Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Qismat Ka Likha Hua

Qismat Ka Likha Hua

میرا صحرا نشینوں کے ساتھ زیادہ وقت تو نہیں گزرا، مگر چند ایک لوگوں کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا، جن کا زیادہ عرصہ کسی صحرائی بستی میں گزرا یا ان کا بچپن، لڑکپن صحرائوں میں رہتے بیت گیا۔ ان سب میں دو تین چیزیں نمایاں نظر آئیں۔ ایک تو ان کا رب پر"توکل" کا رشتہ مضبوط تھا۔ یہ سب اپنی قسمت کے فیصلے کو خوشدلی سے قبول کرنے والے تھے۔ اپنی سی پوری کوشش کرتے مگر کسی غیرمتوقع، ناخوشگوار تقدیر کو بھی قبول کرتے۔

دراصل صحرائوں میں موسم کی تبدیلی سے یکایک اتنا کچھ بدل جاتا ہے کہ مکینوں کی زندگی پر گہرے اثرات پڑتے ہیں۔ صحرائی لوگ اس لئے اس سب کے لئے تیار رہتے ہیں۔ صحرا کے باسیوں میں مہمان نواز کا وصف بھی نمایاں ہوتا ہے۔ وسائل موجود نہیں اپنے کھانے کی روٹی بھی نہیں ملتی، مگر پھر بھی جو کچھ میسر ہو، وہ مہمان کے لئے حاضر کر دیتے ہیں۔ شائد اس لئے کہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ صحرائوں میں انہیں بھی کسی جگہ ایسے ان چاہا مہمان بن کر پناہ لینی پڑ سکتی ہے۔

تیسری خوبی ان کی فصاحت وبلاغت ہے۔ صحرائی لوگ تفصیل سے واقعہ سنایا کرتے ہیں، معمولی سی معمولی جذئیات بھی نظرانداز نہیں ہوتی۔ اگر کوئی شخص چولستان سے روانہ ہوا اور اچھا خاصا سفر طے کرکے بہاولپور، ملتان یا کسی دوسرے شہر پہنچا۔ آپ نے اس سے حال احوال پوچھا تو وہ گھر سے قدم نکالنے سے آغاز کرے گااور پھر یوں عمدگی سے نقشہ کھینچے گا کہ آپ ساتھ ساتھ سفر کرتے جائیں گے۔

صحرانشین قبائل کے توکل اور قسمت کے لکھے کو کھلے دل سے قبول کرنے کی صفت کے حوالے سے ایک یورپی سفرنامہ نگار اور مصنف آرسی بوڈلے نے ایک دلچسپ کتاب لکھی ہے، جس میں بہت سے واقعات رقم کئے۔ بوڈلے دراصل ایک برطانوی فوجی افسر تھا۔ نوجوان بوڈلے کولکھنے لکھانے کا شوق تھا۔ سکینڈ لیفٹننٹ کے طور پر ہندوستان میں چند سال گزارے۔ وہاں سٹیج ڈرامے لکھے اور ان میں حصہ بھی لیا۔ نوجوان بوڈلے پہلی جنگ عظیم میں شریک ہوا۔ کئی لڑائیاں لڑیں، زخمی بھی ہوا۔

ایک بار بوڈلے کی ملاقات مشہور برطانوی جاسوس ٹی ای لارنس سے ہوئی۔ وہ مشہور برطانوی کردار جسے تاریخ لارنس آف عریبیہ کے نام سے جانتی ہے۔۔ یہ ملاقات ساڑھے تین منٹ پر محیط تھی، مگر بقول بوڈلے اس نے اس کی زندگی کا رخ بدل ڈالا۔ بوڈلے نے لارنس سے پوچھا کہ اب جنگ ختم ہوگئی اور سیاست میں حصہ لینے کے سوا کوئی اور آپشن نہیں، اسے کیا کرنا چاہیے؟ لارنس نے ایک سطری جواب دیا، جائو اور عربوں کے ساتھ کچھ وقت گزارو، تمہاری زندگی بدل جائے گی۔

لارنس آف عریبیہ سے دو سو سکینڈز کی ملاقات نے اس کے مستقبل کا تعین کر دیا۔ بوڈلے نے اپنے معاملات نمٹائے اور صحارا(شمالی افریقہ کا سب سے بڑا صحراجسے صحراالکبریٰ کہا جاتاہے) جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے دوستوں نے اسے فئیرویل پارٹی دی، جس میں شرطیں لگائی گئیں کہ بوڈلے صرف چھ ہفتوں کے اندر واپس آ جائے گا۔ شرط لگانے والوں کو بدترین ہزیمت اٹھانی پڑی۔ آر سی وی بوڈلے اگلے سات برسوں تک اسی صحرا میں عرب بدئوں کے ساتھ مقیم رہا۔

