سیاست کی چخ چخ، شور شرابا چل رہا ہے، اس میں کسی اور طرف دیکھنے کا یارا نہیں۔ ان سیاسی ڈویلپمنٹس پر ان شااللہ لکھا جائے گا بلکہ عمران خان پر تو ایک پوری سیریز لکھنا ہے، کئی مہینوں سے قرض ہے۔ ایک دو دنوں میں جب چیزیں نارمل ہوں تو ان شااللہ لکھیں گے۔ سردست تو ڈاکٹر امجد ثاقب کی کتاب "چار آدمی " پڑھ رہا ہوں، اس میں بہت سے ایسے دلچسپ، فکر افروزاقتباسات، اہم ٹکڑے ہیں کہ انہیں قارئین سے شیئر کرنے کا جی چاہتا ہے۔
اس کتاب میں چار شخصیات کا قصہ زندگی ہے، ماہر نفسیات اور ذہنی امراض کے مشہور ادارہ فائونٹین ہائوس کے بانی ڈاکٹر رشید چودھری، سابق وزیراعظم ملک معراج خالد، لاہور میں گنگا رام ہسپتال اور دیگر کئی خیراتی ادارے اور بے شمار عمارات بنانے والے سر گنگا رام اور خود مصنف ڈاکٹر امجد ثاقب کا اخوت کا سفر۔ بک کارنر جہلم نے ڈاکٹر امجد ثاقب کی یہ شاندار کتاب نہایت حسین انداز میں شائع کی ہے۔
کتاب میں ایک جگہ پر ڈاکٹر رشید چودھری نفسیات کے شعبہ میں گزاری گئی اپنی پوری زندگی کا نچوڑ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں:"نفسیات کا علم انسان کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ زندگی بھر مجھے اپنے اردگرد بکھرے لوگوں کو سمجھنے کے غیر معمولی مواقع ملتے رہے۔ میں نے دیکھا کہ بعض لوگ زندگی کی جدوجہد آگے بڑھ جاتے ہیں، کچھ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ کامیابی اور ناکامی کی وجوہات کیا ہیں؟ زندگی کے راز بہت ہی پیچیدہ ہیں۔ ایک ہی گھر میں جنم لینے والے، ایک گود میں پرورش پانے والے ایک دوسرے سے اتنے دور۔ ہر شخص مختلف اوصاف کے ساتھ جنم لیتا ہے، دنیا بھی اس سے یکساں سلوک نہیں کرتی۔ یوں اس کی شخصیت مختلف تجربوں کا حاصل بن جاتی ہے۔
" سچ تو یہ ہے کہ زندگی عناصر میں توازن کا نام ہے۔ زندگی ایک ترتیب اور اعتدال کا تقاضا کرتی ہے۔ میں بہت تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ اچھی اور کامیاب زندگی کے لئے پانچ چیزیں درکار ہیں، کاش ہم ان پانچوں کو مکمل طور پر سمجھ سکیں۔ جتنا ان پر ہم تدبرکریں، اتنا ہی اپنی ذات کی بہتر سمجھ آئے گی۔ "
1:ذہانت: یعنی یاداشت، تجزیہ کی صلاحیت، سوجھ بوجھ، دلیل پر یقین، اعدادوشمار کی پہچان، منطقی طرزعمل
2: جذباتی توازن: یعنی تحمل، برداشت، خود فہمی، خودشناسی، ذاتی الجھنوں کو سلجھانے کی اہلیت، تخلیقی قوتیں، تنوع، جذبات پر قابو
3:سماجی میل جول کی استعداد: یعنی دوسروں کو سمجھنا، ماحول کا شعور، تضادات سے نمٹا، جھگڑوں کو سلجھانا، بدلہ نہ لینا یا معاف کر دینا، دردمندی، اخلاص، ایثار اور گفتگوکے اوصاف
:4مشکلات سے لڑنے کی اہلیت: حادثات کا سامنا کرنا، مصائب سے نمٹا، شکست کے آگے کھڑا ہونا، قدرتی آفات، جنگ وجدل سے گزرنااورتاریخی المیوں کا بوجھ اٹھانا۔
5: روحانی استطاعت: خدا سے بے پایاں محبت۔ اسکے ترجیح اول ہونے پر یقین۔ اس کی بزرگی اور پاکیزگی کا احساس اور اطاعت۔ علمالیقین، عین الیقین وحق الیقین۔
