Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Pakistan World Cup Mein Kyun Hara?

Pakistan World Cup Mein Kyun Hara?

پاکستانی کرکٹ ٹیم کی حالیہ کرکٹ ورلڈ کپ 2023میں کارکردگی خاصی ناقص رہی۔ ہم نے نو میں سے چار میچز بمشکل جیتے۔ جن میں سے تین میچ کمزور ترین ٹیموں سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیدرلینڈ کے خلاف تھے جبکہ چوتھانیوزی لینڈ سے جیتنے کی بڑی وجہ میچ کا بارش سے متاثر ہونا تھا، ورنہ ہدف جتنا بڑاتھا، ممکن ہے وہ نہ ہوپاتا۔

جنوبی ایشیائی گرائونڈز اور پچز پر ہونے والے ورلڈ کپ کے لئے پاکستان کو فیورٹ ہونا چاہیے تھا، مگر ہم بری طرح ناکام رہے۔ ہارجیت کھیل کا حصہ ہے، مگر پاکستان نے زیادہ تر میچ لڑے بغیر ہارے اورٹیم کی تکنیکی خامیاں پوری طرح آشکار ہوگئیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم نے نہ صرف پاکستان کو رسوا کرایا بلکہ ان کا سوشل میڈیا پر مذاق ہی بنتا رہا۔ اس کے برعکس افغانستان جیسی نئی ٹیم نے ناتجربے کاری کے باوجود اپنے جذبے، فائٹنگ سپرٹ اور کوالٹی کرکٹ سے ہر ایک کو متاثر کیا۔

پاکستان کی اس بدترین شکست کا کوئی ایک ذمہ دار نہیں ہے، کئی فیکٹرز شامل ہیں۔ جیت کی طرح ہار بھی ایک مکمل پیکیج ہوتا ہے۔ مختلف شعبوں میں بری کارکردگی ہی خوفناک شکست سے دوچار کراتی ہے۔ سب سے پہلے ٹیم کو لیتے ہیں۔ سفاک حقیقت یہ ہے کہ ورلڈ کپ میں شریک ہونے والی پاکستانی ٹیم بری شکست کی مستحق تھی۔ وجہ یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ کنڈیشنز کے حساب سے مضبوط اور متوازن نہیں تھی۔ اس میں کئی کمزوریاں اور شگاف موجود تھے۔ ہم ون ڈے ورلڈ کپ کی مناسب تیاری کر ہی نہیں سکے تھے۔ ہم جس ملک میں، جس طرح کی پچوں پر کھیلنے جا رہے تھے، اس حساب سے ہمارے پاس ہتھیار ہی نہیں تھے۔

ایسی غیر متوازن، کمزور اور ہا ر کی مستحق ٹیم لے جانے کی ذمہ داری ہمارے کپتان بابراعظم اور چیف سلیکٹر انضمام الحق پر عائد ہوتی ہے۔ بابراعظم نے اپنی مرضی سے ٹیم بنائی، اپنے دوستوں کے لئے سٹینڈ لے کر انہیں پوری طرح اکاموڈیٹ کیا اور یوں ورلڈ کپ سکواڈ کا بیڑا غرق کر دیا۔ ہمارے چیف سلیکٹر انضمام الحق جو ایک دفاعی، ڈرے ہوئے مائنڈ سیٹ والے روایتی ویژن لیس شخص ہیں، انہوں نے صرف بابراعظم کو خوش کیا اور اپنا ذہن استعمال ہی نہیں کیا۔ انضمام پاکستانی ٹیم کی بدترین کارکردگی کے ذمے داران میں سے ایک ہیں۔

جنوبی ایشیائی پچز پر سپنرز زیادہ کامیاب رہتے ہیں، ہمارا سپن اٹیک ورلڈ کپ کی دس ٹیموں میں سے شائد سب سے کمزور تھا۔ درحقیقت ہمارے سپنرز (شاداب خان، محمد نواز اور اسامہ میر) اپنی بائولنگ کے لحاظ سے سپیشلسٹ سپنر کہلانے کے مستحق ہی نہیں تھے۔ ان کی گیند ٹرن ہوتی تھی نہ وہ نپی تلی گیند کرانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ایسے سپنر جو مخالف بلے بازوں کو زرا سا بھی پریشان نہیں کر پاتے۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمیں اچھی طرح پتہ چل چکا تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔ ایشیا کپ میں ہمارے سپنر بری طرح ایکسپوز ہوگئے تھے۔ تب بھی ٹیم کے کپتان بابراعظم اور چیف سلیکٹر انضمام الحق نے آخری وقت میں بہتری لانے کی معمولی سی کوشش بھی نہیں کی۔ بابر اعظم نے تو کم عقلی اور کوتاہ اندیشی کی انتہا کرتے ہوئے اپنے دوست شاداب خان کو نہ صرف ٹیم میں شامل کرایا بلکہ باقاعدہ چیئرمین کرکٹ بورڈ سے بحث کرکے اسے نائب کپتان کے عہدے پر بھی برقرار رکھا۔ نرم سے نرم الفاظ میں یہ مجرمانہ غفلت اور اپنے قومی فرائض سے روگردانی تھی۔

