رؤف طاہر مرحوم سے بطور صحافی اور ایک ادب دوست قاری کے حوالے سے میرا ذاتی تعلق کم و بیش تین دہائیوں پر پھیلا ہواہے بقول اُن کے وہ اپنی طالب علمی کے زمانے سے میری شاعری کو پسند کرتے تھے اور اکثر اس کا اظہار اپنے کالموں میں بھی کرتے رہتے تھے لیکن اُن کی رحلت اس ذاتی حوالے اور صدمے سے کہیں زیادہ افسوس اور ذکر کی طلب گار ہے کہ اُن کے جانے سے ایک ایسا بیدار مغز، کمٹڈ، صاحبِ مطالعہ اور اپنے معاشرے کے لیے خوبصورت خواب دیکھنے والا شخص ہم سے جُدا ہوگیا ہے جس کے متبادل اب خطرناک حد تک کم ہوتے جا رہے ہیں۔
اُن کے جدہ قیام کے دنوں سے اب تک جب بھی ان سے ملاقات ہوئی ان کی محبت اور گرمجوشی میں کبھی کوئی کمی نظر نہیں آئی وہ جس بات کو حق اور صحیح سمجھتے تھے اس کی بہت ڈٹ کر حمایت اور وکالت کرتے تھے اور ایسے میں ان کا چہرہ سُرخ سے سُرخ تر ہوتاچلا جاتا تھا لیکن اگر مخاطب کے ساتھ اُن کا رشتہ احترام اور محبت کا ہوتا تو وہ بحث کے دوران یکدم خاموش ہوجاتے اور کوشش کرکے اِدھر اُدھر ہوجاتے اتفاق سے مجھے یہ منظر کئی بار دیکھنے کا موقع ملا ہے اور ہر بار وہ مجھے پہلے سے زیادہ اچھے لگے۔
اُن سے آخری ملاقات کوئی دو ہفتے قبل اخوت والے برادرم ڈاکٹر امجد ثاقب کے اُس برنچ میں ہوئی جو انھوں نے اخوت یونیورسٹی کی زیرِ تعمیر عمارات کے حوالے سے ترتیب دیا تھا حاضرین میں زیادہ تعداد پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کی تھی جس میں ہر مکتبہ فکر کے دوست موجود تھے اور ہر کوئی اپنے اپنے نظریاتی موقف کی حمایت اور وضاحت میں بول رہا تھا۔
ایک صاحب نے گفتگو کے دوران میں پاکستان کے قیام اور دو قومی نظریئے کے بارے میں ایک ایسی بات کی جو مجھ سمیت ارد گرد بیٹھے بہت سے لوگوں کو بُری لگی لیکن اس سے پہلے کہ کوئی جواب میں بولتا قرآن پاک کی تلاوت سے پروگرام کا آغاز ہوگیا اور متعلقہ صاحب اُٹھ کر کچھ فاصلے پر جا بیٹھے۔ دو چار تقریروں کے بعد آخر میں مجیب الرحمن شامی کو دعوت خطاب دی گئی توانھوں نے باتوں باتوں میں بڑے نرم مگر مستحکم اندازمیں اس بات کا ایسا موثر جواب دیا کہ میں داد دیے بغیر نہ رہ سکا اور پاس بیٹھے ہوئے رؤف طاہر کی طرف دیکھ کر کہا کہ کیا ہی اچھا ہو اگر ہمارے میڈیا پر ہر شام کُڑک مرغیوں کی طرح لڑنے والے لوگ بھی برداشت اور تہذیب کا یہی رویہ اختیار کرلیں اور اختلافِ رائے کے باوجود ایک دوسرے کو وہ space دینا سیکھ لیں جو وہ اپنے لیے چاہتے ہیں تو بڑے سے بڑا مسئلہ بھی باہمی افہام و تفہیم سے حل کیا جاسکتاہے۔
اس پر رؤف طاہر نے اپنے مخصوص انداز میں سر ہلاتے ہوئے کہا "سر میڈیا پر ہونے والی یہ بحثیں مسائل کے حل کے لیے نہیں بلکہ حقِ نمک ادا کرنے کے لیے کی جاتی ہیں سو لوگ وہی ادا اور حلال کرتے ہیں دوسرے کو spaceتو وہ تب دیں اگر انھیں مخالفین سمیت اپنے ضمیر کی آواز بھی سنائی دے سکے"۔ اس پر گفتگو کا رُخ اس مسئلے کی طرف مڑ گیا کہ ترقی کرنے والی قومیں کسی اتفاق پر پہنچنے کے لیے اختلاف کا سہارا لیتی ہیں جب کہ ہمارے معاشروں میں اختلاف کا مقصد بھی اُسی کو قائم و دائم رکھنا ہوتا ہے ہم شخصیت پرستی کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ اپنے ہیرو کے خلاف نہ صرف یہ کہ کوئی بات سننے کو تیارنہیں ہوتے بلکہ اُس میں وہ اوصاف بھی جمع کردیتے ہیں جس کی شائد اُسے خود بھی خبر نہیں ہوتی۔
