Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Saada o Rangeen Dastan e Lazzat

Saada o Rangeen Dastan e Lazzat

چند دن پہلے بڑی ہمشیرہ احمدپورشرقیہ سے تشریف لے آئیں۔ اسی روز دوپہر کو کھانے میں ایک پلیٹ نظر آئی جسے اچھے سے ڈھکا ہوا تھا، بچوں نے بتایا کہ یہ آپ کے لئے سپیشل ہے، پھوپھو لائی ہیں۔ اس روزدسترخوان پرمیری پسند کی کوئی مزے کی چیز ہی بنی تھی۔ بمشکل اپنی توجہ ہٹا کر بے دلی سے اس ڈھکی ہوئی پلیٹ کو اٹھایا کہ نجانے ا س میں کیا ہے؟ دیکھ کر نہ صرف آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں بلکہ محاورے کے مطابق باچھیں کِھل گئیں۔ احمد پورشرقیہ کے محلہ کٹرہ احمد خان کے مشہور روایتی سرخ چھولے (چنے)تھے۔ کٹرہ محلہ احمد پور کا پراناقدیمی علاقہ ہے، میرا آبائی گھر وہیں پر ہے۔ وہاں زیادہ تر(سرائیکی) پٹھانوں کے گھر ہی ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ بچپن میں میں کٹرہ محلے کے بازار سے یہ چنے لایا کرتا تھا۔ ہم سرائیکی چنوں کو چھولے کہتے ہیں۔ ان چھولوں کا رنگ سرخ تھااور ذائقے میں ہلکی سا کھٹا پن بھی شامل تھا۔ معلوم نہیں لیموں کا استعمال یا سرکہ یا کچھ اور۔ جس کسی نے احمد پور کے یہ روایتی سرخ چنے کھا لئے، وہ انہیں کبھی بھول نہیں سکتا۔ ہمارے بچپن میں ایک ہی ریڑھی تھی۔ اب تو سنا ہے تین چار جگہوں پر ملتے ہیں، مگر ہر جگہ صبح جلدی جانا پڑتا ہے، نو دس بجے تک یہ ختم ہوجاتے ہیں۔

یہ اسی، اکیاسی (1980-81) کا ذکر ہے، تب پلاسٹک کے شاپنگ بیگ کا رواج نہیں تھا، لوگ گھر سے برتن لے کر جاتے۔ ہم بچوں کو وہ بڑے سے پتے پرایک ڈوئی چنے کی ڈال دیتا۔ شائد پیپل کا پتہ تھا۔ تب چنے کے اوپر گاڑھی دال مونگ کا چھینٹا سا بھی لگا دیا جاتا، بعد میں ختم کر دیا۔ آپ لوگ اندازہ نہیں کر سکتے کہ صبح گھی والی نرم روٹی یادیسی گھی کے پراٹھے کے ساتھ وہ چنے اور دہی ملا کر کھانے کا کیسا لطف تھا۔ ہم بچے چنگیر جسے ہم سرائیکی میں چھبی کہتے ہیں، لے کر جاتے اور اس پرتین چار پتے رکھوا آتے۔ چار آنے، آٹھ آنے میں، بعد میں ریٹ بڑھتا ہی گیا۔

اپنے گھر میں اسی شام احمد پور کے خاص الخاص دہی بھلے بھی کھائے، ان کا بھی جواب نہیں۔ شہر کے مشہور چوک منیر شہید جسے ہم تب وہاں بنے رائونڈ ابائوٹ کی وجہ سے "چکر "کہا کرتے تھے، وہاں پر یہ دہی بھلے کی ریڑھی کھڑی ہوتی۔ لکھا تھا، گوجرانوالہ کے شاہی دہی بھلے۔ شائدگوجرانوالہ سے اس کا تعلق ہوگا۔ ویسے مجھے گوجرانوالہ میں بھی ویسے دہی بھلے نظر نہیں آئے۔ پچھلے چالیس برسوں میں اس کے مزے اور ذائقے میں کوئی فرق نہیں آیا۔ آج کل کچہری کے سامنے دکان ہے۔ اس کا بھلہ اس قدر نرم ہوتا کہ لاہور سے کراچی اور پشاور سے کوئٹہ تک کسی شہر میں ایسا بھلہ نہیں دیکھا۔ نفاست سے کٹے ابلے آلو، بھلیاں، چنے، شفاف گاڑھا دہی اور تین چار قسم کی رنگارنگ مزیدار تیکھی چٹنیاں، باریک لچھے دار سلاد اور سپیشل مسالہ جات۔

