پچھلے سال ماہ رمضان میں ایک نیا تجربہ کیا گیا یا میرے علم میں پہلی بار آیا تھا کہ بعض ٹی وی چینلز نے مہینے بھر کے لئے ایک ڈرامہ سیریل شروع کی، جو یکم رمضان سے شروع ہو کر عید رات تک چلا۔ پھر کسی نے اس کی آخری دو تین طویل اقساط کو میگا ایپی سوڈ کا نام دے کر عید سپیشل ٹرانسمیشن کا حصہ بھی بناڈالا۔ عام روٹین کے جذباتی رونے دھونے والے یا فیملی سازشوں سے بھرپور ڈراموں کے بجائے ان ڈراموں کو ہلکا پھلکا رکھا گیا۔
ممکن ہے بعض قارئین کو یہ بات ناپسند ہو کہ رمضان میں یہ ڈرامے کیوں؟ اس کا جواب تو یہ ہے کہ انٹرٹینمنٹ چینلز پر ڈرامے تو رمضان میں بھی چلتے رہتے ہیں۔ پھر یہ ڈرامے اپنے معمول کے وقت یعنی سات یا آٹھ بجے کے علاوہ رات گئے یا اگلے دن بھی دکھائے جاتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں آپ یوٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں۔ بہت سے لوگ چینلز پر دیکھنے کے بجائے ڈرامے یوٹیوب پر دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ وجہ یہ کہ ہر ڈرامے میں دس منٹ بعد چار پانچ منٹ کے اشتہار بھگتنے بلکہ سہنے پڑ جاتے ہیں۔ چینلز کے برعکس یوٹیوب پر ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔ وہاں اکا دکا اشتہار آتا ہے وہ بھی چند سکینڈز سے زیادہ کا نہیں۔ مزید آسانی یہ ہوگئی کہ معمولی سی فیس دے کر آپ ایڈز فری یوٹیوب کی سہولت حاصل کر سکتے ہیں، تب مجال ہے کہ ایک سکینڈ کے لئے بھی کوئی اشتہار چھو جائے۔
ویسے مزے کی بات ہے کہ ٹی وی چینلز کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں کہ ناظرین یوٹیوب پر کیوں شفٹ ہو رہے ہیں، کیونکہ انہی ٹی وی چینلز نے یوٹیوب چینلز بنا رکھے ہیں، جہاں سے انہیں بقول شخصے کئی ملین بلکہ شائد کروڑوں ماہانہ کی یافت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ڈرامہ نو بجے ختم ہو تو گھنٹے ڈیڈھ بعد وہ یوٹیوب چینل پر اپ لوڈ کر دیا جاتا ہے۔
پچھلے سال دو ڈرامے بیک وقت دیکھنے کا موقعہ ملا، چپکے چپکے اور عشق جلیبی۔ چپکے چپکے بہت مقبول ہوا تھا۔ دونوں ڈرامے الگ الگ چینلز پر لگتے تھے، مگر ہمیں ایک فائدہ یہ ہوا کہ پی ٹی سی ایل لینڈ لائن نیٹ کی بدولت گھر میں سمارٹ ٹی وی کی آپشن موجود ہے۔ اس پر تین گھنٹے پرانے پروگرام دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کرکٹ میچ دیکھتے ہوئے ہمیشہ سپورٹس چینلز کی انتظامیہ کو کوستے تھے کہ کسی کھلاڑی کے آئوٹ ہونے پر ری پلے دکھانے کے بجائے دو تین منٹ کے اشتہارات دکھاتے رہتے ہیں۔ اب ہمیں کوئی مسئلہ نہیں، ہم اپنی مرضی سے وقت کی سوئی پیچھے گھما کر یعنی ٹی وی پر چند سکینڈ یا ایک منٹ یا جتنا مرضی ریورس کر کے وہ گیند، اوور یا میچ کا کوئی خاص حصہ دیکھ لیتے ہیں۔ شرط بس یہی ہے کہ تین گھنٹے کی رینج کے اندر ہو۔ ہم اسی طرح دونوں ڈرامے دیکھ لیتے۔
