Tasveer Ke Mukhtalif Tukre
Amir Khakwani118
تجزیہ کرنے کا بنیادی اصول ہے کہ زیرنظر معاملے کا مختلف پہلوئوں سے جائزہ لیا جائے اور پھر ایک مکمل تصویرپڑھنے، دیکھنے والوں کے سامنے پیش کی جائے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ تصویر کے مختلف ٹکڑے ہوتے ہیں، ان میں سے ایک ٹکڑا مسنگ ہو تو تصویر مکمل نہیں ہوتی۔ ادھورا، نامکمل اور کنفیوژ کر دینے والا تاثر سامنے آئے گا۔ یہی حالت سیاسی تجزیوں کی ہے۔ اگر رائے دیتے وقت جان بوجھ کر یا پھر نادانستگی میں تمام فیکٹرز کا جائزہ نہیں لیا جا سکا تو تجزیے کاحق ادا نہیں ہوگا۔ اب تحریک انصاف کی حالیہ حکومت ہی کو دیکھ لیں، اس حوالے سے جو بھانت بھانت کے تجزیے، جائزے، سروے، آرا مل رہی ہیں، سب میں کہیں نہ کہیں کچھ موجود نہیں۔ کسی نے یک رخا منظر دکھایا چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو، دوسرے نے کوشش کی، مگر تصویر کا ایک آدھ ٹکڑا نہ آیا، بات ادھوری رہ گئی، کسی نے جان بوجھ کر ٹکڑے بدل دئیے، چہرے کا رخ گھما دیا، ہاتھوں اور پیروں کی جگہ آپس میں بدل دی۔ یوں بالکل ہی کنفیوژ قسم کا منظرنامہ بنا، حقائق سے دور۔ تحریک انصاف کی حکومت خواہ پسند ہو یانہ ہو، دیانت داری کے ساتھ جامع رائے دی جائے، تصویر کے تمام ٹکڑے جس میں اپنی اصل جگہ پر موجود ہوں۔ ایک مثال لے لیتے ہیں، تحریک انصاف کی حکومت کی ناتجربہ کار ی، عجلت اور منتشر خیالی صاف نظر آ رہی ہے۔ مجھے اس پرتنقید سے اتفاق ہے۔ کوئی نابینا ہی وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزرا کو یکسو ئی اور اطمینان سے کام کرنے والا کہہ سکتا ہے۔ ہیجان ہے جو وزیراعظم پر بھی طاری ہے اور ان کے بعض وزرا پر بھی۔ معاملہ بلکہ زیادہ دلچسپ ہے، کچھ وزرا تو ایسے ہیں کہ پچھلے تین چار ماہ میں ان کا کسی نے کوئی بیان تک نہیں پڑھا یا سنا۔ لگتا ہے جیسے وہ کابینہ کا حصہ ہی نہیں، معلوم نہیں کس مراقبے میں وہ ڈوبے ہیں۔ جیسے بلوچستان کی زبیدہ جلال، میں سمجھ رہا تھا کہ انہوں نے شائد وزیر بننے سے انکار کر دیا، اگلے روز کسی نے بتایا کہ محترمہ کابینہ کا حصہ ہیں۔ کئی اور وزرا کا نام لیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف بعض وزیر اس قدر ہائپر اور رسہ تڑوانے کے لئے مضطرب ہیں کہ انہیں روکنا محال ہو رہا۔ ہر روز شہہ سرخیوں میں وہ آنا چاہتے ہیں، اس کیلئے چاہے جیسی آگ لگانی پڑے۔ نام لینے کی ضرورت نہیں، ہر ایک کو اندازہ ہے۔ ناتجربہ کاری کی تو خیر سمجھ بھی آتی ہے۔ بیشتر لوگ پہلی بار وزیر بنے، بلکہ اسمبلی میں بھی اس بار جانے کا موقعہ ملا۔ انہیں سسٹم سمجھنے میں ابھی کچھ مزید وقت لگ جائے گا۔ بیوروکریسی ویسے بھی وزیروں کو اتنا جلدی کہاں معاملات سمجھنے دیتی ہے، ان کی تو کوشش ہو گی کہ یہ ٹینیور ایسے ہی گزر جائے۔ وجوہات بہرحال جو بھی ہوں، حکومت کی بوکھلاہٹ، تجربہ کی کمی اور ایک ساتھ کئی محاذ کھول دینے کا رجحان صاف دکھائی دے رہا ہے۔ اس تاثر سے مکمل اتفاق کے باوجود یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ یہ تصویر کا ایک ٹکڑا ہی ہے۔ حکومت کی تصویر کشی صرف اس ایک ٹکڑے سے نہیں کی جا سکتی۔ ایسا کرنا نرا ظلم اور ناانصافی ہوگا۔ تصویر کا ایک اور ٹکڑا وزیراعظم عمران خان کا خلوص، نیک نیتی کے ساتھ بنیادی نوعیت کے مسائل حل کرنے کی کوشش ہے۔ یہ صاف لگ رہا ہے کہ وزیراعظم کرپٹ نہیں، کرپٹ لوگوں کی تعیناتی بھی نہیں کی اور مال بنانے کا قطعی ارادہ نہیں۔ شروع کے دو تین ہفتوں میں یہ بات چاروں طرف پھیل جاتی ہے کہ حکمران کیا چاہتے ہیں؟ مال بنانا چاہ رہے ہیں، کچھ کام کرنا یا پھر ان کا مقصد کرسی کے مزے لینا ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے ہونے والے اہم تقرر اس کو واضح کر دیتے ہیں۔ عمران خان نے اہم منصب جن کے حوالے کئے، ان پر تنقید کی جا سکتی ہے اور اس اخبارنویس کو کئی لوگوں پر اعتراضات ہیں، مگر ایسا بہرحال نہیں کہ پیسہ لوٹنے کے لئے کسی کو عہدہ دیا گیا ہو کہ بھیا خود بھی کمائو اور نوٹوں کی بوریاں بھر بھر کر ہمیں بھی دو۔ ایسا ماضی میں ہوتا رہا ہے، بلکہ بعض اہم عہدے تو کروڑوں روپے کے نذرانوں کے عوض بانٹے گئے۔ عمران خان ایسا کچھ بھی نہیں کر رہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار پر بہت سے اعتراض ہوسکتے ہیں، مجھے بھی ہیں، مگر بہرحال وہ ایک ایماندار شخص ہیں اور اس حوالے سے بہت محتاط ہیں۔ یہی بات وزیراعلیٰ کے پی محمود خان کے بارے میں کی جا سکتی ہے۔ وہ ابھی تک معاملات سنبھالنے کے حوالے سے کمزور نظر آئے، مگر کرپٹ بہرحال نہیں۔ وفاقی کابینہ کی بعض مال بنانے والی وزارتیں بھی دانستہ ایسے لوگوں کو دی گئیں، جن پر کوئی الزام نہیں۔ عمران خان حکومت کے مزے لینے بھی نہیں آئے۔ انہوں نے تو بڑے گھروں، گاڑیوں، صوابدیدی فنڈز والے تمام مزے ازخود واپس کر دئیے۔ کئی ماہ میں ایک آدھ چھٹی کی اور ہفتہ میں ایک سے زائد بار کئی کئی گھنٹوں کے کابینہ اجلاس ہو رہے ہیں۔ میاں نواز شریف نے چار برس میں اتنے اجلاس نہیں بلائے، جتنے عمران خان نے چار ماہ میں منعقد کر ڈالے۔ یہ پورا منظر بھی تصویر کا ایک ٹکڑا ہے، پچھلے ٹکڑے کے ساتھ اسے بھی جوڑنا پڑے گا، ورنہ انصاف نہیں کہلائے گا۔ ایک اور دلچسپ پہلو حکومت کی خارجہ پالیسی ہے۔ عمران خان کا اس حوالے سے تاثر بہت خراب تھا۔ مبصرین کا خیال تھا کہ خان اپنے رف اینڈ ٹف سٹائل کی وجہ سے ڈپلومیسی کے لئے ناموزوں ہے۔ ماضی میں اس نے بطور اپوزیشن لیڈرپاکستان کے دوست ممالک کو ناراض بھی کیا۔ اندازہ تھا کہ یہ سب عمران خان کے وزیراعظم بننے کو کچھ زیادہ پسند نہیں کریں گے۔ یہ منظر اب یکسر بدل چکا ہے۔ وہی ماضی کاناتجربہ کار، جذباتی، زیادہ بولنے والا عمران خان خارجہ پالیسی کے حوالے سے خاصا تجربہ کار، گرم سرد چشیدہ سفارت کار کی طرح برتائو کر رہا ہے۔ چین کا نہایت کامیاب دورہ اس نے کیا، ترک قیادت کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنے میں کامیابی ہوئی۔ سعودی عرب کے حوالے سے تو نہایت اہم بریک تھرو ملا۔ متحدہ عرب امارات سے مدد ملی، ملائشیا کا کامیاب دورہ ہوا۔ قطرکے ساتھ معاملات بہت خوشگوار ہوگئے۔ دیکھا جائے تو داخلی سطح کے بجائے خارجہ امور پر زیادہ بڑی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ یہ مان لیتے ہیں کہ عسکری قیادت نے پیچھے رہتے ہوئے ان تمام کامیابیوں کے لئے اہم کردار ادا کیا۔ جنرل باجوہ کے کنٹری بیوشن کو سراہنا چاہیے۔ ایسا تعاون مگر زرداری اور نواز شریف حکومتوں کو بھی فراہم کرتی رہی ہے، انہوں نے کیا کامیابیاں حاصل کیں؟ عمران خان کو اس کے کریڈٹ تو دینے پڑیں گے۔ سوال یہ ہے کہ تصویر کے اتنے اہم ٹکڑے کونظرانداز کر کے کس طرح کوئی موجودہ حکومت کی تصویر پیش کر سکتا ہے؟ یہ درست ہے کہ مہنگائی بڑھی ہے۔ ڈالر مہنگا ہونے کے اپنے مضر اثرات پڑے، ابھی کچھ اور پڑیں گے۔ ادھر دنیا بھر کی معیشتوں میں دھیما پن یا گراوٹ آئی ہے، پاکستان پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ پچھلے تین چار برسوں سے بازار جانے پر ایک فقرہ عام سننے کوملتا ہے کہ بازار ٹھنڈا ہے۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں، ان میں گئے تو بات لمبی ہوجائے گی۔ حکومت کے پاس پیسے نہیں کہ وہ عوام کو فوری ریلیف دے۔ معیشت ڈائون جانے کی ایک بڑی وجہ زراعت کے شعبے میں آنے والی تباہی ہے۔ کاشت کار کو کپاس اور گنے جیسی نقد آور فصلوں سے گھاٹا ہو رہا ہے۔ اس بار آلو کی فصل بری طرح پٹ گئی۔ وجہ یہی کہ ہر ایک نے آلو اگا لیا۔ مارکیٹ میں گنجائش نہیں، پانچ سات اور کہیں تو دو تین روپے کلو تک منڈی میں بک رہا ہے۔ یہ سب باتیں درست اور پریشان کن ہیں۔ اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ مہنگائی کی سطح عام آدمی کے لئے اتنی زیادہ نہیں ہوئی جتنا میڈیا دکھا رہا ہے۔ کروڑوں لوگ شہروں میں رہتے ہیں، انہیں پرانے نرخ پر آٹا، گھی، چینی، دالیں مل رہی ہیں، بعض سبزیاں سستی ہوگئیں۔ پٹرول میں کمی معمولی سہی، مگر ہوئی تو ہے۔ بجلی کا بل سردیوں میں ویسے ہی کم آتا ہے، گیس البتہ مہنگی ہوئی، مگر ہر گھر میں گیزر نہیں ہوتا، چولہے کا خرچ اتنا نہیں کہ لوگ بل دیکھ کر بِلبلا اٹھیں۔ یاد رہے کہ میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ مہنگائی نہیں، بلکہ یہ کہا کہ جتنی مہنگائی کا شور مچایا گیا، اتنی نہیں۔ گزشتہ رات ایک کھانے پر تھا، وہاں موجود احباب تحریک انصاف کے قطعی طورپر حامی نہیں تھے، غیر جانبدار یا کسی حد تک ن لیگ کی طرف جھکائو۔ حکومت پر تنقید ہوتی رہی، مگر تین باتوں پر اتفاق رائے تھا کہ ڈالر کی قیمت ن لیگ نے مصنوعی طور پر روکے رکھی تھی، موجودہ حکومت نے یہ غلطی نہیں دہرائی، ڈالر کو مہنگا ہونا ہی تھا، البتہ جس طرح عجلت میں راتوں رات ہوا، وہ مناسب نہیں تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ گیس کی قیمت بڑھانا ضروری تھا، میاں صاحب وزیراعظم تھے توا نہیں کئی بار یہ تجویز پیش کی گئی، مگر انہوں نے سیاسی مفادات کے تحت ایسا نہ کیا، موجودہ حکومت نے یہ غیر مقبول مگر ملک کے لئے ضروری قدم اٹھایا۔ اسی طرح حکومت کی تجاوزات پالیسی کو مجموعی طور پر سب نے سراہا۔ یہ بحث سنتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ تصویر کے اہم ٹکڑے تو یہ بھی ہیں، ان کے بغیر تحریک انصاف کی حکومت کی درست اور حقیقی تصویر کیسے پیش کی جا سکتی ہے؟ افسوس کہ اس کا کم ہی خیال رکھا جا رہا ہے۔