پاکستانی معیشت کی زبوں حالی کی تصویر کشی عالمی پیمانے پر یوں کی گئی ہے کہ مجموعی طور پر پاکستان کے عوام کی فی کس اوسط آمدنی ایک ڈالر روزانہ سے بھی کم ہے۔ ظاہر ہے کہ ملک کے اسی فیصد عوام انھی شب و روز میں اپنی زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔
کراچی جو پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر تھا، جہاں قائد اعظم نے پاکستان کی پہلی ٹیکسٹائل مل کا افتتاح کیا تھا۔ ولیکا ٹیکسٹائل مل جہاں آج بھی ان کے نام کی افتتاحی تختی لگی ہوئی ہے۔ بقیہ حصوں میں چھوٹے چھوٹے مختلف یونٹس لگے ہوئے ہیں جو یہ بتا رہے ہیں کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری رو بہ زوال ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ولیکا ٹیکسٹائل ملز سے نہ صرف فوجی کمبل بلکہ اونی فیبرکس بھی بنائے جاتے تھے۔
مگر آج صورتحال یہ ہے کہ ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمت گیس اور بجلی ہر ماہ نئی قیمتوں کا سورج طلوع کر رہی ہے جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل تو زوال پذیر تھا ہی پاکستان میں چمڑے کے ملبوسات بھی زوال پذیر ہوتے جا رہے ہیں۔ کراچی جو پورے ملک کے مزدوروں کی چھاؤنی تھی جہاں کپاس اور چمڑے کی صنعت کے علاوہ ہزاروں قسم کی مصنوعات تیار ہوتی تھیں وہ بھی اب زوال پذیری کی تصویر بنی جا رہی ہے۔
منگھوپیر سائٹ ایریا سے لے کر کورنگی ملز ایریا تک صنعتیں کاروباری بیماری کا شکار ہوتی جا رہی ہیں۔ جب ان سے پوچھا جائے کہ بیماری کے اصل اسباب کیا ہیں تو چھوٹتے ہی یہ آوازیں سنائی دیتی ہیں کہ گیس اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور خام مال کی بڑھتی ہوئی چائنا ایکسپورٹ نے حوصلے کی سکت نہیں چھوڑی۔ اور ہمارا مال تیار کردہ فنشڈ مال وارے میں نہیں آتا۔
کاروباری حالات میں خوف و ہراس، ٹیکسوں کا بڑھتا ہوا بوجھ صنعتوں کے انہدام کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔ جب کہ آئی ایم ایف کے سوداگر پاکستان کی معاشی ترقی کی تصویر کشی کر رہے ہیں جس کو مرزا غالبؔ نے اپنے ایک شعر میں یوں کہا ہے:
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
ان کو تو پاکستان سے سود کی شکل میں خون نچوڑنے کی عادت ہو چکی ہے اور ان کے حوالدار ہماری معاشی رگوں پر آ کے بیٹھ گئے ہیں۔ اگر پاکستان کے تقریباً چالیس لاکھ عوام غیر ممالک سے ڈالر اور ریال کی رقم نہ بھیج رہے ہوتے تو پاکستان زرمبادلہ کا بیلنس پورا کرنے کی سکت نہ رکھتا۔ کیونکہ ایکسپورٹ میں تو صرف پاکستان کی کپاس کی صنعت اور تولیہ کی ایکسپورٹ ہی امتیازی درجہ رکھتی ہے۔