احمد پورشرقیہ چھوٹا سا شہر ہے اور ہم اسے ہرگز قصبہ نہیں کہنے دیتے۔ یہ بس چھوٹا شہر ہی ہے۔ نوابان بہاولپورکا مسکن تھا تو اس میں کچھ روایتی چیزیں موجود ہیں اور لوگوں میں خاص قسم کا رکھ رکھائوبھی۔ جدید چیزیں یہاں دیر سے آئیں۔ مجھے یاد ہے چورانوے پچانوے (1994-95) کی بات ہے، میں نے تعلیم مکمل کر لی تھی۔ ایک وکیل صاحب کے پاس اپرنٹس شپ کر رہا تھا، لائسنس کے لئے اپلائی کر رکھا تھا۔ تب عدالت کے سامنے ایک بیکری کھلی، اس کا مالک بہاولپور شہر کا تھا۔ وہیں پراحمد پوریوں نے پہلی بار پیزہ دیکھا اور کھایا، بعض دیگر بیکری کی ورائٹیز بھی۔ بروسٹ البتہ اس سے چند سال پہلے رضوان نامی ایک شخص نے متعارف کرایا تھا، وہ لاہور سے بروسٹ مشین لے آیا جس میں پورا چرغہ گھومتا رہتا۔ اس کے مزے نے بہت سوں کو اسیر کر دیا۔ خاکسار بھی اس بروسٹ کا قتیل تھا۔

اسی چوک منیر شہید پر دو تین مٹھائیوں والوں کی ساتھ ساتھ دکان تھیں، ان سب کے سموسے کمال ہوتے۔ ان میں سے ایک نے خاص وضع کی ٹکی متعارف کرائی، بیسن کی گول موٹی سی ٹکی تھی، اس کا الگ سا خاص مزا تھا۔ ویسی پھر کہیں نہیں دیکھی نہ کھائی۔ اسی چوک پر کئی چھولے چاول کی ریڑھیاں تھیں۔ پلیٹ میں چاول ڈالے، اوپر چھولے کا بڑا چمچ ڈال دیا، ساتھ میں باریک پیاز، سرخ ٹماٹرکے ٹکڑے، کتری ہری مرچیں اور پودینے والا تیز مرچ کا رائتہ۔ جی چاہے تو ابلا انڈا یا کوفتہ بھی ڈلوا لیں۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ جس کسی نے چھولے چاول کھائے، وہ انہیں کبھی نہیں بھول پائے گا۔

احمدپورمیں چکرکے پاس ایک ریڑھی والا تھا، اس نے چھولوں کے دیگچے کے نیچے سلگتے ہوئے اپلے رکھے ہوتے۔ اس کے چھولے چاول میں ایک خاص خوشبو تھی، آپ مجھے پینڈو کہہ لیں مگر سچی بات ہے کہ اپلوں پر بنی چائے کا ذائقہ بھی کمال ہوتا ہے اور ان پر بنے ساگ، مکئی کی روٹی وغیرہ بھی اچھوتا ذائقہ لئے ہوتی۔

بدقسمتی سے لاہور شہر میں چھولے چاول کا بالکل ہی رواج نہیں۔ یہاں نان چنے ملیں گے یا پھر دال چاول یعنی چنے والا اپنے پاس چاول نہیں رکھتا، جس ریڑھی پر چاول ہوں وہاں چنے نہیں ملتے، اس کے پاس پتلی دال ہوتی ہے۔ بڑے جتن کرکے ریڈیو پاکستان کے باہر ایک ریڑھی میں نے دریافت کی۔ اس کے پاس میلوں سفر طے کرکے چائو سے جاتے اور چھولے چاول کھاتے، عیاشی کی نیت سے ابلا انڈا بھی ڈلوا لیتے۔ اچھی بھلی پلیٹ بن جاتی اور دام محض اسی نوے روپے۔

افسوس کورونا کے لاک ڈائون میں جب دو تین مہینے سب کچھ بند رہا تو اس نوجوان نے یہ کام ہی چھوڑ دیا۔ پراپرٹی ڈیلنگ شروع کر دی، واپس نہیں آیا۔ اب پورے لاہور شہر میں ایک بھی چھولے چاول کی ریڑھی نہیں۔ خیر لاہور میں بہت کچھ ایسا مزے کا ہے کہ اس نے ہماری زندگی میں بہت خوبصورت رنگ بکھیرے اورلذتِ کام ودَہن سے روشناس کرایا۔

