شفیق الرحمن مرحوم میرے پسندیدہ ترین ادیبوں اور بے حد محترم سینئرز میں تھے، یاد تو وہ ہمیشہ رہتے تھے مگر آج ایس ایم ظفر صاحب کے ایک رُقعے کی معرفت بہت زیادہ یاد آرہے ہیں۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اُن کی بہت سی خوبصورت عادتوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ وہ عام طور پر کوئی کتاب پڑھنے کے بعد اُسے اپنے پاس رکھنے کے بجائے کسی ایسے دوست کو بھجوا دیتے تھے جو اُن کے خیال میں اس کتا ب کو پڑھنے میں نسبتاً زیادہ دلچسپی رکھتا ہو۔
اب یہ میری خوش بختی ہے کہ میری لائبریری میں اُن کی بھجوائی ہوئی کتابوں کا ایک پورا سیکشن موجود ہے، اگرچہ ایس ایم ظفر صاحب کا آج ملنے والا رُقعہ ذاتی نوعیت کا ہے مگر شفیق صاحب سے اس اشتراک کی وجہ سے میرے خیال میں اب اس کی اشاعت بھی غیر مناسب نہیں ہوگی۔ وہ لکھتے ہیں۔
"محترم امجد اسلام امجد، ہمارے اولڈ راوین کے ساتھی ممتاز احمد شیخ نے ناول کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ ترتیب دی ہے اور انھوں نے دو جِلد بھی بھیجی ہیں۔ ایک تو میں نے رکھ لی ہے اور دوسری آپ کو بھیج رہاہوں کیونکہ میرے نزدیک آپ کے گھرانے میں یہ دلچسپی کے ساتھ پڑھی جائے گی۔ والسلام۔ ایس ایم ظفر"۔
اب مزید لُطف کی بات یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ ممتاز احمد شیخ مجھے "لوح" کا ہر شمارہ باقاعدگی سے بھجواتے ہیں بلکہ یہ متذکرہ بالا پرچہ انھوں نے دو بار بھجوایا ہے اور وہ یوں کہ پہلی بار کا بھجوایا ہوا پرچہ مجھے کسی نامعلوم وجہ سے نہیں مل سکا تھا اور میں ان دنوں سوچ ہی رہا تھا کہ موقع ملتے ہی کسی کالم میں اس شاندار کام پر انھیں خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر تبصرہ بھی کروں گا۔ سو اب ظفر صاحب کی مہربانی سے اس کا موقع بھی بن گیا، اگرچہ میں بوجوہ زیادہ تفصیل میں نہیں جا پاؤں گا کہ اسی کالم میں دو اور بہت ضروری باتوں کا تذکرہ بھی اپنی جگہ چاہتا ہے۔
ناول جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں اپنے ابتدائی زمانے میں ایک انوکھے اور مختلف انداز کی تحریر تھی، ا سی لیے اسے انگریزی لفظ Noval کا نام دیا گیا۔ اُردو میں اس صنف کا پہلا تعارف ڈپٹی نذیر احمد مرحوم کے ناولوں سے ہُوا جنھیں بہت زیادہNoval نہ ہونے کے باوجود بہت پذیرائی ملی، پھر پریم چند اور اُن کے معاصرین کا دور آیا مگر اس کی باقاعدہ اور ہم عصر عالمی ادب میں موجود ناول کی شکل ترقی پسند تحریک کے آغاز میں ہی سامنے آئی۔
یہ اور بات ہے کہ اُس پر زیادہ اثر رُوسی ناولوں کا تھا، تب سے اب تک اس صنفِ ادب میں طبع آزمائی کرنے والوں کی تعداد تو مسلسل بڑھی ہے مگر اچھے، معیاری اور قابلِ ذکر ناولوں کی تعداد بہت کم ہے۔ ممتاز احمد شیخ کی ترتیب کے مطابق کے 1862 لے کر 1900 اور پھر 1900 سے لے کر 1947 تک کُل دس ناولوں کا ذکر کیا گیا ہے البتہ 1947سے لے کر آج تک کے مختلف ناولوں کی تعداد 40سے بھی زیادہ ہے جو بلاشبہ سب کے سب بہت اہم، عمدہ اورقابلِ انتخاب ہیں لیکن میرے نزدیک ان میں سے بھی قرۃ العین حیدر کا "آگ کا دریا"، شوکت صدیقی کا "خدا کی بستی"، ممتاز مفتی کا "علی پور کاایلی"، راجندر سنگھ بیدی کا "ایک چادر میلی سی"، عبداللہ حسین کا "اُداس نسلیں "، بانوقدسیہ کا "راجہ گدھ"، مستنصر حسین تارڈ کا "بہاؤ"، مرزا اطہر بیگ کا "غلام باغ"، شمس الرحمن فاروقی کا "کئی چاند تھے سرِآسمان"، انتظار حسین کا "بستی" اور "محمد الیاس کا "انارکلی" ایسے ناول ہیں جنھیں نمایندہ ترین کہا جاسکتا ہے۔
