آتش کا ایک سدا بہار شعر ہے جو سیر، سفر، سیاحت اور مسافر نوازی کے حوالے سے فوراً ذہن میں آتا ہے اور اپنے ساتھ ایک جہان معانی بھی لاتا ہے کہ یہاں بات استعارہ در استعارہ پھیلتی ہی چلی جاتی ہے
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
یہ بات آج سے تقریباً دو سو برس پہلے کہی گئی تھی تب سے اب تک بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ سفر اور سیاحت کے متعلقات بھی بہت حد تک بدل چکے ہیں۔ سفر کی رفتار، ذرایع سفر اور مسافروں کی شب باشی کے حوالے سے سیاحت اب ایک باقاعدہ انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکی ہے اور دنیا کے کئی ممالک کی معیشت کلی یا جزوی طور پر اسی انڈسٹری سے جڑی ہوئی ہے۔
حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کی معیشت میں اس کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ اس کے طول و عرض کے تقریباً پندرہ سو میل پر مشتمل علاقے میں سیاحت کے حوالے سے اس قدر استعداد اور صلاحیت موجود ہے جسے اپنی مثال آپ کہا جا سکتا ہے کہ شاید ہی دنیا کا کوئی ایسا علاقہ ہو جہاں اتنے کم رقبے میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں، طویل ساحلی سمندر، پہاڑی مقامات اور قدیم ترین انسانی تاریخ کے آثار اور تعمیرات ایک جگہ پر پائے جاتے ہوں اور شاید ہی کوئی اور ملک ایسا ہو جس نے رب کریم کی اس قدر نعمتوں کی اس برے اور افسوس ناک طریقے سے بے قدری کی ہو۔
مجھے دنیا کے بہت سے ممالک کی سیاحت اور ان کے سیاحتی مقامات اور وہاں پر موجود سہولیات کو دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیشتر ترقی یافتہ ملکوں نے اس انڈسٹری پر خصوصی توجہ دی ہے اور اس کے فروغ کے لیے ایسے اقدامات کیے ہیں کہ ان کے یہاں پائی جانے والی بہت سی عام چیزیں اور جگہیں بھی اس قدر غیرمعمولی اور پرکشش بن گئی ہیں کہ دنیا بھر سے سیاح انھیں دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ ایسے میں وطن عزیز میں سیاحت کا فروغ نہ ہونے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی، جہاں تک امن و امان کی صورت حال اور دہشت گردی کے اثرات کا تعلق ہے تو ان سب کی تاریخ بھی گزشتہ تیس برس کے ارد گرد گھومتی ہے۔
تین چار برس قبل مجھے فیملی کے ساتھ ناران جانے کا اتفاق ہوا تو یہ جان کر بے حد دکھ ہوا کہ نہ صرف وہاں ملکی اور غیرملکی سیاحوں کے لیے بنیادی ضروریات کی بے حد کمی ہے بلکہ چند برس قبل تک بالاکوٹ سے آگے پکی سڑک تک نہیں تھی اور اس علاقے کے چند بااثر اور سیاسی اہمیت رکھنے والے خاندانوں کا واحد مشغلہ جنگلوں کی غیرقانونی کٹائی تک محدود تھا اور سیاحوں کے لیے کسی قسم کی سہولت دور دور تک نہیں پائی جاتی تھی بلکہ ان کو ہر طرح سے لوٹنا ایک کلچر کی شکل اختیار کر چکا تھا۔
لطف کی بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے سیاحتی مقامات پر بھی آخری نشانہ سیاح کی جیب ہی ہوتی ہے مگر وہ اس پر لٹیروں کی طرح ڈاکہ نہیں ڈالتے ان کا طریق واردات ہر طرح کی سہولیات فراہم کرنا اور پھر ان کی قیمت وصول کرنا ہے اور یوں یہ سارا عمل ایک ایسے دلچسپ کاروبار کی شکل اختیار کر جاتا ہے جس میں دونوں فریق یکساں طور پر خوش رہتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کا ایک شعر شاید اس صورت حال کی بہتر غمازی کر سکے کہ
اس حسن اتفاق پہ لٹ کر بھی شاد ہوں
تیری رضا جو تھی وہ تقاضا وفا کا تھا
اس پس منظر میں جب مجھے میرے بیٹے علی ذی شان امجد نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل Road & Story کے بینر تلے اس نے عزیزی یاسر رشید کے ساتھ مل کر "غذر" اور ہنزہ پر جو ڈاکیومینٹری فلم بنائی تھی اس کا بہت خوشگوار اثر ہوا ہے اور دنیا بھر سے اس کو بے حد پذیرائی مل رہی ہے سو اب اس سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے
Road & Story Digital Tourism Plateform
کا آغاز اور افتتاح کیا جا رہا ہے جس کی معرفت شمالی علاقوں میں سیاحوں کے لیے 5ہزار ایسے کمروں کی بکنگ ایک ایسے Web Portal کی معرفت ممکن ہو سکے گی جس کی ہر موجود سہولت کی تفصیل پہلے سے ان کے پاس موجود ہو گی اور ان کمروں کے ساتھ وہ سب بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں گی جن کی ایک مسافر اور سیاح کو دوران سفر ضرورت ہوتی ہے۔ ہر جگہ پر صاف ستھری چادریں، معیاری واش روم، بجلی، وائی فائی کنکشن اور علاقے کے اندر اور ارد گرد پائی جانے والی تمام سہولتوں کی تفصیل موجود اور مہیا ہو گی اور ان سب کا رابطہ Google Map کے ساتھ بھی ہو گا۔ اس تعارفی تقریب کا اہتمام عزیزی اعجاز نثار کے خوب صورت Management House کے آڈیٹوریم میں کیا گیا تھا۔
یاسر رشید نے وڈیو ایپز کے ساتھ تفصیل سے بتایا کہ ان علاقوں میں سفر کرنے والوں کو رہائشی سہولتوں کے ساتھ ساتھ تمام متعلقہ سہولتیں اور معلومات بھی فراہم کی جائیں گی جن میں اس علاقے کی تاریخ، تہذیب، قابل دید مقامات، نزدیکی اسپتال، ٹائر شاپ، ریستوران، پٹرول پمپ اور ان کے فاصلے اور لوکیشنز سب کچھ شامل ہو گا آن لائن بکنگ کی سہولت کے ساتھ ساتھ ہر جگہ پر تربیت یافتہ عملہ ان کی خدمت اور دیکھ بھال کے لیے موجود ہو گا تقریباً تمام مقررین نے حکومت کے اس اقدام کو سراہا کہ اس نے اس بہت اہم اور ملکی معیشت میں بہتری کے حوالے سے بہت بروقت قدم اٹھایا ہے اور اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سفر کو نہ صرف جاری رکھا جائے بلکہ عوامی شعور میں اضافے کے ساتھ ساتھ ایسے اداروں کی بھی حوصلہ افزائی اور تربیت کی جائے جو اس شعبے میں آنے کا ارادہ اور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس موقع پر اعدادوشمار کے حوالے سے بھی اس بات کو واضح کیا گیا کہ سیاحت کے فروغ سے ہم غیرملکی زرمبادلہ کے ضمن میں کس قدر آگے جا سکتے ہیں۔
اس تقریب کے دوران اور اختتام پر ایک محاورہ "دیر آید درست آید" بار بار یاد آتا رہا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم رب کریم کی دی ہوئی اس نعمت کا شکر عملی طور پر ادا کریں اور سیاحت کے حوالے سے پاکستان کو اس مقام تک لے جائیں جو اس کا حق بھی ہے اور ضرورت بھی۔