Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Bharti Awami Tehreek

Bharti Awami Tehreek

بھارتی عوامی تحریک کو چلے دو ماہ کے قریب ہو چکے ہیں، مگر اس میں کہیں تعطل نہ آیا۔ شروع میں یہ تحریک محض شہریت کے تعصبانہ قانون کے اردگرد گھوم رہی تھی، جس کی ابتدا بھارتی نوجوان لیڈرکنہیا کمار نے کی جو جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے فاضل التحصیل صدر تھے، مگر انھوں نے بہار میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا اور نریندر مودی کی ہم نوا جماعت آر ایس ایس کے خفیہ پردوں کو چاک کیا جس کے بعد یہ تحریک بھارت کے صوبے دکن سے لے کر پنجاب تک پھیل گئی۔ اس موقع پر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کشمیری عوام پر جو مظالم توڑے جا رہے تھے، کنہیا کمار کی حکمت عملی سے اس کا وزن بھارت کے ہر صوبے نے اپنے کاندھوں پر اٹھا کر کشمیریوں کو بڑی حد تک آزاد کر دیا۔

اب صورتحال یہ ہے کہ حیدرآباد دکن اور لکھنو میں جو جلسہ عام ہو رہے ہیں اس میں مسٹر مودی کو چائے والا کہہ کر مخاطب کیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر بھارتی خواتین کی بہادری کی بھی داد دینی پڑتی ہے جنھوں نے دلی کے شاہین باغ سے لے کر لکھنو کے حسین آباد اور نخاس تک سردیوں میں لحاف اوڑھ کر اپنے بچوں کے ہمراہ نئے بھارتی قانون شہریت کو زمین دوز کر دیا ہے۔ دلی کے شاہین باغ کے اردگرد جو مجمع اکٹھا ہے اس کو حکومت ہند منتشرکرنے کے حیلے بہانے تلاش کر رہی ہے۔ ابھی ان کی یہ ہمت نہیں ہے کہ وہ ان خواتین پر حملہ آور ہو جائیں جو گزشتہ ستر برس سے گھروں میں ہی رہتی ہیں اور پردہ ہی ان کی ڈھال ہے۔

آر ایس ایس کے غنڈوں نے اردگرد سے فائرنگ کی مگر کوئی بھگدڑ نہ مچی۔ دلی کے شاہین باغ کے اردگرد سے جو راستے جاتے ہیں وہ اکثر کاروباری مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں اس لیے آر ایس ایس کا پہلا منصوبہ یہ ہے کہ ان جگہوں کو خالی کروائے جس سے کاروباری زندگی زوال پذیر ہوچکی ہے اور دنیا میں جو بھارت کی معیشت کی تعریف کرتے تھے وہ اخبارات بھی اب نکتہ چینی پر اتر آئے ہیں کیونکہ معیشت کا ترازو ڈانوڈول ہے۔

بھارت کے مقتدر طبقات بھی بھارتی حکومت کی نکتہ چینی پر اتر آئے ہیں۔ شاعر اور ادیب تو گزشتہ ماہ سے ہی انحراف کا پرچم تھامے ہیں۔ مگر اب بھارتی فلم اسٹار بھی تنقید کر رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کی بات ہے کہ بھارتی اداکار نصیرالدین شاہ نے ایک پریس کانفرنس میں مودی سرکار کو اپنی تنقید کا ہدف بنایا اور یہ کہا کہ ہم تین پشتوں سے زائد وقت گزارنے والے بھارتی ہیں توکیا اب ہمیں بھی یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم ہندوستان کے قدیم باشندے ہیں۔ ایسے قانون کو انھوں نے سرے سے رد کر دیا اور اپنے فلمی ٹولے سے یہ گزارش کی کہ تم بھی میرے ساتھ آن کھڑے ہو، ورنہ ملک کے نامور چار عدد خانزادے اگر اب بھی میدان عمل میں نہ آئے اور حکومت کی چاپلوسی کا شکار بنے رہے تو ان پر بھی عرصہ حیات تنگ کر دیا جائے گا۔

مسٹر مودی کی جو سیاسی پالیسیاں منظر عام پر آرہی ہیں ان سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ وہ ملک میں فساد کی پیداوار چاہتے ہیں مگر موجودہ تحریک میں ہندو نوجوان مسلمانوں کے ہمراہ بلکہ یہ کہا جائے کہ وہ مسلمانوں کی قیادت میں حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ لہٰذا مسٹر مودی کے ہندو مسلم فساد کی روش کی قدرتی طور پر ناکہ بندی ہوچکی ہے۔ نوجوانوں کا یہ اتحاد سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے گا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ساحر لدھیانوی نے آج سے پچاس سال پہلے جو یہ شعر کہا تھا:

ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے

خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا

کشمیر سے جس ظلم کی ابتدا ہوئی آج بھارتی نوجوانوں نے آزادی کے ترانے گانے شروع کر دیے ہیں۔ یہ آوازیں ہزار دو ہزار نوجوانوں کی نہیں بلکہ بھارت کی سو سے زائد یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبا وطالبات کی ہیں جو پرسوز انداز میں فیضؔ، جالبؔ اور کیفیؔ اعظمی کے انقلابی اور آزادی کے نغمات گا رہے ہیں۔ ہزاروں طالبات کے خلاف حکومت نے ایف آئی آر کاٹ دی ہے۔

دفعہ 144 کی اس قدر تذلیل کی گئی کہ وہ اب بھارت کے گلی کوچوں سے دفع ہوگئی ہے، مگر افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستانی میڈیا بہت ہی نرم اور ڈھیلے ڈھالے انداز میں بھارتی حکومت کی تکذیب کر رہا ہے۔ جب کہ بھارتی ٹی وی اسٹیشنوں پر دن رات ہرزہ سرائی ہو رہی ہے۔ ان جملوں کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ ہم بھارت کے خلاف کوئی جنگی جنون پیدا کریں بلکہ بھارتی عوام کے ساتھ ان کے دکھوں میں ان کا مداوا کرنے کی تدبیرکریں اور تصادم کے ہر راستے کوگلپاشی کے الفاظ سے خوش نما بنائیں کیونکہ مودی سرکار خود یہ چاہتی ہے کہ کسی طرح پاکستان کے ساتھ سرحدی تناؤ پیدا ہو اور عوام کو پاکستان دشمنی کے راستے پر ڈال دیں۔

کشمیر سے بنگال تک آسام سے راجستھان تک مختلف صوبوں کے وزرائے اعلیٰ موجودہ شہریت کے قانون کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں بھارت کی وحدت بھی خطرے میں ہے کیونکہ بھارت کی بنیاد سیکولر اصولوں پر رکھی گئی تھی جس کا مودی سرکار انہدام کرنے پر تلی ہوئی ہے اس پر بھی کوئی تفصیلی جائزہ پیش نہیں کیا جا رہا۔ اوٹ پٹانگ موضوعات کو ضروریات زندگی بناکر پیش کیا جا رہا ہے اگر بادی النظر میں بھارتی عوامی تحریک کا جائزہ لیا جائے تو یہ تحریک بنیادی طور پر ہند کے نوجوان اور سیکولر طلبا کی تحریک ہے۔

رہ گیا بھارت کا مسلم دشمنی پر اصرار عام لوگوں کا نہیں۔ یہ واضح ہوگیا ہے کہ وہاں کی ایک مختصر مذہبی تنظیم آر ایس ایس کا ایجنڈا ہے۔ اگر بغور دیکھا جائے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ شہری قانون بھارت کوکئی حصوں میں بانٹنے کی طرف انتہا پسندوں کا بلاوا ہے۔ یہ جملے ماضی میں بھی ایک بار تحریر کر چکا ہوں کہ بھارتی شہریت کا قانون نہ صرف مسلم دشمنی بلکہ بھارت دشمنی پر مبنی ہے اور بھارتی نوجوانوں نے اس تحریک کے خلاف جو ہندو مسلم مشترکہ تحریک چلائی ہے وہ علاقے میں امن اور بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوگی۔ مودی حکومت بس چند ماہ کی اور ہے اس کے جاتے ہی کشمیر سے مظالم ختم ہوں گے اور پاک بھارت تعلقات میں بہتری نمایاں ہوگی۔

بھارت کے کٹر پنتھی سرمایہ داروں نے پاکستان کو تجارتی بنیادوں سے دور رکھا تاکہ پاکستانی عوام مشکلات کا شکار ہوں۔ درحقیقت وہ کسی حد تک اپنے مقصد میں کامیاب تو ہوئے مگر اس کا اصل ہدف بھارتی بارڈرکے کسان بنے جو اپنے اجناس باآسانی بارڈر کے پار مناسب داموں میں فروخت کرتے تھے۔ اب ان کا جی ڈی پی بھی زوال پذیر ہے اور پوری معیشت لڑکھڑا رہی ہے جس کی وجہ سے گارجین اور نیویارک ٹائمز بھی بھارتی حکومت کی نکتہ چینی میں مصروف ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اس نے پوری کوشش کی کہ بھارت سے تجارتی تعلقات استوار رہیں، مگر مودی کو اپنی معیشت کا زعم تھا۔ اب یہی معیشت ہے جس سے بھارتی سرمایہ دار مودی کو دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں ابھی یہ صورتحال عام لوگوں تک نہیں آئی مگر جلد ہی راز فاش ہونے کو ہے۔ ابھی مسٹر مودی کی پوزیشن صرف جی ڈی پی سے اشارہ دے رہی ہے۔