد رکھیں کہ کسی کی شخصیت ملک کی سلامتی اور امن وامان سے بڑھ کر نہیں۔ سیاسیات کے ایک طالب علم کے طور پر مجھے تو اس پورے عمل میں سیاست، اخلاقیات اور جمہوری روایات کی دھجیاں اڑتے نظر آ رہی ہیں۔ سیاسی نتیجے سے زیاد ہ ہمیں اس خطرناک پہلو پر توجہ دینی چاہیے۔