Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Bharti Hukumat Ka Ghoonghat Uth Gaya

Bharti Hukumat Ka Ghoonghat Uth Gaya

بھارتی حکومت دنیا بھر میں جمہوری قدروں کی پاسبان اور ہیومن رائٹس کے چیمپئن کے طور پر مشہور تھی اور سونے پر سہاگہ یہ کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی اور آزاد خارجہ پالیسی رکھنے والی جمہوریت کے نام سے دنیا بھر میں نمایاں مقام رکھتی تھی۔ یہ مقام اس کو ماضی کے بنیادی لیڈروں نے عطا کیا تھا۔ مگر مودی نے جس جمہوریت کا اہتمام کیا وہ بنیادی طور پر گجرات کے 1984 میں مسلم کش فسادات کی وجہ سے بھارت بھر کے انتہا پسند اور بابائے بھارت گاندھی جی کے دشمنوں کا ایک ٹولہ تھا۔ جو بعد میں آر ایس ایس کی شکل اختیار کر گیا۔ مودی سے پہلے ایل کے ایڈوانی بھی الیکشن جیتے مگر انھوں نے انتہا پسند راستہ اختیار کیا۔

مگر جب 1984 میں مسٹر مودی بھارتی وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے نمودار ہوئے تو انھوں نے اپنی مقبولیت کے لیے ہندو راج کا نعرہ لگایا اور بابری مسجد کو مکمل ڈھانے اور اس کا نام و نشان مٹانے کا زور و شور سے پروپیگنڈا کیا۔ صرف یہی نہیں ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت کے خلاف بھارتی عوام میں زہر پھیلایا۔ درسی کتابوں خصوصاً چھوٹے بچوں کی تاریخ کی کتابوں کو مسخ کیا اور جتنے بھی مسلم حکمران ہندوستان میں آئے ان کی مذمت کی۔ حالانکہ ان مسلمانوں نے زبردستی کسی کو مذہب تبدیل کرنے کا حکم نہ دیا۔ بلکہ اکبر اعظم نے تو بقول بعض مسلم مورخوں کے اسلام کو تبدیل کرنے کی اور اس میں کچھ ہندوازم کے اثرات ڈالنے کی کوشش کی۔

اس نے بھارت میں بسنے والے بہادر راجپوتوں کو اپنی فوج میں بھرتی کیا اور مسلمانوں کے مساوی درجہ دیا۔ ہمیں یہاں بادشاہوں کی پذیرائی نہیں کرنی ہے بلکہ مودی حکومت جو تاریخ سے دغا کر رہی ہے اس کی نقاب کشائی کرنا تھی جو فی الوقت محلوں اور قصبوں کے نام بدلنے کو بڑی اہمیت دے رہا ہے اور اب تو الٰہ آباد کا بھی نام بدل رہا ہے تاکہ شاعر مشرق علامہ اقبال کے خطبات جو وہاں کی لائبریریوں میں موجود ہیں ان کو بھی دیس نکالا کردے۔

مگر یہ تمام چیزیں دنیا بھر کے لوگوں کے علم میں نہ تھیں۔ کیونکہ جس جمہوریت کی داغ بیل کانگریس نے ڈالی تھی اس میں مذاہب کی برتری یا کمتری نہ تھی۔ حالانکہ کانگریس کے دور میں بھی بعض جگہ ہندو اور مسلم فسادات ہوئے لیکن انھیں سختی سے دبا دیا گیا جب کہ مسٹر مودی نے احمد آباد میں فساد کروا کے اور پورے ملک میں سرکاری پنڈتوں کو وظیفے دے کر مسلمانوں کے خلاف جتھہ بندی کے احکامات جاری کیے لیکن یہ مسلمانوں کی غفلت اور ان کے علما کی خوشامد کا نتیجہ تھا کہ مودی کی حکومت کا داغدار چہرہ دوسری دنیا نہ دیکھ سکی کیونکہ دوسری دنیا کو کانگریس کی عطا کی ہوئی بلند معیشت تجارت اور سیاحت کی انمول آزادی تھی۔