" یہ پانچوں خوبیاں ایک کامیاب وکامران شخص کے لئے لازم ہیں۔ انسانی ذات میں یہ خوبیاں کم یا زیادہ ہوسکتی ہیں، لیکن ان کا وجود بڑا ضروری ہے۔ کامیابی کا ایک بہت اہم نسخہ بلکہ اصل نسخہ کہیں، وہ خدائے عزوجل کامنشا بھی ہے۔ اس کی نظرکرم اورعنایت۔ وتعز من تشا وتذل من تشا۔ وہ جسے چاہے نواز دے، جسے چاہے گدا کر دے۔ رب سے ہمیشہ مانگتے رہنا چاہیے۔
"ہمیں اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہوئے ان اوصاف کو سامنے رکھنا چاہیے۔ انسانی کامیابی کا راز ان میں مخفی ہے۔ صرف غیر معمولی ذہانت کے لوگ ہی ترقی نہیں کرتے۔ جذباتی توازن کا حامل اور مشکلات سے لڑنے کی صلاحیت رکھنے والا متوسط ذہانت کا انسان بھی آگے بڑھ جاتا ہے۔ بچوں کا ذہین اور محنتی ہونا اگر نعمت ہے تو دیگر اوصاف کا ہونا بھی ضروری ہے۔ پھر توکل جیسی خوبی، اللہ سے گہری محبت انسان کومایوس نہیں ہونے دیتی، کامیابی کی سیڑھی یہی ہے۔ "
ملک معراج خالد ایک جگہ بتاتے ہیں:" مجھے اقبال کے مرد مومن سے محبت ہے۔ اقبال کی تمام تر تعلیم اور پیغام کا حاصل مرد مومن کا تصور ہے۔ مرد مومن دراصل جلال وجمال کا متزاج ہے، درویشی وسلطانی، قاہری ودلبری، ریشم وفولاد۔ اقبال کے ایک شعر میں یہ تمام خصوصیات آ گئی ہیں:
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
" گویا مسلمان میں ان چار اوصاف کا وجود لازم ہے۔ قہاری، غفاری، قدوسی، جبروت۔ یہی چار اوصاف مشت خاک کو مردمومن بناتے ہیں۔ یہ چاروں اللہ کے صفاتی نام بھی ہیں۔ پہلی خوبی قہار یا قہر ہے۔ قہر میں جلال ہے، رعب، دبدبہ، غضب اور غصہ۔ اس میں ضبط اور غلبہ کے معانی بھی ہیں، یعنی انسان خود پر اختیار پا کر ہی بڑا بن سکتا ہے۔ کامیابی کے سفر میں پہلا قدم ضبط نفس ہے۔ خود کو فتح کرنا۔ تکبر، جھوٹ، فریب جیسی آلائشوں سے بلند ہونا۔
"دوسرا وصف یعنی غفاری کردار کی خارجی خصوصیت ہے۔ اقبال نے قہاری کے بعد غفاری کا ذکر اس لئے کیا کہ انسان میں پہلی خصوصیت جس کا تعلق باطن سے ہے کے بعد بنیادی تغیرات رونما ہوتے ہیں۔ پھر عفو ومحبت کا سفر شروع ہوتا ہے۔ غفار بھی اللہ ہی کی صفت ہے۔ جس کا مطلب ہے بہت بخشنے والا، معاف کرنے والا، عفوودرگزر کا حامل۔
" تیسرا وصف قدوس ہے۔ قدوس کا مطلب ہے مقدس، صاف ستھرا، برتر واعلیٰ، ہر نقص سے پاک۔ جب انسان غفاری اور قہاری کے مراحل سے گزر جائے تو وہ قدوسی بنتا ہے۔ ذہنی، فکری، روحانی اور جسمانی پاکیزگی۔ مکمل طور پر پاک اور صاف۔ اب وہ ایمان، احسان، اخلاص اور انفاق کو اپنا کر امامت کے فرائض ادا کر سکتا ہے۔ چوتھی خوبی جبروت ہے۔ جبروت کا لفظی معنی ہے عظمت والا۔ بزرگی اور بڑائی کا حامل۔ اس میں طاقت اور زور کی جھلک ہے۔ مسلمان پہلے تین مراحل سے گزرتا ہے تو پھر چوتھے تک رسائی پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آخرکار اسے عظمت وبزرگی کا پرتو بنا کرمرد مومن کا بلند درجہ عطا فرماتا ہے۔ یہ شعر زندگی کا پورا نصاب ہے۔ اقبال یوں ہی اقبال نہیں بنا۔ "
