Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Roos Ne Ukraine Par Hamla Kyun Kya?

Roos Ne Ukraine Par Hamla Kyun Kya?

بطورپاکستانی ہمارے لئے سب سے اہم یہ نکتہ ہے کہ ریاست پاکستان کو روس یوکرائن تنازع میں کیا پوزیشن لینی چاہیے اور عام پاکستانی اپنی کیا رائے بنائیں؟ اس حوالے سے ضروری ہے کہ اس تنازع کے پس منظر اور مختلف پہلوئوں کو سمجھ لیا جائے۔

یوکرائن ان بدقسمت خطوں میں سے ہے جن پر ہمیشہ آس پاس سے حملے ہوتے رہے ہیں، کئی صدیوں تک وہ قبضہ میں رہے اور ان کی جدوجہد کا عرصہ کئی نسلوں پر محیط ہے۔ تاریخی طور پر یوکرائنی روسیوں سے مختلف ہونے کے باوجود کئی صدیوں تک روسی سلطنت کا حصہ رہے۔ زار روس کے ادوار اور سوویت انقلاب کے بعد بھی یوکرائنی عوام کی قسمت نہ بدلی، وہ بدستور قبضے میں رہے۔ کلاسیکی روسی لٹریچر کے کئی شاہکار ناولوں میں یوکرائنی لینڈ سکیپ کے گرد کہانیاں بنی گئیں۔

بعض قارئین ممکن ہے سوویت یونین (USSR)اور روس میں فرق نہ سمجھ پائیں۔ یو ایس ایس آر یا سوویت یونین سے مراد" یونین آف سوویت سوشلسٹ ری پبلکس " ہے، جو کہ پندرہ ممالک کا مجموعہ تھا، سوویت انقلاب کے بعد یہ وجود میں آیا اور1922 سے لے کر1991تک رہا، 91وہ سال تھا جب مختلف وجوہات کی بنا پر سوویت یونین ٹوٹ گیا اور اس کا حصہ رہنے والے یا کہہ لیں قبضے میں رہنے والے ممالک الگ الگ ملک بن گئے۔ چونکہ سوویت یونین کا سب سے بڑا حصہ روس تھا اور درحقیقت یہ روسی اشرافیہ اور روسی قوم کی آہنی گرفت تھی جو سوویت یونین پر قائم رہی، اس لئے تب بھی بہت سے لوگ سوویت یونین کو روس کہہ دیتے تھے، تکنیکی طور پر مگر وہ تب سوویت یونین ہی تھا۔

الگ ہوجانے والے ممالک میں سب سے نمایاں روس تھا، اس کے علاوہ یوکرائن، بیلاروس، سنٹرل ایشیائی ریاستیں (قازقستان، ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان، کرغستان، آذر بائیجان)، آرمینیا، مالدووا اور بالٹک ریاستیں لٹویا، لیتھوانیا، ایسٹونیا وغیرہ شامل تھے۔ یہ سب اب الگ ممالک بن چکے ہیں، البتہ داغستانی علاقہ چیچنیا اپنی آزادی کی جنگ لڑنے کے باوجود ابھی تک روس کا حصہ ہی ہے۔ یہ تمام ممالک جوسوویت یونین سے الگ ہوئے، ان پر روسی اثرورسوخ اور کلچرل اثرات بڑے گہرے تھے۔ سوویت یونین کی حکومت نے پلاننگ کے تحت ان علاقوں کے خام مال کو تو خوب استعمال کیا، مگر یہاں پر انڈسٹری لگانے سے گریز کیا۔ یہاں روسی زبان بولنے والے لوگ بھی دانستہ پلاننگ کے تحت بسائے جاتے رہے، مقامی ذریعہ تعلیم بھی روسی میں تھا تو ان تمام ممالک میں بڑی حد تک روسی زبان سمجھی، بولی جاتی ہے۔

سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد ابتدائی چند برسوں میں یہ علاقے مختلف قسم کے بحرانوں کا شکار ہی رہے۔ پون صدی تک جبر اور آمریت میں پلے تھے، جمہوریت کی کچی پکی شکل ہی یہاں پر آئی اور کئی ممالک میں آج بھی سویلین آمر ہی قابض ہیں۔ روس معاشی طور پر مضمحل تھا تو فطری طور پر ان ممالک میں سے کچھ یورپ اور مغربی دنیا کے زیادہ قریب ہوئے۔

