پرسوں شام پنجاب یونیورسٹی کے کچھ اساتذہ کرام ملنے کے لیے تشریف لائے اور اپنے ایک اجتماعی مسئلے کے سلسلے میں قلمی اورکالمی مدد چاہی ایک تو اُن کی بات میں وزن تھا اور دوسرے ان کا تعلق اس شعبے سے تھا جس کی تعظیم ایک عالمی اصول کے طور پر کی جاتی ہے۔
میری درخواست پر برادرم ڈاکٹر احمد بلال نے سارے معاملے اور مسئلے کو بڑے موثر او ر مختصر انداز میں تحریر کرکے مجھے بھجوادیا کہ وقت، واقعات اور متعلقہ کرداروں کے ناموں کی صحت برقرار رہ سکے مگر ابھی ابھی میری نظر فیس بُک کی ایک پوسٹ پر پڑی ہے جس کا عنوان ہے VIP کون؟ تو میرا جی چاہ رہا ہے کہ اپنی بات کا آغاز اسی سے کروں۔
٭امریکا میں دو قسم کے لوگوں کو اہم شخصیات (VIP) میں شمارکیا جاتا ہے سائنس دان اور اُستاد۔
٭فرانس کی عدالتوں میں اُستاد (ٹیچر) کے سوا کسی کو کرسی پیش نہیں کی جاتی۔
٭جاپان میں پولیس کو اُستاد کی گرفتاری کے لیے پہلے حکومت سے خصوصی اجازت لینی پڑتی ہے۔
٭کوریا میں کوئی بھی اُستاد اپنا کارڈ دِکھا کر اُن سہولتوں سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے جو ہمارے ملک میں صرف وزیروں، مشیروں اور اسمبلی ممبران کے لیے مخصوص ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں بھی عمومی طور پر اساتذہ کا احترام ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے یعنی مستشنیات مثلاً گھوسٹ اسکولوں کے جعلی استاد یا مطلوبہ تعلیمی قابلیت کے بغیر سفارش پر بھرتی ہونے والے نام نہاد اُستادوں سے قطع نظر آج بھی پڑھے لکھے، ذمے دار اورمحنتی استاد کی بہت قدر کی جاتی ہے، اس پس منظر میں یہ بات بھی قابلِ غور و فکر ہے کہ اُن کی تنخواہوں میں جو ہاؤس الاؤنس شامل کیا جاتاہے فی الوقت اُس میں کرائے کی اچھی رہائش کا ملنا اگر ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہے جب کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اور بڑھاپے کے مسائل سے نمٹنے کے دوران اُن کے لیے اس کرائے کی ادائیگی بھی ایک امتحان بن جاتی ہے۔
جن چند اساتذہ کو یونیورسٹی ملازمت کے دوران رہائش مہیا کی جاتی ہے وہ بھی ملازمت کے اختتام پر بے گھر ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں دیگر سرکاری، غیر سرکاری اور نیم سرکاری محکموں کے ملازمین کی طرح اساتذہ بھی دورانِ ملازمت اپنی مدد آپ کے تحت مختلف طرح کی ہاؤسنگ اسکیمیں بناتے اور اُن میں Invest کرتے ہیں تاکہ وہ اپنا ذاتی گھر بنانے کے قابل ہوسکیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ نے بھی دو مختلف مواقعے پر ایسی اسکیمیں بنائیں جن کی وجہ سے بہت سے اساتذہ کرام آج ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی چھت تلے عمر فانی کا باقی وقت عزت اور سکون سے بسر کررہے ہیں۔
انھی کی تقلید میں آج سے 20 برس قبل ایک رہائشی منصوبے کا اجرا کیا گیا، زمین کی خریداری اور دیگر معاملات کے باعث کچھ وقفہ آ گیا جس کے دوران دو اہم واقعات ہوئے ایک تو یہ کہ خرید کردہ زمین کی قیمت میں اضافہ ہوگیا اور رنگ روڈ سے قربت کی وجہ سے پراپرٹی مافیا کی دلچسپی اس میں بہت زیادہ بڑھ گئی اور دوسرے یہ کہ جس بلڈر کمپنی کے ساتھ ڈویلپمنٹ کے سلسلے میں معاہدہ کیا گیا تھا، وہ ٹوٹ گئی جس کی وجہ سے پہلا معاہدہ ختم ہوگیا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ اساتذہ کے منتخب نمایندوں نے ایک پارٹنر سے معاہدے کی باقاعدہ تجدید تو کرلی ہے۔
بقول اساتذہ خرید کردہ زمین کے مالکوں کی طرف سے بھی کوئی مسئلہ نہیں مگر پراپرٹی مافیا طرح طرح کے ہتھکنڈوں سے کام لے کر معاملے کو آگے نہیں بڑھنے دے رہا، کورٹ کچہری میں طرح طرح کے مسائل پیداکرنے کے ساتھ ساتھ کئی سرکاری محکمے بھی اس میں activeہوگئے ہیں اور اساتذہ کو ہر روز نئے سے نئے کاغذات پیش کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے جب کہ یہ اپنے اپنے مضمون کے ماہر تو بے شک ہیں لیکن نت نئی قانونی موشگافیوں سے نمٹنا اُن کے بس کی بات نہیں، اب ضرورت اس بات کی ہے محکمہ اینٹی کرپشن کے افسر اعلیٰ ذاتی اور خصوصی طور پر نہ صرف اُن کی بات سُنیں بلکہ ان کی ہر ممکن جائز مدد بھی کریں۔
موجودہ وائس چانسلر برادرم نیاز صاحب بھی اُن کی حسبِ توفیق مدد کررہے ہیں مگر ہیں تو آخر وہ بھی ایک اُستاد ہی۔ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کو جس حد تک میں جانتا ہوں وہ بہت ذمے دار، فعال اور اساتذہ کی عزت کرنے والے انسان ہیں اور یقیناً متعلقہ بیووروکریٹ اور عدلیہ کے حضرات بھی اس معاملے میں اُن کے ہم خیال ہوں گے، سو اُن سمیت ہم سب کا یہ فرض ہے کہ اُستاد کے مقام، اُس کی عزت کو سامنے رکھ کر اس مسئلے کے حل میں ان کی مدد کریں۔
واضح رہے کہ ان مکانات کے لیے قسطیں ادا کرنے والوں میں اساتذہ کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کے کم آمدنی والے ملازمین بھی شامل ہیں۔ اگر قانونی طور پر متعلقہ زمین اساتذہ کی ملکیت ہے تو ازراہِ کرم اُنہیں اُن کا حق دلوائیں کہ یہ بیک وقت معزز اور بے چارے اساتذہ کرام چالاکیوں اور قانونی موشگافیوں سے آگاہی نہیں رکھتے ہیں۔
اُمید کی جانی چاہیے کہ ہماری عدلیہ کے متعلقہ افسران، اینٹی کرپشن محکمے کے سربراہ گوہر نفیس صاحب اور برادرم چوہدری محمد سرور اس بہت نیک اور اہم کام پر فوری توجہ دیں گے اور استاد کی عزت اور اُس کے اس مقام کو بحال کرسکیں گے جو ہماری تہذیب کا ایک خوب صورت اور قیمتی سرمایہ ہے۔