اس کی وجہ پاکستان کے میدانی علاقوں میں جو کپاس اگتی ہے۔ ان میں نمی جذب کرنے کی صلاحیت دنیا بھر کی کپاسوں میں سب سے زیادہ ہے لیکن بڑھتے ہوئے مقامی ایندھن کی قیمت صنعتکاروں کو اس منزل پر لے آئے گی کہ وہ فنشڈ پروڈکٹس ایکسپورٹ نہ کر سکیں اور وہ تولیے اور باتھ روب کی ایکسپورٹ سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چمڑے کی صنعت کے بعد ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کی صنعت بھی جلد بیٹھ جائے گی۔
ایسی صورت میں ٹیکس کی وصولیابی میں بھی شدید کمی آ جائے گی۔ یہ تخیل اور تصور کی باتیں نہیں۔ ذرا ٹیکس وصول کرنے والوں سے کوئی یہ کہے کہ وہ چمڑہ چورنگی اور سائٹ ایریا کا دورہ کریں اور دیکھیں کہ صنعتی صورتحال کس رخ پہ جا رہی ہے اور ملک میں روزگار کی صورتحال کیا ہو گی۔ لیکن پاکستان کی وزارتیں ملک میں صنعتی زوال پذیری کی طرف رخ کرنے کے بجائے وہ ٹیکس کے مسئلے کو ہی اپنی بقا کا مسئلہ سمجھ بیٹھے ہیں جب کہ پاکستان کی بقا کاروباری اور صنعتی پیداوار میں مضمر ہے۔
موجودہ حکومت نے کئی لاکھ مکانات کی تعمیر اور بے روزگار افراد کے روزگار کے لیے منصوبہ بندی کا اعلان کیا تھا۔ تو ان کی خدمت میں یہ عرض ہے اگر بیروزگار لوگوں کو سستے مکانات دینے کا عزم ہے تو براہ کرم وہ کراچی میں ہی قائم کریں۔ ان میں درمیانی درجے کے فلیٹ تیس برس کی قسطوں پر دیں۔ اس طرح ملک کو خطیر رقوم مہیا ہوں گی اور کراچی میں کچی آبادیوں کا کاروبار بھی ختم ہو گا جو پانچ ہزار روپے ماہوار فی کمرہ کرائے پر اٹھائے ہوئے ہیں۔ اس طرح محنت کشوں کو ملک کی ترقی میں ہاتھ بٹانے کا موقع ملے گا۔ کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں کمپیوٹر انڈسٹری قائم کرنے کا عزم کرنے کی ضرورت ہے نہ یہ کہ ٹھیکے داروں کو مکان بنانے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
اس طرح صنعتی شعبے نئی سانس لینے کے قابل ہوں گے۔ واضح رہے کہ دنیا کے جن ممالک نے بجلی سستی کی ہے وہ ہائیڈرو پاور سے نہیں بلکہ سولر انرجی کے ذریعے معمولی نرخوں میں فی یونٹ بجلی مہیا کی ہے، ایسی صورت میں انھوں نے اپنی مصنوعات کو نہ صرف اپنے ملک میں مقبول عام کیا بلکہ بیرون ملک میں بھی اچھے دام ملے۔ انتہائی ٹیکس کا بوجھ کمزور صنعتیں برداشت کرنے کی اہل نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں صنعتوں کا منہدم ہو جانا یقینی ہے۔ اور یہ لوگ اپنا بچا کچھا سرمایہ لے کر بیرون ملک فرار ہو جائیں گے۔ لہٰذا پاکستان کے قومی خزانے میں کراچی سے جو سرمایہ جا رہا ہے اس میں کمی ہونے کے خدشات بڑھ جائیں گے۔
جہاں تک میرے ذاتی سروے کا نتیجہ ہے وہ یہ کہ جہاں دو وقت کھانا کھایا جاتا تھا اب ہوشربا مہنگائی نے لوگوں کو آئے دن فاقہ کشی پر مجبور کر دیا ہے۔ اور وہ علاج معالجے کی سکت سے بہت دور جا چکے ہیں۔ غریبوں کی نئی نسل خصوصاً کراچی اور پشاور میں سرد موسم میں لحاف اور کمبل اوڑھنے کی سکت نہیں رکھتے۔ چند گام ان بستیوں میں چل کر دیکھیں کہ نئی نسل سردیوں اور گرمیوں میں کس طرح سے موسم کو جھیل رہے ہیں۔