ممکن ہے بعض قارئین کو یہ ٹی وی ڈراموں کی باتیں کھل رہی ہوں۔ صاحبو! ہم پرانی وضع کے آدمی ہیں۔ ہمارا بچپن، لڑکپن پی ٹی وی کے زمانے میں گزرا۔ زندگی کی سنہری اور نہایت مسرت انگیز یادیں پی ٹی وی ڈراموں سے منسلک ہیں۔ ٹی وی ہمارے گھرمیں فیملی انٹرٹینمنٹ کی حیثیت رکھتا تھا۔ گرمیوں کے دنوں میں ہم دونوں بھائی اپنی اپنی باری پر شام ہوتے ہی صحن میں پانی کا چھڑکائو کر کے چارپائیاں بچھاتے، ان پر دھلی چادریں اورپیروں کی طرف رِلی بچھاتے۔ ویسے سرائیکی میں رِلی کو گِندی کہا جاتا ہے۔ پیڈسٹل فین لگ جاتا۔
ایک میز پر ٹی وی رکھ دیا جاتا اور بروقت اینٹینا وغیر ہ ہلا جلا کر بہترین ٹیوننگ کر لی جاتی۔ آٹھ بجے سے پہلے رات کا کھانا اور آٹھ سے نو بجے تک ڈرامہ ہی دیکھا جاتا۔ نو بجے خبرنامہ، اس کے بعد ٹی وی بند، لائٹس آف اور پھر سونے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ سردیوں میں ہم سب گھر کے ایک بڑے کمرے میں سوتے، اسے ہم نے ازخود ہال کمرہ قرار دے دیا تھا۔ اس معمول میں ایک آدھ استثنا فٹ بال ورلڈ کپ میچزکا آتا جو اکثر آدھی رات کو شروع ہوتے۔ سردیوں میں کسی طرح ہم انہیں دیکھ لیتے، گرمیوں میں دل مسوس کر رہ جاتے۔ 1992کے ورلڈ کپ میں رمضان تھا، سحری کے قریب میچز شروع ہوتے تھے۔
پورے گھرانے کی مشترکہ تفریح کا یہ تصور آج کل سرے سے غائب ہوگیا ہے۔ ایک تو ہر ایک کی اپنی اپنی مصروفیت اس طرح چلتی رہتی ہے کہ کسی کھانے پر اکھٹے نہیں ہوپاتے۔ تفریح کے وقت کسی نے ڈرامہ دیکھنا ہے تو دوسرے کو کارٹون اور تیسرے کو ویڈیو گیمز میں دلچسپی ہے، چوتھے کو اس وقت باہر اپنے دوستوں کے ساتھ گپ لڑانی ہے۔ یوں سب بکھرے بکھرے رہتے ہیں۔ پہلے سب گھر والے اکھٹے ہنستے، مسکراتے، ایک ساتھ جذباتی ہوتے اور کسی ڈرامے پر چپکے سے آنسو بھی بہاتے تھے۔ فیملی ڈرامے تھے، اسی لئے کہیں کوئی عامیانہ حرکت یا کسی ہلکے ڈائیلاگ کا تصور تک نہیں تھا۔ یہ سب ایک نہایت مضبوط تعلق، ایک بانڈ سا بناتا تھا۔
دوسرا ہم سب کی یاداشت میں ایک خاص انداز کی تہذیب، شائستگی، طرز کلام، طرز زندگی کی جھلکیاں محفوظ ہوجاتی تھیں۔ پی ٹی وی کے پشاور، کوئٹہ کے ڈراموں سے پشتون، بلوچ کلچر کی آگہی ہوئی۔ کراچی سنٹر کے بعض بہت مقبول ڈرامے جیسے دیواریں، جنگل، چھوٹی سی دنیا وغیرہ سندھی کلچر کے گرد گھومتے تھے، انہیں دیکھ کر خاصا کچھ سیکھا۔ افسوس کہ آج یہ سب کچھ پرانی تاریخی باتیں لگتی ہیں، کئی سو سال پرانی۔
ان رمضان ڈراموں کے رجحان نے مجھے تو شاد کیا ہے۔ مجھے یہ ڈرامے اچھے لگے، عرصے بعد کوئی فیملی سٹائل تفریح یا انٹرٹینمنٹ دیکھنے کو ملی۔ پچھلے سال بھی چپکے چپکے اور عشق جلیبی پر کالم لکھا تھا۔ میں نے اس بار ڈرامے یوٹیوب پر دیکھے۔ اس سال مجھے سب سے زیادہ پسند چودھری اینڈ سنز آیا۔ کمال کا ڈرامہ تھا، پی ٹی وی کے سنہرے دنوں کی جھلک لئے، مگر جدید ٹیکنالوجی اور جدید اسلوب میں لپٹا ہوا۔ سہیل احمد(عزیزی) کئی سال بعد ٹی وی ڈرامے کی طرف آئے اور چودھری دلدار ہوشیار پوری کا شاندار کردار نبھایا۔ سہیل احمد نے واقعی ایوارڈ وننگ ایکٹنگ کی۔ متاثر کن۔ یہ کردار بھی لگتا ہے ان کے لئے لکھا گیا تھا۔
