آج سے سو سال قبل جو طبی واقعات براعظم ایشیا، افریقا اور امریکا میں رونما ہوئے اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ طبی اعتبار سے بھی اپنے آپ کو نئے ناموں سے دہراتی رہے گی اور اسی دوران بہت سے سیاسی قتل و غارت گری کے طوفان بھی رونما ہوتے رہیں گے۔
آج سے تقریباً سو سال قبل ہماری دنیا میں ایک ایسا طبی طوفان اٹھا جس نے ایشیا اور یورپ میں اموات انسانی کے ڈھیر لگا دیے۔ اس طوفان کا نام لوگوں نے اسپنشن فلو رکھا، جس نے براعظم یورپ سے پہلی جنگ عظیم کے چند سال بعد اپنے وطن واپس جاتے ہوئے لاکھوں فوجیوں کو راہمیں ہی ہلاک کردیا۔ ماضی میں اس کو اسپین سے درآمد شدہ نزلہ و کھانسی سمجھا گیا مگر یہ نزلہ و کھانسی نہ تھا۔ نہ ہی اس کو ٹی بی سمجھا گیا بلکہ ایشیائی نوجوانوں کے یورپ جانے سے جو فلو پھیلا وہ آج کی زبان میں یورپی فلو کہلا سکتا ہے۔
اس یورپی فلو کی ازسر نو آمد چین سے درآمد شدہ فلو کہلا سکتی ہے اور یہ اپنے اندر مختلف اقسام کی بیماریاں سمیٹے ہوئے ہے جس کی وجہ سے اس فلو میں پھنسے ہوئے لوگ نزلہ، زکام کے علاوہ آشوب چشم کا بھی شکار ہو رہے ہیں۔ اگر اس فلو کا نام مہلک بیماری رکھ دیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ کیونکہ اس میں ہلاک ہونے والے ایک ماہ سے ایک دن میں بھی ہلاک ہو چکے ہیں اور اس کی وجہ سے ایشیائی، افریقی، امریکی اور یورپی ممالک کا ملا جلا مرض بھی کہہ سکتے ہیں جو ہر ملک میں ایک نئی خصوصیت لے کر رونما ہو رہا ہے۔
اس حالیہ وبا کا اگر سرسری جائزہ لیں تو اس کی وجہ سے امریکا کو گزشتہ ماہ ایک سیاہ فام جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کی وجہ سے بظاہر ایسا لگا کہ کہیں پھر امریکا اس موت کے ردعمل میں پھنس کر ایک طوفانی ردعمل کے شکنجے میں نہ آجائے۔ اگر کھلی آنکھوں سے اور تاریخی پس منظر کو سامنے رکھ کر ردعمل کے طوفان کا جائزہ لیں تو امریکا کے مقامی تبصرہ نگاروں نے ایک جانکاہ ردعمل کی تصویر کھینچی تھی۔ جس میں جمہوریت کا امریکی جہاز ایک گہرے پانی میں غرق ہو سکتا تھا۔
ذرا غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ طوفان بلاخیز امریکی وائٹ ہاؤس کے درو دیوار تک آپہنچا۔ مگر اس نے دھماکا خیز تصادم نہیں کیا بلکہ امریکی سفید فام اور سیاہ فام دونوں کے رہنما اس قتل بے جا کے ردعمل کو اگر چاہتے تو بڑے تصادم کی شکل میں پیش کرتے جس کا نتیجہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ سویت انقلاب سے کہیں زیادہ پراثر منقلب کر دینے والا یہ طوفان ہو سکتا تھا۔ مگر یہ وائٹ ہاؤس کی دیواروں سے ایسے جانکاہ جیسے کہ ہیروں کا جوہری کسی ہلکے تازہ رخ دریا کی آغوش میں آکر تھم سا گیا ہے۔
یہ جوہری اچانک بڑے طوفان کے بعد ٹھنڈی سانسوں کا نظارہ کرنے لگا۔ اس کو یہ بھی یقین نہ تھا کہ وہ بلا کسی روک ٹوک کے وائٹ ہاؤس تک آن پہنچے گا۔ اس کے بعد وائٹ ہاؤس کے گرد و نواح سے سرخ جھنڈوں سے لیس لینن کی تصویر اٹھاتا نظر آئے گا۔