اکثر غریب بستیوں میں چھوٹے بچوں کے رونے کی آواز آ رہی ہو گی۔ یہ بچے یا تو سردی سے کانپ رہے ہوں گے یا دودھ کے لیے بلک رہے ہوں گے۔ ظاہر ہے حکومت نے جو خواب دیکھے تھے جن میں ایک خواب ریاست مدینہ کا تھا وہ تو کافی دور رہ گئے۔ کیونکی فی الحال تو ملک کو فوری رقوم کی ضرورت ہے تاکہ وہ قرض کی ادائیگی کے اہداف پورے کر سکیں۔ یہی سوچ کہ غریب عوام سڑکوں پر آنے سے گریزاں ہیں۔ اور تنگ دستی کو جھیلنے میں ان میں ابھی اور دن گزارنے کا حوصلہ ہے۔ کیونکہ انھیں حزب مخالف کے ساتھ ایک قدم چلنے کا بھی حوصلہ نہیں۔
آئی ایم ایف کے لوگ اور جن ممالک کے سرکردہ افسران بالا قرض دیتے ہیں ان کو کیا معلوم کہ عشرت اور عسرت میں کیا فرق ہے۔ لاکھوں لوگ جو ملک میں بیروزگار ہیں کہ جن کے پاس خوانچہ لگانے کا بھی بندوبست نہیں۔ اور نہ ہی ان کے علاقے میں روزگار کے مواقع ہیں، کوئی ان سے جا کے پوچھے کہ تمہارے پاس کل کے کھانے کا کیا انتظام ہے تو وہ یہی جواب دیں گے کہ اللہ مالک ہے۔ مگر ابھی ایسا وقت نہیں آیا کہ پاکستان میں لوگ ایتھوپیا کی طرح بے کسی میں مر جائیں۔ مگر بہت سے علاقے محرومی کی انتہا کو پہنچ گئے ہیں۔ جیسے احمد پور شرقیہ جنوبی پنجاب کا معاشی طور پر پست ترین علاقہ ہے جہاں لوگ ہر قسم کی سہولت کو ترس رہے ہیں۔
نہ اس چھوٹے شہر میں کوئی اچھا اسپتال ہے اور نہ ہی انڈسٹری۔ ایسے علاقوں کا حکومتی سطح پر سروے کرنے کے بعد صنعتی اور زرعی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اس شہر کے سیکڑوں گھر ایسے ہیں جن کے رہائشی کراچی شہر میں مزدوری کر رہے ہیں اور ایسے ہی شہر جنوبی پنجاب کے علاقوں میں موجود ہیں جہاں نان شبینہ سے لوگ محروم ہیں۔ وزراء کو چاہیے کہ وہ ان علاقوں کا دورہ کریں اور غریب بستیوں میں ایک شب رہائش کا انتظام کریں۔ تاکہ وہاں کے معروضی حالات کا جائزہ لیں۔ محض بیانات سے ملک اور قوم کی قسمت بدلنے سے رہی۔ اور نہ ہی قرض کے حصول سے۔
ضرورت اس بات کی ہے جو میں کئی بار تحریر کر چکا ہوں کہ ملک کو صنعتی انقلاب اور زرعی اصلاحات کی خصوصی طور پر ضرورت ہے۔ کیونکہ بڑے زمیندار اتنی ہی زمین پر کاشت کرتے ہیں جو ان کے لحاظ سے کافی ہے۔ زرعی کالجوں کی تعداد میں اضافہ اور زرعی کانفرنسوں کا انعقاد بہت ضروری ہے۔ صنعتی شہر خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے وہاں ہر قسم کی صنعتی ترقی کو ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے۔ تقریباً نصف سال گزر گیا کہ اخبارات کے شعبے سے ہزاروں لوگ بیروزگار ہوئے۔ جو ان میں بڑی ملازمتوں پر تھے وہ تو کہیں نہ کہیں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے بہت سوں کے تو احوال معلوم نہیں کہ وہ زندگی کے دن کیسے گزار رہے ہیں۔