بابر اعظم کو کرکٹ کمیٹی کے اراکین مصباح الحق اور محمد حفیظ نے تجویز دی کہ وہ مسٹری سپنر ابرار احمد کو شامل کرلیں۔ بابر نے غالباً ابرار کو اس لئے شامل نہیں کیا کہ وہ اگر پرفارم کر جاتے تو پھر شاداب خان کی چھٹی ہوجاتی کیونکہ دونوں ہی لیگ سپنر ہیں۔ بابر نے محمد نواز کو بھی شامل کرایا، حالانکہ وہ اچھی طرح دیکھ چکے تھے کہ نواز کی گیند ٹرن نہیں ہوتی۔ نواز کی بائولنگ کا ڈیٹا یہ بتاتا ہے کہ وہ لیفٹ ہینڈڈ (کھبے)بلے بازوں کے سامنے بہت زیادہ رنز دیتے ہیں۔ خود بابر اعظم بھی محمد نواز کو کھبے بیٹرز کے سامنے لانے سے گریز کرتے ہیں۔

ورلڈ کپ میں بہت سے ہارڈ ہٹر کھبے بلے باز موجود تھے، وہاں پر نواز نے ویسے ہی صفر ہوجانا تھا۔ بابر نے اسامہ میر کو بھی شامل کیا، اوسط درجے کا لیگ سپنر جس کے پاس ورائٹی ہے ہی نہیں۔ ان اوسط سے بھی کم درجے کے سپنرز سے وہ بھارت میں ورلڈ کپ کھیلنے کس طرح جا سکتے ہیں؟ یہی بات انضمام الحق سے پوچھنی چاہیے؟ اتنا طویل عرصہ کرکٹ کھیلنے والے انضمام کیا بے خبر تھے کہ یہ تینوں سپنر بھارت میں کامیاب نہیں ہوں گے؟ بابرنے مزید ظلم یہ کیا کہ جب شاداب خان ان فٹ ہوگیا، تین چار میچز نہیں کھیلا، تب بھی اس نے ٹریولنگ ریزرو میں شامل ابرار احمد کو ٹیم میں شامل کرنے سے گریز کیا۔ نجانے کیوں؟

شائد بابراپنے عزیز دوست شاداب کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا، یہ مگر بابراعظم کی ذاتی ٹیم نہیں تھی، یہ پاکستان کی قومی ٹیم تھی، یہاں پر یاریاں دوستیاں نبھانے کے بجائے میرٹ پر ٹیم کھلانی چاہیے تھی۔ حسن علی بھی اب اوسط درجے کے فاسٹ بائولر بن کر رہ گئے ہیں، انضمام الحق نے تجربے کی آڑ میں بابر کے دوست حسن علی کو ٹیم میں شامل کیا، جبکہ زمان خان جیسے ڈیتھ اوورز کے عمدہ بائولرکو ٹریولنگ ریزرو میں ڈال دیا۔ ہمارے فاسٹ بائولرز شاہین اور حارث رئوف نے آخری اوورز میں ایک بھی یارکر گیند نہیں کرایا گیا، جبکہ زمان خان یارکر سپیشلسٹ ہے اور وہ اپنے منفرد ایکشن کی وجہ سے ایک اوور میں تین چار یارکر کرا سکتا ہے۔

انڈیا میں میچز کے بارے میں اندازہ تھا کہ آئیڈیل بیٹنگ پچز اور چھوٹی بائونڈریز ہوں گی۔ ایسی کنڈیشنز میں ہارڈ ہٹر بلے باز کھلائے جاتے ہیں جو چھکوں، چوکوں کی بارش کر دیں اور ساڑھے تین سو سے چار سو رنز تک کا ہدف دے سکیں یا ضرورت پڑنے پر حاصل کر یں۔ پاکستان کے پاس ایسا ایک ہٹر(آئوٹ آف فارم)فخر زمان تھا جبکہ دوسرا ایسا کھلاڑی افتخار تھا جسے مسلسل نمبر چھ پر بھیجا جاتا رہا۔ امام الحق سے بابر، رضوان، سعود شکیل تک چار ایک ہی سٹائل کے بلے باز تھے جوستر اسی کے سٹرائیک ریٹ سے رنز کرتے رہے۔

