Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Bharti Mutanazia Bill Aur Talba Radde Amal

Bharti Mutanazia Bill Aur Talba Radde Amal

یوں تو اس ہفتے بین الاقوامی صورتحال اندوہناک رہی کیونکہ امریکی حملے سے ایرانی جنرل کی ہلاکت اور ترکی کی پارلیمنٹ کا یہ فیصلہ کہ لیبیا میں بگڑتے ہوئے حالات پر ترکی اپنی افواج کو طرابلس روانہ کرے جو خود ایک بین الاقوامی تنازع کا مرکز بنا ہوا ہے۔

لیکن پاکستان کے پڑوسی ملک ایران کے جنرل کے قتل پر پاک و ہند میں ایک تعجب خیز ردعمل سامنے آیا وہ یہ کہ کشمیری شہر کارگل اور سری نگر میں لاکھوں لوگوں کا جلوس امریکا کے خلاف نعرے لگاتا ہوا دکھائی دیا۔ گوکہ پاکستان کے انفرادی عمل اور اسلامی تنظیموں کے ردعمل سامنے آئے مگر پاکستانی فوج نے جو ردعمل پیش کیا وہ خطے کی پرامن زندگی کے لیے قابل آفرین تھا۔ لیکن فی الوقت بھارت کے پچیس کروڑ مسلمانوں کی حالت زار گفتگو کا موضوع ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے گجرات میں مسلم کُش فسادات کروانے کے بعد اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا اور رام مندر کے ایشو کو اچھال کر خود کو آر ایس ایس کے لیڈر کے طور پر نمایاں کیا۔ وہ یہ سمجھتے رہے کہ ہر مذہبی جنونی عمل ان کو سیاسی طور پر آگے بڑھاتا رہے گا۔ مگر وہ یہ بھول گئے تھے کہ درسگاہوں میں اساتذہ کا ٹولہ ابھی تک وہی تعینات ہے جو بھارت میں سیکولرازم کا پرچار کر رہا ہے۔ یعنی ہمہ مذاہب کو یکساں حقوق حاصل ہیں اور بھارتی طلبا برادری کی رگوں میں یہی آدرش سرگرم عمل ہے۔

اس آدرش کو لے کر بھارت میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سپوت کنہیا کمار نے جو یونیورسٹی یونین کے صدر تھے نریندر مودی کے مسلم کش بل کو پاش پاش کیا اور جواہر لال نہرو کے آدرش کو یاد دلایا کہ سیکولرازم میں تمام مذاہب کو اپنے حقوق ادا کرنے کی پوری قانونی صحت موجود ہے۔ بھارت کا ہر آدمی مذہبی طور پر یکساں حقوق رکھتا ہے۔

یہی پہلو کنہیا کمار جب تک جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے صدر رہے یاد دلاتے رہے۔ لیکن جب وہ پی ایچ ڈی کر چکے اور انھوں نے یونیورسٹی جانا ترک کر دیا تو بھارتی صوبے بہار میں ایک عظیم الشان جلسہ کیا جس میں انھوں نے نریندر مودی کے شہریت کے بل پر طویل خطاب کیا اور انھوں نے بتایا کہ نریندر مودی نے جو ملک میں پینتالیس کروڑ گھس بیٹھیے داخل ہونے کا سوانگ رچایا ہے جس میں پہلا ہدف بنگلہ دیشی مسلمان اور افغانستان اور میانمار کے مسلمانوں کو ہدف بنانا مقصود ہے جب کہ یہ سب ملا کے خصوصاً میانمار کے مسلمان چند لاکھ ضرور ہیں۔

اسی کی آڑ میں وہ سیکڑوں سال سے رہتے ہوئے مسلمانوں کو بدیشی ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کنہیا کمار کا یہ عمل پورے ملک میں ایک آگ کی طرح پھیل گیا اور بھارت کے تین شہروں دہلی، لکھنو اور علی گڑھ کے طلبا نے اس پر تحقیق کے بعد ایک نئے حوصلے سے خود کو اٹھانے کی ہمت پیدا کی۔ بقول لکھنو کی ایک طالبہ کے کہ ہم جنگ آزادی لڑنے والوں کے سپوت ہیں۔ ہمیں شرمندگی رہی کہ ہم پچاس سال سے زیادہ عرصے تک غداری کا طوق گردن میں لٹکائے ہوئے تھے۔ جو آر ایس ایس کی طعنہ زنی کا اثر تھا۔ مگر اب ہم نے یہ طوق توڑ ڈالا ہے۔ اور اپنے آنچل کو پرچم بنا لیا ہے۔ خواتین کی بڑی ریلی یوپی کے ہر محلے سے نکل رہی ہے جس میں سیکولر ہندو طلبا بھی ہماری جانفشانی کا احترام کر رہے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے اٹھارہ سو ستاون میں غلام غوث محمد نے جھانسی کی رانی کا دفاع کیا تھا۔

یوپی کے گورنر ادتیہ ناتھ اور وزیر داخلہ امیت شا نے بھارتی پولیس کو خصوصی اختیارات دیے کہ مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر حملہ کرو تاکہ وہ پست ہوجائیں مگر بیک وقت پورے ملک کی چالیس یونیورسٹیوں کے طلبا نے جو مظاہرے کیے ہیں اور ایک ہوکر جس طریقے سے مظاہرے کیے ہیں اس نے حکومتی مشینری کو تار تار کردیا ہے۔ انھوں نے ہمارے گھروں کو چند روز تو توڑ پھوڑ کی بچوں کو مارا لیکن دلی، کانپور، کیرالا، مدراس اور حیدرآباد کے لاکھوں مسلمانوں نے مائنس ٹو ڈگری سینٹی گریڈ میں جو مظاہرے کیے وہ قابل دید تھے۔