بوڈلے نے اپنے صحرا کے دنوں کے حوالے سے کئی کتابیں لکھیں۔ وہ اسے اپنی زندگی کے بہترین سال گردانتا تھا۔ بوڈلے کی کتاب Algeria From Within کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے اور بوڈلے کو اس کتاب کی بنیاد پر صحرا کے بارے میں سب سے بہتر جانکار ی رکھنے والا برطانوی قرار دیا جاتا رہا۔ بوڈلے کا پہلا ناول یاسمینہ بھی اسی خاص کلچر کی عکاسی کرتا رہا۔

بوڈلے نے اپنے آپ کو صحرائی عربوں کے سے انداز میں ڈھال لیا۔ شراب نوشی مکمل طور پر ترک کر دی۔ وہ صحرائی عربوں کا لباس پہنتا، انہی کی طرح خیمے میں رہتا اور فرش پر سوتا تھا۔ عربی اس نے بڑے ذوق شوق سے سیکھی۔ اسے یہ لائف سٹائل اتنا بھا گیا کہ بوڈلے نے باقاعدہ بھیڑیں خرید کر انہیں چرانا شروع کر دیا۔ پہلے اس نے اس کام کے لئے چرواہے رکھے، مگر پھر خود ہی بھیڑوں کی دیکھ بھال شروع کر دی۔ عام بدوئوں کی طرح وہ اپنی بھیڑوں سے محبت کرتا، ان کے ساتھ سوتا اور کاروبار کرتاتھا۔

بوڈلے کے بقول ان سات برسوں کے دوران اس کی زندگی میں کسی بھی قسم کی پریشانی یا دکھ نہیں تھا۔ وہ نہایت اطمینان اور سکون سے زندگی گزارتا رہا۔ اس کی بڑی وجہ اس کے میزبان عربوں کی قناعت پسندی اورخدا پر یقین تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ یہ غریب صحرائی عرب اس قدر طمانیت سے بھرپور زندگی گزارتے تھے کہ دیکھ کر رشک آتا۔ وہ قسمت پر یقین رکھتے اور ہر مصیبت پر صبر کرتے۔ عرب اس کے لئے ایک ہی لفظ استعمال کرتے، " مکتوب"۔ یہ جادوئی لفظ کسی بھی مصیبت زدہ عرب کے لئے مرہم کا کام دیتا۔ حتیٰ کہ جس کسی کا سب کچھ لٹ جاتا، اسے بھی دوسرے تسلی کے لئے یہی لفظ استعمال کرتے، "مکتوب"۔ بوڈلے کو بتایا گیا کہ مکتوب کا مطلب ہے لکھا ہوایعنی قسمت۔ یہ مسلمان عرب اس پر یقین رکھتے کہ ہر اچھی بری تقدیراللہ کی طرف سے ہے اور پریشان رہنے سے معاملات سلجھ نہیں جائیں گے۔ صبر اور ہمت سے اس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔

بوڈلے نے اپنی کتاب میں ایک اہم واقعے کا ذکر کیا ہے، جب صحرا میں شدید طوفان آیا۔ سخت گرمی کے دن تھے، آگ برساتی لو چلنے لگی۔ آندھی کی رفتار اس قدر تیز تھی کہ ریت کے چھوٹے ٹیلے اڑ کر میلوں دور تک بکھر گئے۔ بوڈلے کے بقول یوں لگ رہا تھا جیسے کسی شیشے کے کمرے میں پوری شدت سے دہکتے کسی آتش دان کے سامنے آدمی کھڑا ہو، جب دیواریں بھی آگ کی طرح دہکنے لگیں اور سانس لینا تک دشوار ہوجائے۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اس کے سر کے بال لو کی حدت سے پگھل جائیں گے۔ تین دنوں تک یہ شدید گرم آندھی طوفان جاری رہا۔ ایسی تباہ کن حالت میں جب بوڈلے ہوش وحواس کھو رہا تھا، مقامی عرب مطمئن رہے۔ وہ ایک ہی لفظ دہراتے، مکتوب، یہ لکھا ہوا ہے۔

