Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Tishna Lab Shehr

Tishna Lab Shehr

پچھلے کچھ عرصے سے پانی کے مسئلے کے حوالے سے گہری دلچسپی پیدا ہوئی ہے۔ پہلے ہم نے اس انتہائی اہم ایشو کو کبھی سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ فیس بک پر ایک دوست ہیں انجینئر ظفر اقبال وٹو۔ یہ ڈیم اور اری گیشن انجینئر ہیں، مختلف کمپنیوں کے ساتھ وابستہ رہے اور انہیں پاکستان اور بیرون ممالک مختلف ڈیم پراجیکٹس میں کام کرنے کا موقعہ ملا۔ ظفر اقبال وٹو صاحب کی خوبی یہ ہے کہ درد دل رکھنے والے انسان ہیں، علم وتحقیق سے گہرا شغف اور مختلف موضوعات پر اپنی ریسرچ کے نتائج یہ سوشل میڈیا پر بھی شیئر کرتے رہتے ہیں۔

ان کی تحریریں پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ ہمارے ملک میں ڈیمز بنانے کس قدر ضروری اور اہم ہیں۔ بڑے ڈیم پراجیکٹ اپنی جگہ، مگر مختلف مقامات پر چھوٹے چھوٹے ڈیم بھی بننے چاہئیں۔

پانی کے بے محابہ استعمال کو روکنے کے لئے بھی کئی چیزیں سمجھ آئیں۔ اپنے گھر میں شاور کے استعمال پر پابندی لگائی، ٹب اور مگ سے نہانے کی عادت ڈالی اور بچوں کو مجبور کیا۔ پانی کے پائپ سے گاڑی، موٹر سائیکل دھونے کی بھی حوصلہ شکنی کی۔ اسی طرح کی کئی چیزیں اب سیکھ رہے ہیں، سمجھنے سمجھانے کی کوشش میں ہیں۔ زیرزمین پانی کا نیچے چلے جانا ایک ایسا اہم مسئلہ ہے جس کا ابھی لاہوریوں کو شائد زیادہ اندازہ نہیں کہ یہ یہاں واسا اور مختلف سوسائٹیوں کی اپنی ٹینکیوں کے ذریعے پانی کی فراہمی ہوجاتی ہے۔ جنوبی پنجاب میں یہ مسئلہ خاصا سنگین ہوچکا ہے۔ وہاں زیرزمین پانی اتنا نیچے جا چکا ہے کہ بیشتر جگہوں پر گہرے بور کرنے پڑے ہیں۔ میرے آبائی شہر احمد پورشرقیہ میں ہمارے آبائی گھر کا زیرزمین پانی نیچے جانے سے دو بار پانی کے نئے بور کرانے پڑے۔

لاہور میں یہ مسئلہ سنگین ہوتا جار ہا ہے، خدشہ ہے کہ اگلے چند برسوں میں یہ بحران بن جائے گا۔ انجینئر ظفر اقبال وٹو صاحب نے اس حوالے سے ایک بہت اچھی تحریر لکھی، جس میں انہوں نے مفید تجاویز بھی پیش کی ہیں۔

انجینئر ظفر وٹو لکھتے ہیں: "سنہ 2015 میں لاہور میں انجینئرز نے قذافی اسٹیڈیم کے اطراف میں ایک نہایت دلچسپ تجربہ کیا۔ انہوں نے اپنی ریسرچ سے ایک ایسا ماحول دوست حل دیا جس پر عمل کرنے سے لاہور میں ایک بڑے فلائی اوور بنانے سے بھی کم لاگت میں پورے شہر لاہور کی سڑکوں کو مون سون کی بارشوں میں تالاب بننے سے بچایا جا سکتا تھا۔ اس حل کا اضافی فائدہ یہ تھا کہ لاہور کے زمینی پانی کی تیزی سے گرتی ہوئی سطح بھی ہمیشہ کے لئے مکمل بحال ہو سکتی تھی۔ یہ ریسرچ ایک معروف انٹرنیشنل جرنل میں شائع ہوئی۔

"اپنی ریسرچ کے لئے ان انجینئرز نے شہر لاہور کی سڑکوں پر 43 ایسی نشیبی جگہوں کی نشاندہی کی جو مون سون میں بارش کے بعد تالاب کی شکل اختیار کر لیتی تھیں۔ ان کا اندازہ تھا کہ سڑکوں پرصرف ان 43 مقامات پر ہی 1000 ایکڑ فٹ حجم کا پانی کھڑا ہوجاتا ہے جس کا بہت سا حصہ" پانی چوس کنویں" بنا کر زیرزمین اتارا جاسکتا ہے۔

"اپنے اندازے کی سچائی جانچنے کے لئے انجینئرز نے قذافی اسٹیڈیم کے ساتھ والی نشیبی سڑکوں پر دو پانی چوس کنویں بنائے۔ ہر ایک کنواں 6x9x8 فْٹ کا تھا جس کی سطح پر انہوں نے 2 فْٹ موٹے پتھر اور ایک ایک فٹ بجری اور ریت کی تہہ جما دی جس کے نیچے ایک فٹ گولائی والا سوراخ دار پائپ زیرزمین پانی تک پہنچا دیا۔ حیرت انگیز طور پر پہلی ہی بارش میں سڑک پر کھڑا ہونے والا ایک لاکھ لٹر پانی صرف تین گھنٹوں میں کنووں نے چوس لیا تھا اور بارش میں ہر دفعہ بند رہنے والی سڑک پر تھوڑی دیر بعد ہی ٹریفک رواں دواں تھا۔