ظاہر ہے جس تند و تیز طریقے سے وہاں کے سیاسی رہنماؤں نے منظر کو اپنی حکمت عملی سے آگے بڑھایا تو پھر اس سے عوام کی نظر میں ان لیڈروں کی کوئی وقعت نہ رہتی تو انھوں نے توڑ پھوڑ کے منظر کو ایک نئی جہت سے روشناس کرنا تھا۔ چونکہ امریکا سے لندن تک کرسٹوفر کولمبس کے خلاف بڑے بڑے پوسٹر آویزاں تھے اور تقریریں جاری تھیں تو اچانک تحریک کو ختم نہیں کیا جاسکتا تھا لہٰذا ان زیرک رہنماؤں نے جو کسی بڑی معاشی تحریک کی سرپرستی میں تھے انھوں نے اس آہنی تحریک کو ریشمی جابوں کی نذر کردیا اور پورے امریکا سے لے کر یورپ کے ممالک میں کر سٹوفر کولمبس اور دیگر لوگوں کے خلاف تحریک نے نئی شکل یہ اختیار کرلی ہے کہ مظالم کا اصل ذمے دار کولمبس اور ان کے کارندے تھے جنھوں نے انسانی خون کو رائیگاں کیا اور ڈالر کمائے لہٰذا جب پس منظر بدل جاتے ہیں تو اہداف کے اصول بھی بدل جاتے ہیں۔
اب رفتہ رفتہ یہ تحریک تمام ان لوگوں کے خلاف اپنے تانے بانے لے کر میدان عمل میں آگئی ہے۔ جنھوں نے 1962 سے لے کر بدلتے وقت کی کرنسی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا۔ اب یہ تحریک جو پولیس کے مظالم کے خلاف اٹھی تھی اپنا راستہ ہی بھول گئی۔ امریکن پولیس کو جو کچھ بھی اختیارات حاصل ہیں وہ بات تو پس آئینہ گئی۔ اب لندن سے لے کر نیو یارک تک بات اسٹیچو گرانے کی ہو رہی ہے لیکن معاملہ جو پولیس ریفارم اور سیاہ فام اقلیت کے حقوق کا تھا جس کو ایک مخصوص طبقہ لے کر آگے بڑھ رہا تھا وہ اس نئی راہ پر چلنے والے کارواں سے راہ گم گشتہمیں پھنسا نہیں رہے گا۔ بلکہ یہ غوطہ زنی میں تو چلا جائے گا۔
مگر اس سے موجودہ حکومت کو کوئی فائدہ نہ ہوگا، کیونکہ حالیہ انگریزی روزناموں کی رپورٹ کے مطابق جو اخبارات امریکا میں شایع ہوئے ہیں ان میں یہ وضاحت کر دی گئی ہے کہ ری پبلکن پارٹی اپنا وقار کھوتی جا رہی ہے اور ایک اخبار نے یہاں تک لکھا کہ مسٹر ٹرمپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ری پبلکن پارٹی کو دوبارہ ممبر سازی کی تحریک کو شروع کرنا ہوگا۔ یہ جملے خود صورتحال کا تصویری آئینہ ہیں۔ مگر ایسا نہیں کہ الیکشن کی راہیں اس قدر نرم اور آسان ہیں۔ اب ری پبلکن پارٹی نئے انداز میں کوئی نیا رخ اختیار کر سکتی ہے۔ کووڈ19 کا جہاں تک تعلق ہے مسٹر ٹرمپ کو خود اس راستے سے کوئی توقع نہیں کیونکہ پوری دنیا اس سے متاثر ہے اور اب تک دنیا کے کسی ملک نے کوئی حتمی علاج دریافت نہیں کیا۔
ہر ملک میں اس ملک کے قدامت پرستانہ دور کے علاج کیے جا رہے ہیں اور یہ اس ملک میں کارگر بھی نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ مسٹر ٹرمپ چین اور بھارت کی کشمکش یا مشرق اوسط میں حماس اور اسرائیل کے مابین کوئی نیا پہلو سامنے لے آئیں یا ایران پر لگائی گئی پابندیوں میں کچھ نرمی پیدا کریں کیونکہ پاکستانی وزیر اعظم نے ٹرمپ کو یہ تجویز پیش کی ہے۔ جس سے مسلم دنیا میں مسٹر ٹرمپ کے لیے نرم فضا پیدا ہوسکتی ہے گزشتہ دو تین ہفتوں سے اسرائیل اور حماس کے مابین تناؤ کی کوئی نئی لہر تو سامنے نہیں آئی البتہ پاکستان ایران کی پوزیشن کو بہتر بنانے میں اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