طوفان تھما تو بدو قبیلے نے فوری طور پر اپنی بھیڑیں ذبح کرنا شروع کر دیں، جن کی حالت نازک لگ رہی تھی۔ یہی بھیڑیں ان کی زندگی، ان کا کاروبار، روزگار کا ذریعہ تھیں، مگر عربوں کے اطمینان میں فرق نہیں آیا تھا۔ قبیلے کے سردار نے بوڈلے کو متوحش دیکھ کر اپنے پاس بلایا اور تسلی دیتے ہوئے کہا، " اللہ کا شکر ہے کہ ہمارا سب کچھ ضائع نہیں ہوا۔ اس قسم کے طوفان میں کچھ بھی نہیں بچتا۔ ہماری چالیس فیصد بھیڑیں بچ گئی ہیں۔ ہم نئے سرے سے اپنا کام شروع کر سکتے ہیں۔ ایسا قسمت میں لکھا ہوا تھا، ہوگیا۔ اب افسوس کرنے سے وہ واپس تو نہیں آ سکتا، اللہ پر بھروسہ رکھنے سے البتہ زندگی کا نیا باب شروع ہوسکتا ہے، امید کرنا چاہیے کہ وہ خوشگوار اور خوبصورت ہوگا"۔

بوڈلے اس بات پر بھی حیران تھا کہ یہ قبائلی زندگی کے ہر معاملے میں خدا کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ بوڈلے کے مطابق، "خداان کی زندگیوں کا لازمی حصہ ہے۔ وہ اسے اپنے خیمہ تک محدود نہیں رکھتے بلکہ زندگی کے ہر معاملہ میں خدا سے رہنمائی مانگتے اور اسی کی طرف دیکھتے ہیں۔ ان کا کھانا پینا، سفر، کاروبار، شادی، پیدائش، موت، محبت، غرض ہر معاملے میں خدا کی طرف دیکھتے، اس کے احکامات کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ خدا ایک طرح سے ان کا قریبی ترین دوست اور ہر وقت کا ساتھی تھا۔ خدا سے تعلق کی یہ نوعیت ان لوگوں (اہل مغرب)کے لئے اندازہ کرنا مشکل ہے جو صرف ایک خاص رسمی عبادت کے ذریعے ہی کچھ وقت کے لئے خدا سے اپنا تعلق جوڑتے ہیں"۔

اسی مکتوب یا لکھے ہوئے کا ذکر پائیلو کوئلو نے اپنے شہرہ آفاق ناول" الکیمسٹ" میں کیا ہے۔ الکیمسٹ کا مرکزی کردارایک گڈریالڑکا ہے، جو اپنے خوابوں کی تعبیر پانے اہرام مصرتک گیا۔ صحرا کے سفر میں اسے قبائلیوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقعہ ملا۔ صحرا کے خطروں کا جو مقابلہ کرتے اور اپنی کٹھن زندگیوں میں صرف اللہ پر انحصار، اس کی مرضی پر بھروسہ اور اس کی رحمت ہی سے امید لگائے رہتے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھتے تھے، جو کچھ ان سے ہوسکتا، اپنی پوری کوشش اس میں صرف کرتے اور پھر نتائج کو اللہ پر چھوڑ دیتے۔ قسمت کے نادیدہ قلم سے لکھے فیصلوں کو کھلے دل سے قبول کر لیتے۔

سچ تو یہ ہے کہ یہی ایمان اور یہی عقید ہ ہے۔ اشفاق احمد نے جسے ایک فقرے میں یوں سمویا کہ اللہ کی مرضی کو اپنی مرضی بنا لینا ہی ایمان ہے۔ قسمت کے لکھے ہوئے فیصلوں کوخوش دلی سے تسلیم کر لینا ہی انسان کو وہ قوت عطا کرتا ہے، جس سے اس کی زندگی کی کشتی وقت کے سمندر میں سفر طے کر پاتی ہے۔ یہ سہولت البتہ خدا کو نہ ماننے والے یا متشکک لوگوں کو میسر نہیں۔ ان کی زندگیوں میں غیر یقینی کا کرب گھلا ملا رہتا ہے۔ بہت بار ان دیکھے کا خوف ان کے رگ وپے میں سما جاتا ہے، جس پرقابو پانے کی خواہشات انہیں ممنوعات کی طرف لے جاتی اور کبھی بھری دنیا میں تماشا بنا ڈالتی ہے۔

آخری تجزیے میں" مکتوب "یا "قسمت کا لکھا ہوا" ہی ایسے جادوئی حروف ہیں جن کی قوت، تاثیر اوربرکات کو سمجھنا اس طلسم کدے کی کلید ہے۔