لہٰذا دنیا بھارتی حکومت کو دنیا کی حسین ترین اور اعلیٰ جمہوریت کے نام سے یاد کرتی رہی۔ مگر جس روز سے مسٹر مودی نے دو رنگا قانون شہریت کا نفاذ کیا اور جمہوریت نے ایک سیکولر حکومت ہونے کے باوجود مسلمانوں کو ادنیٰ مقام دیا اور کم ازکم دس کروڑ مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کا یہ الزام لگایا کہ یہ لوگ افغانستانی، پاکستانی، بنگلہ دیشی، سری لنکن اور زیادہ تر میانمار سے بھاگ کر آئے ہیں جب کہ میانمار (برما) کے زیادہ تر بے گھر ہونے والے لوگ بنگلہ دیش کے شہری بن چکے ہیں۔ مودی نے مزید کہا کہ بنگلہ دیش کے کئی لاکھ افراد بنگال اور آسام میں ملازمتیں کر رہے ہیں تاکہ دنیا کو اپنی نئی منطق سے گمراہ کرسکے۔

مگر سلام ہو کنہیا کمار کو جو گزشتہ سال جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی کے منتخب صدر تھے اور کمیونسٹ پارٹی کے رکن، انھوں نے اس راز کو یوں فاش کیا کہ انھوں نے آسام میں لگائے جانے والے کیمپوں میں بے گھر کیے جانے والے مسلمانوں کو دھکیلنے کا راز فاش کیا۔ کنہیا کمار نے یونیورسٹی چھوڑنے کے بعد نومبر میں بہار میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا اور کہا کہ مسلمانوں کی اس جنگ میں کامریڈ فرنٹ لائن ہوں گے جس کے بعد انھوں نے کشمیر میں ہونے والے مظالم اور کرفیو کے خلاف بیانات دے کر عوام کو آگاہی دی۔

تو رفتہ رفتہ مسلمانوں نے جائزہ لے کر اور اس دستاویز کو جو شہریت کے نام پر موجود تھی پڑھ کر اس بات کا اندازہ کرلیا کہ یہ قانون ان کے خلاف ہے۔ اس کے بعد دہلی یونیورسٹی میں جو دوبارہ الیکشن ہوئے اسی میں آشی گھوش نامی لڑکی نے الیکشن جیتنے کے بعد انھی خطوط پر چلنا شروع کیا۔ اور کشمیریوں کی آزادی کے لیے نعرہ زن بھی ہوئی۔ شاہین باغ دہلی میں خواتین کو سردیوں میں پروٹسٹ کے لیے نکالنے میں آشی کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس لیے بی جے پی کے غنڈوں نے اس کا سر پھاڑا اور اسٹک سے لڑکوں کی پٹائی کی۔ پھر لکھنو اور علی گڑھ میں اسٹوڈنٹس کے ساتھ عوام بھی سامنے آگئے لیکن لکھنو چونکہ یوپی کا صدر مقام ہے جہاں نخاس اور حسین آباد میں عورتوں کے بڑے جلوس نکالے۔ لکھنو کے ایک شیعہ بزرگ عالم جن کی عمر اسی سال سے کم نہ ہوگی ان کو اس شہری قانون کی خلاف ورزی کرنے پر اتنے ڈنڈے مارے گئے کہ شاید ہی وہ اسپتال میں جانبر ہوئے ہوں۔

ذرا یہ دیکھیے مسلمانوں نے اس بار حیدرآباد دکن میں ملین مارچ کیا جس میں ایک بچی نے مائیک چھین کر پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی لگائے اور یہ کہا کہ سیکولر قانون تو دکھاوے کا ہے پاکستان زندہ باد۔ پھر پولیس والے اس کو گرفتار کرکے لے گئے۔ یہ تحریک جس میں مرد و زن دونوں برابر کے شریک ہیں۔ مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر ایک جان ہوکر اپنی مذہبی آزادی اور یکساں حقوق کے لیے جمع ہوگئے۔ جب کہ اس سے قبل علما کی آہستہ روی نمایاں تھی ذرا غور کیجیے کہ اکتوبر کے آخر سے چلنے والی یہ تحریک اس قدر مضبوط ہے کہ آج تک شاہین باغ دہلی میں عورتوں کا اتنا بڑا مجمع ہو گیا ہے جو تصور سے بالاتر ہے۔