ادبی اورتاریخی محاکمے کے حوالے سے مرزا حامد بیگ، ڈاکٹر رشید امجد، مشرف عالم ذوقی، ڈاکٹر امجد طفیل، محمد حمید شاہد اور ڈاکٹر محمد اشرف کمال کے خصوصی طور پر لکھوائے گئے مضامین بھی شاملِ اشاعت ہیں جن کی مدد سے اُردو ادب میں اس صنف کے ارتقا کو بخوبی دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔ ممتاز احمد شیخ کے صرف آٹھ سو صفحات کے اس کوزے میں واقعی ایک سمندر کو بند کردیا ہے جس پر انھیں جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔
جن دو خبروں کی وجہ سے اس ذکر کو مختصر کرنا پڑا ہے اُن میں سے ایک خبر خوش خبری کی ذیل میں آتی ہے جب کہ دوسری کا تعلق ایک افسوسناک اطلاع سے ہے کہ ہمارے ایک بہت سینئر اداکار اعجاز دُرانی ایک طویل علالت کے بعد ہم سے جُدا ہوگئے ہیں۔ اعجاز دُرانی مرحوم کا فلمی کیریئر1956 میں شروع ہوا تھا جو بطور ایکٹر تقریباً چالیس برس پر محیط ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ فلم سازی سمیت مختلف حوالوں سے ا س کے بعد بھی بہت متحرک رہے ہیں ملکہ ترنم نُور جہاں کے بعد اُن کی شادی مشہور فلمی ہدایت کار شریف نیر صاحب کی صاحبزادی سے ہوئی جو اُن کے آخر ی دم تک کامیابی سے قائم رہی۔ ماضی قریب میں اُن سے زیادہ تر ملاقاتیں برادرم ڈاکٹر صلاح الدین کے داؤد کلینک میں ہوئیں جو اُن کے گہرے دوست تھے۔
اُن کا شمار فلمی صنعت کے وجیہہ ترین اداکاروں میں ہوتا تھا اور فلم ہیر رانجھا میں اُن کا کردار اس قدر مقبول اور معروف ہوا کہ ملکہ ترنم نور جہاں کے بعد وہ اُن کا سب سے معتبر حوالہ بن گیا۔ وہ ایک دھیمے مزاج کے کم گو اور قدرے شرمیلے انسان تھے جن پر ہر لباس جچ جاتا تھا اور انھیں دیکھ کر یقین نہیں آتا تھا کہ ایسے شخص کے ساتھ اتنے بہت سے اسکینڈلز وابستہ ہوسکتے ہیں۔
اور اچھی خبر یہ ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے بہت مثبت اور تعمیر ی سوچ رکھنے والے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد اختر نے یونیورسٹی کے اسکول آف آرٹ اینڈ ڈیزائن میں بہت سی نئی اور خوبصورت روایات اور تبدیلیوں کا آغاز کیا ہے جن میں سے ایک مختلف شعبوں کے سربراہان کو ایک باقاعدہ صدر شعبہ کا آفیشل اسٹیٹس دینا ہے کہ جس کی وجہ سے وہ زیادہ آزادی سے اور پہلے سے بہتر کام کرسکیں گے۔ ڈاکٹر احمد بلال اور اسرار چشتی کی یہ ترقی مجھے اس لیے بھی بہت اچھی لگی ہے کہ دونوں میرے دل سے بہت قریب ہیں اور یقینا اُن کی اس کامیابی پر مُنو بھائی اور اعظم چشتی مرحوم کی روحیں بھی خوش ہورہی ہوں گی کہ مُنوبھائی احمد بلال کے سگے ماموں اور اعظم چشتی، عزیزی اسرار کے والدہیں اور دونوں اپنے اپنے شعبوں میں انقلابی اور دُوررس تبدیلیاں لانے کے لیے موزوں ترین لوگ ہیں۔
دونوں ڈاکٹر شاہنواز زیدی کے عزیز ترین شاگردوں میں سے ہیں اور ہر دو جانب سے اس رشتے کی تجدید اور فروغ کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔ آج ان تینوں فن کار دوستوں سے ملاقات کے دوران غالب کے کچھ نسبتاً کم معروف مگر بے مثال شعروں کا تذکرہ رہا اور رنگوں سے تصویریں بنانے والوں کی چھت کے نیچے لفظوں کے اس اپنی مثال آپ قسم کے مصور کے کمالِ فن کی خوب خوب داد دی گئی اور جس شعر پر آکر اور بجا طور پر جیسے بات نے آگے بڑھنے سے انکار کردیا، وہ کچھ یوں تھا کہ
پُھونکا ہے کس نے گوشِ محبت میں اے خدا
افسونِ انتظار، تمنا کہیں جسے
اور جاتے جاتے ممتاز احمد شیخ کے "لوح" کے حوالے سے غالب کے یہاں "لوح" کا ایک منفرد استعمال بھی دیکھتے چلیے کہ
یارب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں ہوں میں