سرگنگار ام کے قصہ زندگی میں ان کے ایک خط کا ذکر کیا گیا جومشہورکانگریسی لیڈر مہاتما گاندھی کے نام لکھا گیا:" میں نے 1911میں مہاتما گاندھی کے نام خط میں لکھاکہ آپ کو کبھی یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ ہندوستان کی بے آباد زمینوں کو زراعت کے لئے مخصوص کر دیا جائے۔ ہر سال ہونے والی بارشوں کے نتیجہ میں کتنا پانی سمندر کی نذر ہوتا ہے۔ اس پانی کو ہم چھوٹے چھوٹے بند بنا کر کیوں نہیں استعمال کرتے۔ ملک بھر میں ایسے بے شمار وسیع وعریض رقبے ہیں جہاں صرف ہل چلا دیا جائے تو بارشوں کے نتیجے میں وہاں جھاڑیاں اور گھاس اگ آئے۔ یہاں ہم مویشی اور بھیڑ بکریاں پال سکتے ہیں۔ "
سر گنگا رام لکھتے ہیں، میرا خیال تھا کہ گاندھی جی کو اپنا ہم خیال بنانے میں کامیاب ہوگیا تو زراعت اور چھوٹی صنعت کی دنیا میں انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ میں جدیدیت کا قائل تھا، چرخہ کاتنے یا ہینڈ سپننگ سے آگے بڑھنا چاہتا تھا۔ گاندھی نے چرخہ کو قومی آزادی کی علامت بنا کر پیش کیا۔ ایسی علامتی اور جذباتی باتوں سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میرے نزدیک آزادی معاشی اور اقتصادی ترقی سے وابستہ تھی۔
گاندھی جی کو میں نے خط لکھا:" کیا آپ نہیں جانتے کہ چرخے کے پورے دن کی آمدنی ایک آنہ سے زیادہ نہیں۔ اس معمولی رقم کے لئے کون جدوجہدکرے گا؟ میں نے لاہور میں خواتین کے ایک ادارے کے لئے صنعتی سکول شروع کیا ہے۔ اس سکول میں ایک سال کام سیکھنے والی خاتون سلائی اور ایمبرائیڈری کی مشین کے ذریعے یومیہ ایک روپیہ کما سکتی ہے۔ اگر وہ دو سال کی تربیت لے لے تو دو روپے یومیہ کما سکتی ہے۔ میں نے ایک اور تجربہ بھی کیا ہے یعنی ایک بہت بڑی دکان کھولی ہے۔
اس دکان سے میں ان خواتین کو کم لاگت کی بنیاد پر خام مال دیتا ہوں اور ان کی تیار کردہ اشیا واپس خرید لیتا ہوں۔ پھر ان اشیا کی فروخت کی ذمہ داری بھی لیتا ہوں۔ میں نے شہر میں ایسے کئی مراکز بنا کر یہ مشینیں نصب کر دی ہیں جہاں وہ خواتین بھی کام کرتی ہیں جو مشینری خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتیں۔ یہ خواتین ان ورکشاپس میں آتی ہیں، سارا دن کام کرتی اور اچھا معاوضہ لے کر گھر جاتی ہیں۔ چرخے پر محنت تو وقت کا ضیاع ہے۔ آپ چرخوں کے بجائے ہینڈ لومز خریدنے کی تحریک شروع کریں۔ آپ کے پاس وسائل کی کمی نہیں۔ چاہیں تو ایسی کئی لاکھ ہینڈ لومز خرید کر بے کار نوجوانوں کو کام پر لگا سکتے ہیں، اس طریقے سے کتنی زندگیاں بدل جائیں گی، اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ "
سر گنگا رام نے آخر میں تاسف سے بتایا کہ گاندھی نے میرے خط غور سے پڑھے اور ان کا جواب بھی دیا، لیکن ان باتوں پر عمل کرنا مناسب نہ سمجھا۔ انہیں وہ پسند نہ آئیں یا ان کے پاس وقت نہ تھا۔ کاش گاندھی جی میری بات پر غور کرتے۔ کاش انہیں احساس ہوتا کہ چرخے کا دور بیت گیا، دنیا بہت آگے نکل چکی ہے، لیکن شائد ان کی حالت غالب کے اس شعر جیسی تھی
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسد
سرگشتہ خمار رسوم وقیود تھا