ان پردہ دار خواتین نے سخت سردیاں بھی اپنے بچوں کے ہمراہ لحافوں میں گزاریں اور ٹرمپ کی آمد کے دن بھی پارک کا قبضہ نہ چھوڑا کیونکہ ٹرمپ کی آمد سے قبل جو پرانے بلوائیوں کے لیڈر ہیں انھوں نے دہلی شہر کے کوچہ و بازاروں کی تفصیل منگوا کر پولیس حکام سے ایک دن قبل ہی سخت بات چیت کی تھی کہ دہلی کا انتظام کیسے کیا جائے گا۔ اور صدر ٹرمپ کی آمد سے ایک ہفتہ قبل ہی تاج محل کو جانے والی سڑکوں پر جہاں جہاں کچھ بستیاں تھیں ان کو تقریباً دس فٹ اونچی دیواروں سے ڈھک دیا گیا۔ جوں ہی مسٹر ٹرمپ کا جہاز سرزمین دہلی پر اترا اسی روز 24 فروری کو تاج محل لے گئے۔ جہاں انھوں نے تاج محل کے سامنے اپنی تصویریں کھنچوائیں اور پھر مودی ان کو احمد آباد لے گئے۔

جہاں جلسے سے خطاب ہوا۔ مگر مسٹر مودی کی خواہش تو یہ تھی کہ وہ مسٹر ٹرمپ کو مندروں کی زیارت کروائیں۔ لیکن تاج محل کے حسن اور مسلمان بادشاہوں کی صناعی نے ایسا نہ ہونے دیا۔ لیکن جب مسٹر مودی کو یہ اندازہ ہو گیا کہ وہ دہلی میں کوئی بڑا اجتماع نہ کرسکیں گے تو انھوں نے پریس کانفرنس پر ہی گزارا کیا جس پر عالمی اخبارات نے اس دورے کو ناکام قرار دیا اور تبصروں میں بھی یہی کچھ کہا گیا کہ مسٹر ٹرمپ کے اس دورے میں کوئی تجارتی معاہدہ نہ ہوسکا۔ البتہ مسٹر مودی نے اس ناکامی کا بدلہ دہلی کے مسلمانوں سے لیا۔ انھوں نے اپنے ہوم منسٹر امیت شاہ کو دلی کی بربادی کا پروانہ تو دے دیا۔ مگر دلی والوں کا بھی کیا کہنا جو بیت بازی کے دھنی تھے۔

میر و غالب کے شہر میں رات گئے جب حملہ ہوا اس میں 44 لوگ ہلاک ہوئے اور کئی سو زخمی ہوئے جن میں عورتیں بچے اور ہندو برادری جو مسلمانوں کے ساتھ کھڑی تھی وہ بھی ہلاک و زخمی ہوئے ہندو کامریڈوں نے زخم اس لیے کھائے کہ ہندو دوبارہ تقسیم نہ ہو۔ اور رات گئے اس بہیمانہ حملے کو روکنے کے لیے لوگ اکٹھے ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ ہزاروں لوگوں کا ایک طرحی مشاعرہ شروع ہوگیا جس میں لوگوں کے پاس دفاعی اوزار بھی تھے۔ کیونکہ مخالف حملہ آور آتشیں اسلحے سے لیس تھے۔ اور ان کے پاس بلم خنجر یہاں تک کہ تلواریں بھی تھیں۔ یقینا مسلمانوں کو نقصان تو ہوا مگر حملہ پسپا کردیا گیا بقول ایک بچے کے جو علامہ اقبال کا ایک مصرع سنا کر چلا گیا:

توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے

آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا

اوزاروں سے بھرے اس مشاعرے میں عامر عزیز نامی شاعر نے ایک طویل نظم پڑھی جس کا طرحی مصرع یہ تھا:

سب یاد رکھا جائے گا سب کچھ یاد رکھا جائے گا

میر صاحب کہتے تھے:

دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب

رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

مگر اب مودی کے چہیتوں نے جو لوٹ مار کی فوج بھیجی تھی اس نے جمہوریت کا گھونگھٹ الٹ دیا ہے۔ اور اب چہرہ صاف نمایاں ہو گیا ہے۔ اس لیے اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن نے بھارتی حکومت کو تنبیہہ کی ہے کہ موجودہ شہری قانون جو عوام کی تقسیم و تفریق کا باعث بنا ہوا ہے۔ اس کو ختم کیا جائے۔