روس کی زندگی میں بہت اہم موڑ تب آیا جب ایک سابق کے جی بی (سوویت یونین کی بدنام زمانہ انٹیلی جنس ایجنسی)ایجنٹ ولادی میر پوٹن روس کا سربراہ بنا۔ پوٹن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی زندگی اور نفسیات میں 1991کے سوویت یونین زوال اور شکست وریخت کے گہرے اثرات ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ روس کو پھر سے عروج پر لے جائیں اور سوویت یونین کے زمانے والی طاقت، اثر اور دنیا میں اس کی اہمیت بنے۔ انہوں نے روس کی معیشت کو بھی سنبھالا، ترقی کے نئے راستے کھولے، نئی جارحانہ خارجہ پالیسی اپنائی اور عملی طور پر ملک میں کنٹرولڈ ڈیموکریسی کا ماڈل نافذ کیا جس کے مطابق برائے نام سیاسی آزادی، کنٹرولڈ میڈیا اور اپوزیشن کو سختی سے کچلنے کی پالیسی اپنائی۔

یہی وجہ ہے کہ پوٹن طویل عرصے سے حکمران ہیں۔ انہوں نے حکومت میں رہنے کے لئے ایک سے زائد بار روسی آئین میں ترامیم کیں۔ دو ہزار چار سے بارہ تک وہ روس کے صدر رہے۔ روسی آئین کے مطابق کوئی بھی شخص دو بار سے زیادہ صدر نہیں بن سکتا، پوٹن نے تب ایک سیاسی چال چلی اور وزیراعظم بن گئے۔ اس کے بعد وہ پھر چھ سال کے لئے صدر بنے اور 2018میں چوتھی بار روسی صدر بن چکے ہیں۔ امکانات ہیں کہ اگلے کئی برسوں تک وہ روس کے مرد آہن بن کر رہیں گے۔

پوٹن کے ادوار میں روس نے اپنی سابقہ ریاستوں میں رسمی، غیر رسمی مداخلت اور اثرورسوخ بڑھانے کی کوششیں کیں۔ اس کے کئی مظاہر اور مثالیں موجود ہیں۔ ان کو اس بات سے نفرت ہے کہ ان علاقوں میں امریکی یا مغربی اثرورسوخ پیدا ہو۔ اس کی وہ ہر حال میں مزاحمت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پوٹن کی شدید خواہش ہے کہ ماضی میں سوویت یونین کا حصہ رہنے والے ممالک مغربی اتحاد نیٹو میں ہرگز شامل نہ ہوں۔

یاد رہے کہ" نیٹو NATO"مغرب کا اینٹی سوویت یونین اتحاد ہے جو 1949 میں قائم ہوا تھا، اس میں امریکہ اور مغربی یورپ کے ممالک شامل ہیں، ترکی بھی نیٹو کا حصہ ہے۔ مشرقی یورپ کے ممالک ہنگری، چیکوسلواکیہ، پولینڈ، آسٹریا وغیرہ تب سوشلسٹ ممالک تھے اور یہ سوویت یونین کے گہرے اثرورسوخ تلے دبے اور اس کے اتحادی تھے۔ سوویت یونین ختم ہوا، مگر نیٹو ختم نہیں ہوا کیونکہ مغربی دنیا کے خیال میں روس کی شکل میں ایک بڑی طاقت ابھی موجود ہے جس کے پاس ہزاروں ایٹمی میزائل اور دنیا کی تین چار بڑی افواج میں سے ایک ہے۔

حالیہ روس یوکرائن تنازع کے پس منظر میں نیٹو اتحاد میں شمولیت کا معاملہ بھی موجود ہے۔ یوکرائن روس کا پڑوسی ملک ہے۔ یوکرائن کی خواہش ہے کہ وہ نیٹو کا حصہ بنے، اس حوالے سے خاصی پیش رفت ہوچکی ہے، مگر ابھی تک یوکرائن باضابطہ طور پر نیٹو کا حصہ نہیں بنا۔ یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ نیٹو اتحاد کی بنیادی شق ہے کہ کسی ایک ملک پر حملہ ہوا تو نیٹو کے تمام ممالک مل کر اس کا مقابلہ کریں گے، یعنی ایک پر حملہ پورے نیٹو پر حملہ تصور ہوگا۔

