Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Supreme Court Ka Aham Judicial Review, Muzmerat, Asraat

Supreme Court Ka Aham Judicial Review, Muzmerat, Asraat

سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ سے ڈھائی ماہ قبل منظور کئے جانے والے "ریویو آف آرڈر اینڈ ججمنٹ ایکٹ "کو آئین سے متصادم قرار دے کر کالعدم کر دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ قانون اب اپنی موت آپ مر گیا ہے۔ جب تک کوئی نئی اسمبلی پھر سے ایسا قانون منظور نہیں کرتی، یہ آئین کا حصہ نہیں ہوگا۔

اس کے اثرات پر بات کرتے ہیں مگر پہلے یہ دیکھ لیتے ہیں کہ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹ ایکٹ کیا تھا؟ یہ قانون پی ڈی ایم حکومت نے چودہ اپریل کو قومی اسمبلی سے اور پانچ مئی کو سینٹ سے منظور کرایا، چھبیس مئی کو صدر نے اس پر دستخط کر دئیے۔ اس کے تین چار اہم بنیادی نکات یہ تھے: آئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت سپریم کورٹ میں کی جانے والی پٹیشن یا سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیسز کے فیصلوں میں نظرثانی درخواست کی سماعت اب محض نظرثانی کے بجائے اپیل کی طرح ہوگی۔ یہ اپیل سزا سنائے جانے کے ساٹھ دنوں کے اندر دائرہوسکے گی، پرانے فیصلوں پر بھی اس قانون کا اطلاق ہوگا۔ سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ نظرثانی درخواست کی سماعت لارجر بنچ کرے گا یعنی پانچ یا اس سے زیادہ ججز۔ مزید یہ کہ اس لارجر بنچ میں کیس کا اصل فیصلہ کرنے والے بنچ سے زیادہ جج شامل ہوں گے جبکہ وہ فیصلہ سنانے والے جج اس کا حصہ نہیں ہوسکیں گے۔ اس قانون کے تحت نظرثانی میں فریق اپنی مرضی کا کوئی بھی وکیل بھی کر سکیں گے۔

واضح رہے کہ نظرثانی کا دائرہ کار خاصا محدود ہوتا ہے اور اس میں کوئی نیا نکتہ پیش نہیں کیا جا سکتا۔ اسی وجہ سے ننانوے فیصد سے زیادہ معاملات میں نظرثانی رد ہوجاتی ہے، سو فی صد سمجھ لیں۔ نظرثانی میں یہ پابندی بھی ہوتی ہے کہ وہی وکیل پیش ہو جس نے پہلے کیس لڑا تھا۔

اسی وجہ سے پی ڈی ایم حکومت نے یہ قانون منظور کرایا۔ بظاہر اس کی دو وجوہات نظر آرہی تھیں۔ ن لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف کو ایک رعایت دلانا، کیونکہ ان کے خلاف بھی 184-3کے تحت فیصلہ آیا تھا۔ وہ اپنا ریویو کا حق تب ہی استعمال کر چکے تھے، مگر بعض قانونی ماہرین کے مطابق اس قانون کے بعد نواز شریف کے لئے بھی کوئی راستہ نکل ہی آتا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ حکومت کو خطرہ تھا کہ اگر سپریم کورٹ کا چیف جسٹس عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر کا بنچ ان کے خلاف کوئی فیصلہ کر دے تو نظرثانی میں اپیل کی طرح کی سہولت انہیں ملے اور لارجر بنچ میں یہ تین ججز نہ ہوں، دیگر جج ہوں۔

خیر ارادہ اور وجہ جو بھی تھی، سپریم کورٹ نے اس قانون کو آئین کے خلاف قرار دے دیا ہے۔ فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار پر قدغن اسمبلی نہیں لگا سکتی۔ یہ بات اس لحاظ سے تو اصولی طور پر درست ہے کہ عدلیہ کی آزادی آئین کی روح ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ اسمبلی نے بظاہر محض حکومتی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے یہ قانون سازی کی۔

اس فیصلے کے بڑے گہرے مضمرات اور اثرات ہوں گے۔ پہلی بات تو یہ کہ سپریم کورٹ کی جانب سے کیا گیا یہ اہم جوڈیشل ریویو ہے، میرے خیال میں تو اس سال کا پہلاجوڈیشل ریویو۔ یاد رہے کہ پارلیمنٹ سے منظور شدہ کسی قانون کو اگر عدالت جائزہ لے کر کالعدم قرار دے تو اسے جوڈیشل ریویو کہا جاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ سال کا پہلا جوڈیشل ریویو تو ہے، مگر آخری نہیں۔ آنے والے چارپانچ ہفتوں میں ہم ایسی مزید مثالیں بھی دیکھ سکتے ہیں۔