جہاں تک بھارت اور ایران کا تعلق ہے تو اس میں کوئی نئی پیش رفت تو سامنے نہیں آ رہی ہے البتہ عالمی پیمانے پر جو بیرونی دنیا کے اخبارات بھارت اور چین کے متعلق اپنے تجزیے لکھ رہے ہیں ان میں نیپال کا منفی رخ حالیہ دنوں میں سامنے آ رہا ہے۔ نیپال میں چونکہ چین نواز حکومت ہے اس لیے مسٹر مودی کو کوئی نئی رعایت کا امکان نہیں۔ البتہ کیونکہ مودی سرکار اس موڈ میں تھی کہ وہ پاکستان کی معاشی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر چین سے کچھ نئے فائدے حاصل کرلے۔ لیکن چین سے اس بات کی توقع نہیں جس کی گاہے بہ گاہے وزارت خارجہ اور چین بھارت بارڈر کی خبروں میں کوئی نرم پہلو نظر نہیں آرہا۔
لہٰذا چین اور بھارت کی صورتحال تناؤ کی شکل اختیار کیے رہے گی اور یہی پاکستان کے حق میں بھی بہتر ہے کہ بھارت کی سرکار اپنے مسائل میں ہی محصور رہے۔ بھارت جیسی حکومت نے تو بنگلہ دیش کا بھی خیال نہ کیا اور مسلمانوں کے لیے کوئی نرم پہلو دستور میں اب تک نمایاں نہیں ہوا۔ گوکہ پوری دنیا میں بھارت کو ایک نرم جمہوری ملک کی حیثیت سے جو مقام حاصل تھا اس سے وہ محروم ہو چکا ہے۔ پھر بھی مسٹر مودی کو اپنے پڑوسی ملکوں سے اچھے تعلقات بنائے رکھنے کا خیال نہ آیا اور بھارت سے نمٹنے کے اسی پرانے گھسے پٹے انداز میں معاملات کو طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو تدبیر 1962 میں اختیار کی گئی تھی اسی کا احیا کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ کئی ماہ سے چین اور بھارت کی کشیدگی تمام عالمی خبروں میں نمایاں ہے۔ مگر ان میں کشیدگی کے آثار میں کمی نظر نہیں آرہی ہے۔ محض اس لیے کہ کشیدگی کا رخنہ پاکستان کے سابق صدر ایوب خان نے چین کا کلیم منظور کرکے اس کو ویسٹ باکس میں ڈال دیا تھا، جو موجودہ حکومت کے لیے ایک مثبت پہلو ثابت ہو رہا ہے۔ ویسے بھی بھارتی حاکم مسٹر مودی دانشمندی کی دال تک سے ناواقف ہیں۔ اور چین کو مذہبی آئینے میں دیکھتے ہیں چونکہ چین میں اکثریت بدھ مت کے ماننے والی ہے۔ لہٰذا مسٹر مودی صرف پریشر کی زبان سمجھتے ہیں اور وہ کسی ایسے واقعے کے منتظر نظر آتے ہیں جو واقعی کسی بڑے عالمی تصادم کی شکل میں نمایاں نہ ہو۔
پاکستان تو ان کے Trap میں آنے سے رہا۔ لہٰذا وہ پاکستانی سفارتکاروں کے ساتھ بدتہذیبی کا جواب تہذیب سے دے رہا ہے اور بھارت کو کوئی موقع نہیں دینا چاہتا کہ بھارت سارا وزن پاکستان پر ڈال دے۔ گوکہ چین اور پاکستان کے سیاسی نظریات میں فرق ہونے کے باوجود چین نے بقول چو این لائی کے پرامن بقائے باہمی کے پنج شیلا کے اصولوں کے تحت اپنے سیاسی اصولوں اور مقاصد کو باہمی تعلقات میں کبھی خارج ہونے نہ دیا۔ اور اسی پر چین کی پالیسی گزشتہ پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصے سے قائم ہے۔ اس لیے اگر بھارت اس انتظار میں ہے کہ پاکستان اس کا بوجھ اٹھائے تو اس کے امکانات معدوم ہیں۔