یوکرائن کے لیڈر روس کے جارحانہ عزائم سے پریشان ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ کسی طرح نیٹو میں شامل ہوجائیں تاکہ اپنا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ ادھر روس کو یہ لگتا ہے کہ اگر یوکرائن نیٹو میں چلا گیا تو اس کی سرحد کے بالکل قریب نیٹو کے فوجی اڈے اور میزائل وغیرہ نصب ہوجائیں گے، یوں روسی سکیورٹی کو سنگین مسائل درپیش ہوسکتے ہیں۔ یہ بات پوٹن پچھلے کچھ عرصہ میں بار بار کہہ چکے ہیں۔

یاد رہے کہ پولینڈ، لٹویا اور ایسٹونیا بھی نیٹو میں شامل ہوچکے ہیں، ان پر بھی روس معترض اور برہم ہے لیکن وہ یوکرائن جیسی سٹریٹجک جغرافیائی اہمیت کے حامل نہیں ہیں، اس لئے وہاں روس نے اتنا شدید ردعمل نہیں دیا۔ روسی حکمران پوٹن البتہ یوکرائن اور جارجیا کو کسی بھی صورت میں نیٹو میں شامل نہیں ہونے دینا چاہتے۔ نیٹو کا جوابی موقف ہے کہ روس کو یہ دبائو ڈالنے کا کوئی حق نہیں اور کوئی بھی آزاد ملک اپنی مرضی سے جس چاہے اتحاد میں شامل ہو، روس روکنے والا کون ہے؟

یوکرائن کا یہ بحران کئی سال پرانا ہے۔ 2013ء میں یوکرائن میں روس نواز حکومت قائم تھی، تب یوکرائنی صدر وکٹر یانوکووچ کے خلاف عوامی مظاہرے شروع ہوئے، جو شدت پکڑ گئے۔ یوکرائنی دارالحکومت کئیو KYIV میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے صدر کی برطرفی کا مطالبہ کیا۔ تب بھی ایشو نیٹو ہی بنا۔ یوکرائن میں بڑے عوامی حلقے مغرب او ر نیٹو میں جانے کے حامی تھے، جبکہ روس نواز عوامی، سیاسی، صحافتی حلقوں کی پوزیشن ان سے مختلف تھی۔ خیر احتجاجی تحریک شدید ہوئی توحکومت نے سختی سے کچلنے کی کوشش کی، خاصا خون خرابا ہوا، خونریز ہنگامے تب تھمے جب فروری 2014 میں روس نواز صدر وکٹر یوکرائن سے فرار ہوگئے، انہوں نے روس میں پناہ لی۔ اس کے بعد سے یوکرائن میں پرو یورپ حکومتیں چلی آ رہی ہیں۔ موجودہ یوکرائنی صدر بھی پرو یورپ، پرو نیٹو الائنس ہیں۔

یوکرائن کے چند علاقوں میں روسی زبان بولنے والی اکثریت آباد ہے، روس ان علاقوں کے حوالے سے خاصا حساس ہے۔ کریمیا ایسا ہی ایک علاقہ ہے، جس کو صدر پوٹن نے باقاعدہ فوجی قوت استعمال کر کے یوکرائن سے الگ کر لیا۔ کریمیا کی مقامی حکومت اور عوام بھی یوکرائن کا حصہ بننے کی مخالف تھی اور وہاں روس کے ساتھ ملنے کی خواہش قوی نظر آتی ہے۔ اسی طرح یوکرائن کے دو اور اہم علاقوں دونستک اور لوہانسک میں روس نواز یوکرائنی علیحدگی پسندوں کا کنٹرول چلا آرہا ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے یہ علاقے عملاً الگ ہیں، ان پر روس نواز یوکرائنی علیحدگی پسندوں کا کنٹرول ہے جنہیں بھرپور روسی سپورٹ حاصل ہے، مگر انہیں کسی نے الگ ملک تسلیم نہیں کیا تھا۔ اب اچانک سے روس نے ان ممالک کو آزاد علاقہ تسلیم کر لیا اور وہاں اپنی فوج بھی بھیج دی ہے۔

یوکرائن پر جوحالیہ حملہ ہوا ہے، وہ بنیادی طور پر ان دو علاقوں پر ہوا ہے۔ دونستک اور لوہانسک میں روسی فوج بھیجی گئی ہے، تاہم یہ خطرہ موجود ہے کہ روس کہیں زیادہ بڑا حملہ کر کے پورے یوکرائن، خاص کر اس کے دارالحکومت کیئو پر قبضہ ہی نہ کر لے۔ صورتحال بہت سنگین اور گمبھیر ہے، اس کے گہرے مضمرات ہوں گے، اس پر اگلی نشست میں ان شااللہ بات کرتے ہیں۔