"مزید تسلی کے لئے انجینیئرز نے سڑک پر اکٹھا ہونے والے بارشی پانی اور کنوؤں میں فلٹر ہو کر جانے والے پانی کی کوالٹی کے مختلف ٹیسٹ مستند لیبارٹریوں سے کرائے تو پتہ چلا کہ کنوؤں نے فلٹر کے عمل میں بارشی پانی سے آلودگی بھی صاف کردی تھی اور زیرِ زمین جانے والا پانی انتہائی صاف ستھراتھا۔ سب اہم بات یہ تھی کہ ایک ہی بارش کے ری چارج نے زیرزمین پانی کی سطح ساڑھے تین فٹ بلند کر دی تھی۔ یہ فوائد صرف 15 لاکھ کی لاگت سے بنے دو کنوؤں سے حاصل ہو گئے تھے۔ اگر اس حساب سے پورے لاہور میں بھی پانی چوس کنویں بنا دئیے جاتے تو ان کی مجموعی لاگت صرف ایک بڑا فلائی اوور بنانے سے کم ہوتی۔

"انجینیئرز نے تخمینہ لگایا کہ 1800 اسکوائر کلومیٹر سے زیادہ رقبے پر پھیلے لاہور شہرسے مون سون میں پڑنے والی بارشوں سے ایک کروڑ سے زائد لاہور یوں کے لئے پورے سال کا پینے کاپانی اور ہر قسم کے صنعتی استعمال کا پانی زیرزمین ذخیرہ کروایا جاسکتا ہے۔ اس سے شہر کی سڑکیں برسات میں تالاب یا جوہڑ نہیں بنیں گی نہ ہی بارشوں میں سڑکوں پر ٹریفک پھنسے گا اور سڑکوں کی مرمت یا تعمیر نو پر اضافی خرچ بھی بچے گا۔ لاہور کا زیرِ زمین پانی جو کبھی 10سے 15 گہرائی پر مل جاتا تھا آج کل 150 فٹ سے نیچے جا چکا۔ پرانے شہر میں تو یہ 600 فٹ گہرائی ہر بھی مشکل سے ملتا ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح ہر سال تین فٹ کے حساب نیچیگرتی جارہی ہے کیونکہ شہر کے دو ہزار ٹیوب ویلوں سے روزانہ 3500 ایکڑ فٹ پانی زمین سے کھینچ لیا جاتا ہے۔

"لاہور کو اپنے زمینی پانی کی سطح بحال رکھنے کے لئے سالانہ ایک لاکھ ایکڑ فٹ سے زیادہ حجم کے پانی کے خسارے کا سامنا ہے جب کہ انجینئرز کا تخمینہ ہے کہ ہر سال صرف مون سون کے موسم میں لاہور شہر سے کئی لاکھ ایکڑ فٹ پانی ریچارج کروایا جا سکتاہے۔ لاہور میں زیرِ زمین پانی کو ریچارج کرنے کے لئے جدید طرز کا، چھپڑ، سسٹم بحال کرنا ہوگا جس نے ماضی میں صدیوں تک اس شہر کے زیر زمین پانی کو میٹھا اور پانی کی سطح کو برقرار رکھا۔ چھپڑ کی طرز پر لاہور شہر کے پارکوں اور کھلی جگہوں پر کثیر تعداد میں ڈونگی گروانڈ ز کا قیام عمل میں لایا جائے جن کے اطراف میں ریچارج کنویں بنے ہوں۔

"سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں دفاتر فیکٹریوں الغرض تمام کھلی جگہوں پر ری چارج کنویں بنا کر ری سائیکل پانی سے زیر زمین پانی کو مون سون کے دوران ہی پورے سال کے استعمال کے لئے ریچارج کیا جائے۔ اس کام کو پھر تمام چھوٹے بڑے شہروں تک پہنچانا ہوگا۔ ہمیں فی الفور ریچارج لاہور اتھارٹی بناکر کام شروع کرنا ہوگا کیونکہ 2015 کے بعد بھی کئی برساتیں گزر چکی ہیں لیکن لاہور کی سڑکیں ابھی بھی تالاب بنی ہوتی ہیں۔ ایل ڈی اے، واسا، پنجاب اریگیشن، جماعت اسلامیWWF، PCRWR، IWMI، یو ای ٹی لاہور اور چند سوسائٹیوں اور انفرادی لوگوں کے پائلٹ ریچارج پراجیکٹس کے علاوہ انجینیئرز کے دلچسپ تجربے سے بڑے اسکیل پر آج تک فائدہ نہیں اٹھایا گیا"۔

نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، مگر یہ حقیقت ہے کہ چند ماہ میں انہوں نے لاہور میں بہت سے ترقیاتی منصوبے شروع کئے، انہیں ریکارڈ مدت میں مکمل کیا۔ سڑکوں اور انفراسٹرکچر کی حد تک لاہور میں بہت بہتری آئی ہے، اب تو لاہور کے اہم ترین ہسپتالوں میں الگ سے بڑے ایمرجنسی بلاگ بنائے گئے ہیں۔ کیا ہی خوب ہو کہ محسن نقوی لاہور کے مخلص انجینئرز کے اس ویژن کی جانب بھی توجہ دیں اورشہر کے لئے بیک وقت کئی ری چارج کنوئیں بنانے کا منصوبہ شروع کریں۔ پہلا قدم اٹھا لیا گیا تو عین ممکن ہے کہ سفر ٹھیک سمت میں جاری رہے۔ لاہور شہر پر آبادی کا دبائو مسلسل بڑھ رہا ہے، اس کے انفراسٹرکچر کو بھی اسی اعتبار سے بہتر، مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ لاہور کے زیرزمین پانی کی سطح کو بھی بہتر بنانا ہوگا۔ کوئی تو اس طرف بھی توجہ دے۔