انضمام الحق اگر آئوٹ آف باکس سوچ سکتے تو جارحانہ کھیلنے والے اوپنر صائم ایوب کو ٹیم میں شامل کر لیتے۔ صائم نے کیربین لیگ میں رنز کے انبار لگا دئیے تھے، وہ لمبے چھکے لگانے والے زبردست ہٹر ہیں۔ انضمام الحق نے صائم ایوب کی جگہ اپنے بھتیجے امام الحق کو شامل کرایا جو گھسے پٹے انداز میں پرانے سٹائل کی بیٹنگ کرتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انضمام نے اپنے بھارت کے دورے میں امام کو کھلانے کے لئے دبائو بھی ڈالا۔

بابراعظم بطور کپتان بھی بری طرح ناکام ہوئے۔ وہ ڈری سہمی کرکٹ کھیلتے رہے، ان کی اپنی بیٹنگ متاثر ہوئی اور کئی میچز میں وہ سیٹ ہو کر وکٹ گنوا بیٹھتے جیسے کسی ذہنی خلجان کا شکار ہوں۔ جس انداز کی جارحانہ، پراعتماد کرکٹ کھیلنے کی ضرورت تھی، اس کا بابر اعظم میں فقدان نظر آیا۔ جارحیت کی کمی، اپنی غلطیوں سے نہ سیکھنا اور میرٹ کے بجائے دوستوں کو خوش کرنے کا رویہ بابراعظم کو ایک ناکام اور بیکار کپتان ثابت کرتا ہے۔ انہیں آئندہ کے لئے کسی بھی فارمیٹ کا کپتان نہیں بنانا چاہیے۔

صرف ایک مثال دیکھ لیں کہ حارث رئوف نئی گیند کے اچھے بائولر نہیں ہیں، انہیں بارہ چودہ اوورز کے بعد بائولنگ دینی چاہیے، بابر نے مسلسل کئی میچز میں حارث کو اٹھواں اوورکرایا۔ حارث کی زبردست پٹائی ہوئی اور مخالف ٹیم پاکستان پر حاوی ہوگئی۔ بابر مگر یہ سمجھنے کے بجائے اپنی غلطی مسلسل دہراتے رہے۔ دنیا بھر کے کرکٹ ایکسپرٹ یہ کہتے رہے کہ حارث کودیر سے باولنگ دینی چاہیے، بابر اعظم نے مگر اپنی ضد ہر بار پوری کی۔

آخر میں کرکٹ بورڈپر بھی تنقید ہونی چاہیے۔ دو سال کے اندر ہمارے تین چیئرمین بدل گئے۔ ہر ایک نے آ کرپرانا بہت کچھ بدل ڈالا۔ رمیز راجہ کے دور میں اچھا بھلا سسٹم بن گیا تھا۔ نجم سیٹھی نے بیڑا غرق کر دیا۔ ایسی کوچنگ ٹیم بھرتی کی جن کی کوئی تک نہیں تھی۔ انڈیا نے ورلڈ کپ کے لئے تسلسل کے ساتھ بھرپور تیاری کی، آج وہ موسٹ فیورٹ ہے۔ ہمارے پاس تسلسل کی کمی رہی۔ سپنر ہم تیار ہی نہیں کر سکتے، ہمارے پاس بیک اپ کھلاڑی نہیں تھے، نسیم شاہ کے زخمی ہونے سے ہمارے فاسٹ بائولنگ سکواڈ کی قلعی کھل گئی۔ زکا اشرف کا زیادہ قصور نہیں کہ انہیں کم وقت ملا، مگر بہرحال انہوں نے کمزوری دکھائی اور کرکٹ کمیٹی میں شامل تجربہ کار مصباح اور حفیظ کے مشوروں کو نظرانداز کیا۔

ویسے تو زکا اشرف کا کرکٹ سے کیا تعلق بنتا ہے؟ ایک کاروباری شخص کو اپنی بزنس امپائر پر توجہ دینی چاہیے۔ چیئرمین کرکٹ بورڈ وہ ہو جسے کرکٹ کی سمجھ ہو۔ ماجد خان اس اعتبار سے بہترین انتخاب ہوسکتے تھے۔ کاش آصف زرداری اپنے ایک ساتھی کو نوازنے کے بجائے ملک وقوم کا سوچتے اور میرٹ پر ایک اچھا تقرر کراتے۔ اگر ماجد خان جیسا عظیم کرکٹر چیئرمین کرکٹ بورڈ ہوتا تو یہ سب تماشے نہ ہوتے، جو آج ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کی بدترین شکست کی ذمہ داری کسی ایک شخص پر عائد نہیں کی جا سکتی، اس کے کئی ذمہ دار ہیں، تاہم کپتان، کوچنگ ٹیم اور چیف سلیکٹر اس فہرست میں ٹاپ پر آئیں گے۔