Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. America Iran Do Budu

America Iran Do Budu

یاسر عرفات اور جارج حباش کے بعد محمود عباس نے فلسطینی مزاحمتی گروہ کا لیڈر بنا کر خود کو پیش کیا، مگر حقیقت چند برسوں میں نمایاں ہوگئی کہ محمود عباس فلسطین کی تحریک آزادی کوکوئی مقام نہیں دلا سکتے۔

لہٰذا اسمٰعیل ہانیہ فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کے رہنما کے طور پر منظر عام پر آئے اور ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ نہ صرف عالم اسلام میں درخشاں ہیں بلکہ ساری دنیا میں جگمگا رہے ہیں، جس روز ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت ہوئی، اس روز دو واقعات عالم میں یادگار ہوئے۔

ایک واقعہ کشمیر اورکارگل میں لاکھوں انسانوں کا جلوس جو القدس کے نعرے لگاتا ہوا اور ہاتھوں میں قاسم سلیمانی کی تصویر اٹھائے ہوئے تھا اور دوسرا واقعہ تدفین کے موقعے پر اسمٰعیل ہانیہ کا یہ بیان کہ قاسم سلیمانی القدس کے شہید تھے۔

ان جملوں نے یہ واضح کر دیا کہ قاسم سلیمانی کسی خاص فقہی مکتب کے فرزند نہ تھے بلکہ مظلوم فلسطینیوں کے گوریلا مجاہد تھے۔ اس کے علاوہ قاسم کی موت پر دو آوازیں اور اٹھیں۔ ایک آواز تھی ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد کی اور دوسری آواز بلند ہوئی ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی، جس نے تاریخ کا مطلع صاف کر دیا کہ قاسم سلیمانی چی گویرا تو نہ تھے لیکن ان کا انداز جہاں بانی چی گویرا سے مماثلت بہت رکھتا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ امریکی ایوان نمایندگان نے صدر امریکا کی کھلی جارحیت کی مذمت کی بلکہ ان کی جنگجویانہ کیفیت پر پابندی لگا دی۔ ورنہ یہ جنگ شرق اوسط کو تباہی کے کنارے پہنچا دیتی اور خصوصاً اس بات کے امکانات بڑھ گئے تھے کہ اسرائیل کی جنگجویانہ پالیسی اور اس کا وجود بھی راکھ کا ڈھیر بن جاتا چونکہ ایران کے میزائل اسرائیل تک کی مسافت طے کرنے کی تاب رکھتے تھے۔

اس موقع پر جب کہ دنیا ایک جنگی گرداب میں دھنسی جا رہی تھی۔ امریکا کے سابق نامور وزیر خارجہ جنگ کی آگ کو بھڑکانے میں پٹرولیم مصنوعات کا کام کر رہے تھے، وہ امریکا کو ترغیب دے رہے تھے کہ یہ بہترین موقع ہے کہ مشرق وسطیٰ پر قبضہ کر لیا جائے۔

انھوں نے مزید کہا کہ چونکہ میں امریکی وزیر خارجہ رہ چکا ہوں تو مجھے معروضی حالات کا علم ہے، مگر وہ یہ بھول گئے کہ گزشتہ برسوں کی امریکا نوازوں کے شام پر حملے اور داعش کی پرورش پر اربوں ڈالرکے اخراجات اس بات کی نشاندہی کر رہے تھے کہ یہ جنگ صرف شرق اوسط کی نہ رہے گی بلکہ اس کے کنارے جنوب مشرق ایشیا کے بعض ممالک تک پھیل جائیں گے اور جو ممالک امریکا کو اپنے ملک میں فوجیں اتار کر جان بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ بھی جنوبی کوریا کے فیصلوں پر عمل پیرا ہو جائیں گے، اس طرح امریکی وار انڈسٹری کو بے تحاشہ نقصان اٹھانا پڑے گا جو صدر موصوف کو جنگ کی پذیرائی کی ترغیب دے رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی مصنوعات جو عوام کے استعمال کی ہیں وہ چین اور دوسرے ملکوں میں تیار ہو رہی ہیں، کیونکہ ان ممالک میں اشیا کی قیمت نسبتاً کم پڑتی ہے مگر بڑی جنگی صورتحال میں جب دنیا تقسیم کی طرف چلی جائے گی تو پھر عام راستے مسدود ہو جائیں گے اور چین کو مجبوراً روس کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا۔

شاید آپ کو یہ یاد ہو تو اگر داعش کی جنگ اور طوالت کھینچتی تو چین کے صدر نے اپنے ملک کی فوجیں شام بھیجنے کا وعدہ کیا تھا، مگر قاسم سلیمانی کی حکمت اورگوریلا وار نے داعش پر وہ ضرب لگائی کہ اس کی تقسیم کے حصے بھی ناپید ہوگئے۔ بچے کچھے صرف بعض مسلم ممالک میں بھیس بدل کر نعرہ زن ہیں۔ اسی لیے امریکا نے نئے خطیر نقصانات سے بچنے کے واسطے جنگ کے دائرے کو مزید وسعت نہ دی اور یہ ایران کے عوامی مفاد میں بھی تھا۔ کیونکہ مزید پابندیوں کے باعث ایران کے عوام معاشی پریشانیوں سے نبرد آزما ہیں، جب کہ مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ خیال ہے کہ وہ اس پریشانی کے باعث ایران میں ایک عوامی بغاوت پیدا کر سکیں گے اور ایران کو دوسرا لیبیا بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ جہاں مجبور لوگوں کو روٹی، کپڑا اور مکان ملتا تھا، روزگار کی ضمانت تھی۔