عمران اشرف نے ہیرو یعنی بلو چودھری کا کردار ادا کیا اور کیا خوب کام کیا۔ عمران اشرف کردار میں کھب گیا۔ عائزہ نے پری کا رول نبھایا، یہ کردار ان سے عمر میں کم از کم دس سال چھوٹی لڑکی کو کرنا چاہیے تھا۔ سنا ہے کہ عائز ہ سوشل میڈیا پر بہت مقبول ہیں، ان کے کئی ملین فالورز انسٹا گرام وغیرہ پر ہیں۔ شائد اسی لئے پچھلے سال چپکے چپکے میں اور اس سال چودھری اینڈ سنز میں انہیں کم عمر لڑکی کے کردار میں لیا گیا۔ وہ اچھی اداکارہ ہے، نبھانے کی پوری کوشش کی، مگر کردار کی عمر کے مطابق کاسٹنگ کرنی چاہیے۔
ارسہ غزل پی ٹی وی کے عمدہ اداکارہ رہی ہیں۔ انہوں نے پچھلے سال عشق جلیبی میں بہت مزے کا کام کیا، خوب کڑک سیالکوٹی پنجابی بولتی رہی۔ اس سال ان کا دادی کا کردار زیادہ مشکل اور چیلنجنگ تھا، خوب کام کیا۔ نورالحسن ہمارے معروف اینکر اور اداکار ہیں، بندے بھی کمال کے ہیں، تصوف کے حسین رنگوں کے چھینٹے ان پر پڑے ہیں۔ نورالحسن نے عشق جلیبی میں بھی بہت اچھا کام کیا اور اس سال چودھری اینڈ سنز میں بھی وہ چھائے رہے۔
نور کے کام میں اتنی بے ساختگی ہے کہ دیکھنے والا سمجھتا ہے شائد یہ بندہ ہے ہی ایسا۔ اگلے کسی ڈرامے میں مختلف کردار کر کے وہ مزید حیران کر دیتے ہیں۔ ان ڈراموں کی مشترکہ رائٹر کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ اتفاق سے پچھلے سال کے دونوں ڈرامے اور اس سال کے یہ دونوں ڈرامے" ہم تم" اور "چودھری اینڈ سنز" کی رائٹر صائمہ اکرم چودھری ہیں۔ صائمہ چودھری نے بہت اچھے ہلکے پھلکے دلچسپ ڈرامے تخلیق کئے، ان کے مکالمے بھی خوبصورت تھے۔
ہم تم بھی اچھا، لائٹ سا ڈرامہ ہے۔ اس میں خاص بات مجھے دادا کا کردار لگا۔ ٹی وی کے معروف اداکار اور مصنف محمد احمد نے یہ کردار ادا کیا۔ انہیں آپ اکثر ٹی وی اشتہارات میں بھی دیکھتے ہوں گے۔ ان دونوں ڈراموں میں مجھے یہ بات خوبصورت لگی کہ رائٹر اور ڈائریکٹر نے خاندان کے بزرگوں کے کردار بڑے مزے کے دکھائے۔ بچوں سے محبت کرنے والے، ان کے ساتھ کھڑے ہونے والے دادا، دادی وغیرہ دکھائے۔ ویسے یہ حقیقت ہے کہ گرینڈ پیرنٹس یعنی دادا، دادی، نانا، نانی حقیقی زندگی میں اپنی تیسری نسل سے بے پناہ محبت کرنے والے ہوتے ہیں۔ وہ بدنصیب ہیں جنہوں نے یہ رشتے نہیں دیکھے۔ مجھے محسوس ہوا کہ ان ڈراموں کے ذریعے نئی نسل کو اس جانب توجہ دلائی گئی ہے کہ انہیں بھی اپنے بزرگوں سے ویسی محبت دینی چاہیے، ان کا خیال رکھنا، انہیں وقت دینا چاہیے۔
کسی فیملی ڈرامے میں ناشائستہ منظر، آنکھیں جھکا دینے والے عامیانہ مکالمے نہ ہوں، دیکھتے ہوئے آپ کھلکھلا کر ہنسیں، مزا لیں اور کبھی دل کو چھو لینے والے پرتاثیر منظر پر خاموشی سے آنکھیں بھیگ جائیں، ساتھ میں کوئی ایک مثبت پیغام بھی ہو، تو اس سے بڑھ کر ہمیں اور کیا چاہیے؟ اس کالم کا مقصد اس رجحان کی حوصلہ افزائی کرنا ہے اور انٹرٹینمنٹ چینلز کی انتظامیہ کو یہ مشورہ دینا ہے کہ ایسے ڈراموں کے لئے ایک سال انتظار کیوں کیا جائے؟ کیا یہ اچھا نہیں کہ ہر سہ ماہی میں مختلف موضوعات پر ایک آدھ ہی سہی مگر ہلکا پھلکا ڈرامہ شامل کیا جائے؟