دیکھا گیا ہے کہ عام طور پر بہت مقبول شاعروں کی بھی چند ہی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں مقبولِ عام کا شرف حاصل ہو اور جن کو فرمائش کرکے بار بار سنا جائے۔
میں خود اس تجربے سے بارہا گزرا ہوں کہ آپ سامعین کو کوئی نئی چیز سنانا چاہتے ہیں مگر وہ پہلے کی اور بار بار کی سُنی ہوئی کچھ مخصوص نظموں یا غزلوں کی فرمائش ہی کیے جاتے ہیں، کم و بیش یہی معاملہ گلوکاروں کے ساتھ بھی ہوتا ہے کہ اکثر لوگ مشاعروں یا محافلِ موسیقی میں اپنے حافظے سے کام لینا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے اسی طرح کی صورتِ حال سے متعلق ایک لطیفہ نما واقعہ یاد آرہا ہے۔ کسی محفل میں ایک گلوکار سے اُس کے ایک مشہور گانے کی فرمائش کی گئی جو اُس نے خوشی خوشی پوری کردی۔
سامعین کے اصرار پر اُس نے ایک بار پھر وہی گانا سنایا۔ لوگوں نے پھر ونس مور کے نعرے لگائے، اُس نے تیسری بار بھی اُن کی فرمائش پوری کردی مگر جب اس کے بعد بھی پھر وہی گانا سنانے کو کہا گیا تو اس نے کہا کہ میں نے اور بھی بہت سے گانے گائے ہیں، اب کوئی اور سُن لیجیے۔ اس پر جو جواب ملا، وہ کچھ یوں تھا"جب تک یہ گانا ٹھیک نہیں گائو گے، ہم کوئی اور نہیں سنیں گے۔" اب یہ خوش طبعی کا وہ درجہ ہے جس کے نتیجے میں کوئی خود کشی بھی کرسکتاہے۔
میر ے احباب، قارئین اور پرستار قسم کے دوست اکثر مجھ سے میری کتابوں یا کسی کالم میں درج بعض اشعار یا نظم کے کسی ٹکڑے کے حوالے سے مکمل غزل یا نظم کی فرمائش کرتے رہتے ہیں، اس کا تعلق عام طور پر اُن کے حافظے میں پہلے سے موجود کوئی تاثر ہوتا ہے جس کو وہ مربوط انداز میں پڑھنا چاہتے ہیں۔
گزشتہ کالم کے عنوان "آگ اتنی کبھی نہ بھڑکائو" کے حوالے سے میں نے ذکر کیا تھا کہ کس طرح یہ برادرم راحت ملک کے ایک واٹس ایپ میسیج سے ذہن میں اُبھرا اور پھر نہ صرف ایک مطلع کی شکل اختیار کرگیا بلکہ اپنے ساتھ ایک غزل کو بھی لیتا چلاآیا۔ پچھلے 48گھنٹوں میں مجھ سے اتنے احباب اور قارئین نے اس غزل کو درج کرنے کی فرمائش کی ہے کہ میں خود حیران رہ گیا ہوں کہ بظاہر اس غیر مردّف غزل کا یہ مطلع شاعری کے حوالے سے اپنے اندر کوئی ایسی خصوصیت نہیں رکھتا تھا۔
اب اتفاق کی بات یہ ہے کہ اُس کالم کے چھپنے کے بعد تک وہ غزل چلتی رہی بلکہ اُس کے دوسرے حصے میں سائنس، منطق، تصوف اور خدا کی ذات سے صاف انکار کے مضامین ایک تسلسل کے ساتھ آتے ہی چلے گئے اور اب یوں ہے کہ آخری نتیجے تک وہ مذکورہ غزل پوری غزل کے چوتھے حصے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اور اس کی شکل کچھ ایسی بن گئی ہے کہ احباب کی فرمائش سے زیادہ خود اس میں میری پسند شامل ہوگئی ہے۔ سو مجھے اسے درج کرتے ہوئے دوہری خوشی محسوس ہورہی ہے۔ اب دیکھتے ہیں آپ کو یہ کیسی لگتی ہے۔
خو د بھی جس کی تپش نہ سہہ پائو
آگ اتنی کبھی نہ بھڑکائو
بند ہوتا نہیں درِ توبہ
جب بھی توفیق ہو چلے آئو
فاصلے، خواب، ضابطے، رفتار
وقت پر موسموں کا بدلائو
یہ خلائوں میں گھومتا سورج
یاسمندر میں تیرتی نائو
سب ہیں گر حادثے کی پیدائش
کوئی اس کی دلیل بھی لائو
کیسے ہر شئے میں آگئی ترتیب
خود بھی سمجھو ہمیں بھی سمجھائو
اس نتیجے پہ میں توپہنچا ہوں
جو وہ دکھلائے دیکھتے جائو
دہر میں بے سبب نہیں کچھ بھی
کچھ کہیں ہے اگر تو دکھلائو
سب جہانوں کا ہے وہی خالق
ہے اُسی "ایک" کا یہ پھیلائو
عرش تافرش ہیں اُس کے عکس
اُس کی بے چہرگی پہ مت جائو
یہ کسی چیستاں سے کم تو نہیں
وہی مرہم ہو اور وہی گھائو؟
ہم ہیں محدود وہ ہے لامحدود
یہ حقیقت اگر سمجھ پائو
عقل جس موڑ پر اُٹھا دے ہاتھ
اُس سے آگے اُسے نہ لے جائو
راستے بھی وہی بناتا ہے
وہ جو رکھتاہے ان میں اُلجھائو
ایسے میں اُس کی ہی طرف دیکھو
اُس کی حمد یں ہی دل میں دہرائو
دیر تک یاد بھی نہ آئے گا
کیا تھی مشکل، کہاں تھا اٹکائو
دل کی آواز کو سنو امجدؔ
اور پھر اُس پہ ہی چلے جائو