کرنل قذافی نے ماؤزے تنگ کی ریڈ بک کے مقابل ایک گرین بک لکھی تھی اور لیبیا دنیا کے ان ممالک میں شمار ہوتا تھا جہاں لوگ دور دور سے روزگار کے لیے لیبیا جاتے تھے۔ ہمارے ملک میں قذافی اسٹیڈیم اس دور کے سنہری اوراق کی یاد دلاتا ہے، مگر آج اسی لیبیا میں انسانوں کی تجارت اور بدنظمی کا دور دورہ ہے جس کی وجہ سے ترکی کی پارلیمنٹ نے اپنی فوج طرابلس بھیجنے کا اعلان کیا۔

معمر قذافی کی ایک غلطی یہ تھی کہ انھوں نے اپنی پارٹی مضبوط کرنے کی بجائے اپنے بیٹوں کی شخصیت کو مضبوط کرنے پر کام کیا، جس کی وجہ سے خاندانی حکومت کا چرچا کر کے مخالفین باآسانی قابض ہو گئے۔ مگر ایران میں شخصی حکومت کے بجائے پارلیمنٹ اور عوامی رابطوں کا سلسلہ ہے۔ اس لیے ایرانی حکومت کو الٹنا آسان نہیں۔ دوم پابندیاں اتنی کارگر بھی نہ ہوں گی کیونکہ ترکی امریکا کے چنگل سے آزاد ہو گیا ہے۔ اور ایران، عراق کے راستے با آسانی ترکی سے اپنا مال باہر بھجوا سکے گا۔ حالانکہ یہ پورا راستہ نیٹو کے اتحادیوں کا ہے، مشکلات تو پھر بھی ہوں گی مگر اس قدر مزاحمت نہ ہو گی اس کا امکان ہے کیونکہ ترکی اب روس کے اتحادیوں میں سے ایک نئی شکل کا اتحاد پیدا کر رہا ہے۔ البتہ مسلم امہ کا تصور پیش کر کے معمر قذافی تو عدم کو پہنچے مگر ان کی جگہ اب ملائیشیا کے صدر مہاتیر محمد نے لے لی ہے جو اپنے پڑوسی ملکوں سے بہتر تعلقات رکھتے ہیں اور عالمی پیمانے پر ان کا کوئی فی الحال مخالف نہیں ہے۔

مہاتیر محمد نے ان سخت گیر حالات میں نہ صرف بھارت کے مسلمانوں کی حمایت میں بیان دیے بلکہ ایران پر حملے کو بھی جارحیت سے تعبیر کیا، پہلے یہ امید تھی کہ پاکستان ملائیشیا کی کانفرنس میں شرکت کرے گا، مگر یہ واقعہ تو قصہ پارینہ ہو گیا۔ البتہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ایران سے سعودی عرب کے دورے پر ہیں، کیونکہ عراق اور ایران ایسا لگتا ہے کہ ایک دوسرے کے اتحادی بن گئے ہیں اور بصرہ میں پاپولر ملیشیا جو مقتدا صدر کے خیالات کے برعکس ایرانی حکومت کی حامی ہے، خاص تعداد میں جمع ہے۔ مگر فی الحال ایران اور سعودی عرب کی زبانی جنگ بھی ختم ہو چکی ہے، ایسے میں شاہ محمود قریشی کا کردار اہم تو یقینا ہے کیونکہ پاکستان ایک اعتبار سے سعودی عرب کا قریب ترین حلیف ہے اور سعودی فرمانروا کے گزشتہ ماہ الجزیرہ ٹی وی چینل سے جو انٹرویو نشر ہوئے وہ ایران کے لیے معاندانہ نہ تھے۔ بلکہ ان میں تعلقات کو استوار کرنے کی جھلک موجود تھی۔

ایسی صورت میں مختصر گفتگو بھی معتبر ثابت ہو سکتی ہے اور پاکستان اس علاقے میں جو کردار ادا کرنا چاہتا ہے وہ ادا کر سکے یا نہ کر سکے مگر ایک ہمسایہ ملک کی حیثیت سے ایک اہم کردار کا حامل نظر آتا ہے۔ پاکستانی عوام ایران اور سعودی تصادم کے حق میں نہیں ہیں۔

کارگل سے چترال تک عوام کی ایک ہی آواز ہے کہ وہ جارحیت پسندی کے خلاف ہیں اور ایران پر حملے کے معاملے میں ایرانی موقف کی حمایت کر رہے ہیں۔ البتہ جنگی مشینری کو تیز کرنا مغربی ممالک کا طریقہ کار ہے۔ یہی امریکی سیاسی حکمت عملی کا کلیدی عمل ہے۔ حالانکہ ایرانی عوام نے اپنی پارلیمنٹ میں یہ طے کر دیا کہ وہ کسی عالمی جنگ کے حق میں نہیں ہیں۔

ادھر امریکی پارلیمنٹ نے بھی ہنری کسنجر اور اسرائیل کے سیاسی فلسفے سے اتفاق نہیں کیا اور عالمی جنگ چھیڑنے کا راستہ بند کر دیا۔ اس پر امریکا کے عوام کی انسانی ہمدردی ظاہر ہوتی ہے اور یہ دباؤ امریکی حکومت تک آ گیا ہے۔ لہٰذا ٹرمپ اب ایران کے خلاف کوئی جنگی راگ نہیں چھیڑ سکتے، ان کے راستے مسدود ہو چکے ہیں لہٰذا کسی بڑی جنگ کے بجائے اقتصادی پابندیوں تک یہ معاملہ محدود رہے گا۔