رؤف طاہر فطری طور پر ایک خواب دیکھنے والا آدمی تھا اس لیے اسے وہ شاعری زیادہ پسند تھی جس میں معاشرے کے اجتماعی خوابوں کو اپنے کلچر، تاریخ اور اخلاقی اقدار کے ساتھ آمیز کرکے پیش کیا جاتا تھا، ماضی کے ساتھ اس کی اس جذباتی وابستگی کی وجہ سے عام طور پر اُسے دائیں بازو کا ایک کٹر مذہبی مزاج کا رجعت پسند سمجھا جاتا تھا کہ اس کا زیادہ تر اُٹھنا بیٹھنا بھی اسی نوع کے لوگوں میں تھا مگر اس کے مزاج میں ہرگز وہ شدّت پسندی نہیں تھی کہ وہ اپنے نظریئے کے خلاف کہی جانے والی کسی بات کو بغیر سنے اور سوچے رد کردے۔
وہ عمران خان، اُس کی پارٹی اور پرفارمنس تینوں سے خوش نہیں تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات سے بھی انکاری نہیں تھا کہ اس کے مخالفین بھی کوئی دودھ کے نہائے ہوئے نہیں ہیں اور یہ کہ ملکی اور قومی مفاد کے لیے کوئی ایسا نظام یاطریقہ کار وضع کرنا ضروری ہے کہ جس میں انصاف کی سربلندی اور کرپشن کے خاتمے کے لیے افراد کے بجائے یا اُن سے زیادہ اداروں کے قیام اور مضبوطی پر توجہ دینی چاہیے اوریہ کام سب کو مل کر کرنا چاہیے۔
ایک محفل میں بہاولپور میڈیکل کالج کے سابقہ پرنسپل اور حالیہ پبلک اسپیکر ڈاکٹرجاوید اقبال، عمران خان کے حوالے سے نیت اور عمل کے حوالے سے کچھ بات کر رہے تھے کہ اچھی اور نیک نیت اگر اعمال کی شکل میں پوری طرح سے ظاہر نہ بھی ہوسکے تب بھی وہ بے عمل فلسفوں کی نسبت زیادہ لائقِ توقیر ہوتی ہے اور اگراُس پر تنقید کے بجائے اس کی تحسین کی جائے اور اُس کے ضمن میں تعاون اور رہنمائی کا رویہ اپنایا جائے تو یہ مجموعی طور پر قومی مفاد کے لیے بہتر ہوگا۔ میں نے اس خیال کی حمایت کی تومیرا ساتھ دینے والوں میں رؤف طاہر سب سے پیش پیش تھا حالانکہ اُس کے بہت سے نظریاتی ساتھی کسی مخالف کو اس طرح کی space یا رعایت دینے پر قطعاً تیار نہیں تھے۔
اُس کی زندگی کا بیشتر حصہ مالی اعتبار سے کوئی بہت زیادہ آسودگی میں نہیں گزرا حالانکہ اگر وہ چاہتا تو اسے ایسا کرنے کے لیے زیادہ محنت کی ضرورت نہیں تھی، میرے نزدیک اس کی بنیادی وجہ اس کی طبیعت کی رواداری اور اپنے خوابوں کی پرورش کا وہ جذبہ تھا جس میں وہ اپنے ذاتی رجحانات اور تعصبات سے اوپر اُٹھ کر اپنے نظریانی مخالفین مگر خواب نگر کے ساتھیوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا تھا۔
رؤف طاہر اور اس جیسے خوب صورت خواب دیکھنے والوں کی آنکھیں بظاہر خاک کا رزق ہو بھی جائیں تب بھی اُن کے خواب زندہ رہتے ہیں سو مجھے یقین ہے کہ جب بھی ہمارا معاشرہ آگے بڑھے گا اور ہمارے عوام کی زندگی میں معیار اور مقدار دونوں حوالوں سے بہتری آئے گی تو اس سے پھیلنے والی خوشبو کے دامن میں جن خوش عمل اور خوش خیال لوگوں کے نام اور کام سفر کریں گے ان میں رؤف طاہر بھی اپنی خوب صورت مسکراہٹ کے ساتھ زندہ اور موجود ہو گا۔ آخر میں برادرم پیر زادہ قاسم کا یہ شعراس کے اور اس کے خوابوں کے نام کہ
میں ایسے شخص کو زندوں میں کیا شمار کروں
جو سوچتا بھی نہیں خواب دیکھتا بھی نہیں
بلا شبہ وہ ایک زندہ سوچنے اور خواب دیکھنے والا قیمتی آدمی تھا۔