قارئین یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ ہر جگہ سپریم کورٹ ایسا نہیں کرتی۔ دنیا بھر میں بہت سے ججز جوڈیشل ریویو کے حق میں نہیں، ان کے خیال میں یہ پارلیمنٹ کے کام میں مداخلت ہے، تاہم ججوں اور ماہرین قانون کا ایک بڑا حلقہ یہ کہتا ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون بنانے کا حق حاصل ہے، مگر وہ آئین یا اس کی روح سے متصادم کوئی قانون نہیں بنا سکتی۔ یہ بھی خیال رہے کہ پارلیمنٹ سادہ اکثریت کے ساتھ ایکٹ منظور کر سکتی ہے جبکہ آئین میں ترمیم کے لئے اسے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ بعض ممالک میں سپریم کورٹ ایکٹ کو تو غلط لگنے پر اڑا دیتی ہے، مگر ترمیم کے حوالے سے نرم ہاتھ رکھا جاتا ہے کیونکہ وہ اسمبلی کی غالب اکثریت کے فیصلے کا نتیجہ ہوتا ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ نے البتہ بھارتی آئین میں ہونے والی ایک ترمیم کو بھی اڑا دیا تھا۔ بھارتی سپریم کورٹ کے ججوں کی دلیل یہ تھی کہ اسمبلی آئین بنا سکتی ہے، مگر وہ آئین کو تباہ نہیں کر سکتی۔ اسی لئے بھارت میں بیسک سٹرکچر ڈاکٹرائن وجود میں آئی کہ آئین کی بعض چیزیں ایسی بنیادی ہیں (جیسے بنیادی انسانی حقوق، سیکولرازم، پارلیمانی جمہوریت، عدلیہ کی آزادی وغیرہ)کہ انہیں اسمبلی بھی نہیں چھیڑ سکتی۔

پاکستان میں امکانات ہیں کہ آنے والے دنوں میں بعض دیگر قوانین بھی اسی انجام تک پہنچیں۔ ایک اور قانون اسمبلی سے منظور ہوا تھا مگر سپریم کورٹ نے اس پر حکم امتناعی دے رکھا ہے، وہ کورٹ اینڈ پروسیجر ایکٹ ہے۔ اس میں یہ طے کیا گیا کہ بنچ صرف چیف جسٹس سپریم کورٹ نہیں بنائے گا بلکہ تین سینئر موسٹ ججوں کی کمیٹی ایسا کرے گی، بعض دیگر قواعد بھی اس ایکٹ کے ذریعے تبدیل کئے گئے۔ عین ممکن ہے کہ یہ ایکٹ بھی خلاف آئین قرار پائے۔

اسمبلی کے آخری چند دنوں میں بے تہاشا قوانین منظور ہوئے جن میں سے بعض نہایت متنازع ہیں۔ اسمبلی کی روایت کے مطابق ان پر بحث بھی نہیں ہوئی بلکہ انہیں قائمہ کمیٹی کے سپرد بھی نہیں کیا۔ ان میں سے دوتین قوانین سپریم کورٹ بار اور دیگر وکلا تنظیمیں سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے جا رہی ہیں۔ قوی امکانات ہیں کہ اس حوالے سے بھی اہم فیصلے سامنے آئیں۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے دیگر مضمرات میں سے ایک یہ نکلے گا کہ میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی راہ میں مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ اگر یہ قانون برقرار رہتا تو قوی امکانات تھے کہ سولہ ستمبر کے بعد نئے چیف جسٹس کے دور میں نواز شریف پاکستان آ کر اپنی تاحیات نااہلی کو چیلنج کردیتے۔ بعض قانون دانوں کے خیال میں جہانگیر ترین بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔

مسلم لیگ ن نے اگرچہ ایک متبادل قانون بھی منظور کیا، جس میں نااہلی کی مدت پانچ سال کر دی گئی۔ ن لیگی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اس قانون کی رو سے میاں نواز شریف کی تاحیات نااہلی کا معاملہ ختم ہوچکا ہے۔ تاہم قانونی ماہرین اور ریٹائر ججوں کی بڑی تعداد اس سے متفق نہیں۔ ان کے خیال میں میاں نواز شریف کی تاحیات نااہلی ختم کرنے کے لئے اسمبلی کو آئینی ترمیم منظور کرنا چاہیے تھی، صرف ایک ایکٹ پاس کرنے سے یہ کام نہیں ہوسکتا۔

سابق وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ، سابق معاون عطا تارڑ وغیرہ تلملا رہے ہیں کہ سپریم کورٹ نے اپنا محفوظ فیصلہ تب سنایا جب ایک روز قبل اسمبلی تحلیل ہوچکی تھی۔ ان کے مطابق ایسا دانستہ کیا گیا تاکہ اسمبلی سے دوبارہ اس قانون کو منظور نہ کیا جا سکے۔

یہ بات اگر درست ہو تب بھی اس میں قصور حکومت اور پارلیمانی جماعت کا ہے۔ انہوں نے بھی اسمبلی میں اپنی اکثریت اور اپوزیشن کی عدم موجودگی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر عجیب وغریب قانون سازی کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ خود سابق وزیر قانون اور ان کے ساتھی ضد کے ساتھ کہتے تھے کہ اگر سپریم کورٹ قانون ختم کرے گی تو ہم دوسرا قانون منظور کر لیں گے، وہ ختم ہوا تو تیسرا قانون بنا لیں گے۔

امید ہے اب انہیں تسلی ہوگئی ہوگی، پنجابی محاورے کے مطابق کلیجے میں ٹھنڈ پڑ چکی؟ اب وہ نیا قانون اسمبلی سے فوری منظورکرکے دکھائیں؟