میرے آبائی محلہ کٹرہ احمد خان کے ساتھ ہی محبت پور بازار ہے۔ مشہور ادیب، مترجم محمد کاظم یہیں کے رہنے والے تھے۔ بازار میں چھوٹی ٹکیوں والی ایک دکان تھی، قیمہ والی ٹکیاں، دس پیسے کے سکے کے برابر، پیاز، رائتہ کے ساتھ یہ درجنوں کے حساب سے کھائی جاتیں۔ سوچ کر ہی منہ میں پانی آجاتا ہے۔ تب بازار سے قیمہ بے دھڑک کھایا جا سکتا تھا۔ چکر پر بھی چھوٹی ٹکیوں کی ایک دکان تھی۔ قریب سے ٹھنڈے دودھ کی بوتل ملتی، جس میں بادام کے ٹکڑے ہوتے۔ ربڑی کا ایک ٹکڑا بھی لازمی ہوتا، اکثر ایسا بدبخت جس کا بوتل سے نکلنے کا دل نہ چاہتا۔

ربڑی کی بات سے یاد آیا ہمارے ہاں بھی ایک رِنگ روڈ ہے جس کانام کسی نے شاعرانہ انداز میں کنگن روڈ رکھ دیا۔ کنگن کیسے کلائی کے گرد حلقہ بناتا ہے، رِنگ روڈ یہی تو کرتی ہے۔ کنگن روڈ پر ربڑی کی ریڑھی کھڑی ہوتی، کمال قسم کی ربڑی۔ یاد رہے کہ کراچی اور حیدرآباد والے تو اس ربڑی کو جانتے ہیں، لاہور میں ایسی ربڑی کا کوئی تصور نہیں۔ ہم یہ ربڑی مہمانوں کے لئے خاص طور سے منگواتے اور ناشتہ میں پراٹھے کے ساتھ پیش کرتے یا پھر رات کے کسی پرتکلف کھانے میں بھی ربڑی میٹھے کے طور پر استعمال ہوتی۔ وہیں ساتھ ایک ملک صاحب تھے، جن کے پاس اعلیٰ درجے کا سوہن حلوہ ملتا۔ ملتانی احباب سے معذرت مگر ملک کا سوہن حلوہ ملتان کے حافظ سوہن حلوہ کوخاصے فاصلے سے پیچھے چھوڑ دے۔ آج کل بھی مجھے پتہ چلے کہ احمد پور سے کوئی آ رہا ہے تو دو تین فرمائشیں ضرور کرتا ہوں، کٹڑے والے سرخ چھولے، دہی بھلے اور کنگن روڈ کی ربڑی جبکہ اگر سردیاں ہوں تو ملک صاحب کا سوہن حلوہ۔

ہم سرائیکی البتہ نہاری سے زیادہ آشنا نہیں۔ نہاری کے نام پر وہاں سری پائے ہی ملتے۔ ہمارے ہاں صرف پائے بھی بنتے مگر سری پائے مکس پکانے کا رواج عام تھا۔ شہر کی قدیمی جامع مسجد چوک کے بغل میں ایک گلی تھی جہاں قصائی صاحبان ہوتے اور سری پائے کی دکانیں بھی، اسے ہم کھوڑ والی گلی کہتے۔ وہاں سے مزے کے پائے ملتے۔ کٹرہ احمد خان میں بھی بشیر طباخی تھا، اسکے پائے مشہور تھے۔ اس کے ساتھ ہی بڑی بڑی مونچھوں والا مرزا تھا جو دہی بیچتا مگر اس کے پاس گرمیوں میں کمال قسم کا فالودہ ملتا۔

مرزا کمال کردار تھا۔ ایک خاص وضع کے سیاہ چمڑے کے تھیلے میں وہ برف کوٹتا، فالودہ بناتا، اس کے اوپر ربڑی کی تہہ جماتا اور روح افزا کاچھینٹا لگاکر خوش رنگ بنا دیتا۔ صاحبو کیا لذت تھی اس کی، بیان کے لئے لفظ کم پڑ جائیں۔ ہم پیالے لے کر واپس آتے، گھر کے صحن میں چھڑکائو کے بعد چارپائیں بچھ چکی ہوتیں، پنکھا لگا ہوتا، آرام سے بیٹھ کر اپنے حصے کا پیالہ چٹ کرنے کا لطف ہی کچھ اور تھا۔ کنکھیوں سے دیگر بھائی بہنوں کو دیکھا جاتا کہ شائد ہمیں ان کے پیالے سے ایک آدھ چمچ اڑانے کا موقعہ مل جائے۔ چند سال پہلے ایک فوتیدگی پر احمد پور گیا تو وہی مرزا ملا۔ بل کھاتی سیاہ تنی ہوئی مونچھیں مرجھا چکیں۔ سر سفید، ڈاڑھی سفید، کام بھی چھوڑ دیا۔ بچوں نے دکان آگے نہ چلائی۔ مرزا کا فن اس کے جیتے جاگتے رخصت ہوگیا اور ساتھ ہی وہ مزے بھی۔ سدا رہے نام اللہ کا، باقی رہے نہ کو۔