دنیا حیران تھی، گارجین، نیویارک ٹائمز اور دنیا کے دیگر اخبارات نے یہ واضح کردیا کہ کشمیر کا بوجھ اب پورا بھارت اٹھائے پھر رہا ہے دلی کی وہ خواتین جو کبھی گھروں سے باہر نہ نکلیں وہ بھی شاہین باغ میں اپنی رضائیوں کو اوڑھے ہوئے اس سردی میں دھرنا دے رہی تھیں اور اب یکم جنوری کے بعد جو دھرنے اور جلوسوں کی نئی لہر آئی ہے یہ پہلے سے بھی زیادہ شدید تر ہے۔ اس میں ہند کی نمایاں شخصیات، شاعر، ادیب، فلمساز، نوبل انعام یافتہ افراد، نریندر مودی کو انعامات واپس کر رہے ہیں۔

بمبئی سے جاوید اختر، شبانہ اعظمی اور ان کے صاحبزادے جلوسوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ ایک عجیب بات جس کا تذکرہ ضروری ہے۔ اگر فیض احمد فیض زندہ ہوتے تو ہند کے شاگردوں کو کسی قدر آشیرباد دیتے جو دلی کی سرزمین پر ہزاروں کی تعداد میں ان کی مزاحمتی نظم کا ورد کر رہے ہیں۔

سب تاج اچھالے جائیں گے

جب تخت گرائے جائیں گے

اور پھر چند مصرعوں کے بعد دلی کی سڑکوں پر جب یہ نغمے بلند ہوئے:

جب ارض خدا کے کعبے سے

سب بت اٹھوائے جائیں گے

ہم اہل صفا، مردودِ حرم

مسند پہ بٹھائے جائیں گے

بس نام رہے گا اللہ کا

جو ظاہر بھی ہے غائب بھی

جو منظر بھی ہے ناظر بھی

اٹھے گا اناالحق کا نعرہ

جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

اور راج کرے گی خلق خدا

جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

جب سڑکوں پر یہ آخری بند زور شور سے سنائی دیے تو انٹیلی جنس کے مقتدر حلقوں نے جا کر یہ پیغام دیا کہ مسلم طلبا بت گرانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ اس پر مسٹر مودی نے طیش میں آکر جواہر لال یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور جامعہ ملیہ کے وی سی کو بلاکر ان کی سرزنش کی کہ آپ کے طلبا فیض کے مسلم نعروں کا ورد کر رہے ہیں۔ اس پر دونوں نے جواب دیا کہ یہ ہمارے بس میں نہیں کہ ان کو روکیں۔ اور نہ ہی اتنے زیادہ طلبا کا ہم نام خارج کرسکتے ہیں۔ فیض صاحب تو دنیا کے بڑے شاعر تھے۔ ہم ان کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کیفی اعظمی، جاوید اختر اور حبیب جالب کی نظم دستور۔ دلی سے دکن تک اور دکن سے لکھنو کی سڑکوں تک خواتین یہ نعرے لگا رہی تھیں۔

کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے

ہم تو خائف نہیں تختۂ دار سے

اور پھر یہ سریلی آواز:

ہم بھی منصور ہیں کہہ دو اغیار سے

اودھ کی گلیوں میں پولیس نے وہ پٹائی کی کہ طالبات اور بچے بھی زخمی ہوئے صرف یہی نہیں بلکہ گھروں میں گھس کر ان کے اسباب توڑے۔ جس کے مقدمات وہاں کی عدالت میں عوام نے دائر کیے ہیں۔ جن کی مالیت ایک کروڑ سے زائد ہے۔ یہ تحریک جس طریقے سے رواں دواں ہے اس سے یہ لگتا ہے کہ یہ تھمنے کی نہیں اور ڈھلتی سردیوں کے ساتھ عروج پکڑتی جائے گی۔

مودی سرکار نے بوکھلاہٹ میں آر ایس ایس کے غنڈوں کو سڑکوں پر نکالا تھا مگر وہ بھلا اتنے بڑے مزاحمتی سیلاب کے سامنے کب ٹھہر پاتے تو انھوں نے ایک نئی حکمت عملی تیار کی کہ فرداً فرداً تحریک کے لیڈروں کو زد و کوب کیا جائے۔ اس طرح ان کی ہمتیں ٹوٹ جائیں گی۔ لہٰذا انھوں نے 4جنوری کو جواہر لال یونیورسٹی دہلی میں گھس کر اساتذہ کی موجودگی میں یونیورسٹی یونین کی نئی صدر آشا پر اسٹکوں اور لاٹھیوں سے حملہ کیا۔ اساتذہ اور طلبا کے منع کرنے پر انھوں نے پوری کلاس اور اساتذہ کو زخمی کردیا۔ یہ "گسٹاپو" عمل ملک کے وزیر اعظم کے اشارے پر جاری ہے جو زوال کی نشانی ہے۔

مجھے اس موقعے پر ایوب خان کے در میں 1968-69 میں چلنے والی اسٹوڈنٹس موومنٹ کی یاد آگئی۔ جب بعض کالجوں میں طلبا یونین کے ساتھ یہی سلوک ہوا کرتے تھے۔ بالآخر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تعلیمی ادارے پانچ ماہ کے لیے بند کردیے گئے۔ پھر بھی تحریک جاری رہی اور دس سالہ دور کا چراغ بجھ گیا۔

مجھے یاد ہے کہ کراچی سینٹرل جیل میں ڈاؤ میڈیکل کالج اور یونیورسٹی کے طلبا جن کا تعلق این ایس ایف سے تھا وہ سب پس زنداں کیے گئے جن میں ڈاکٹر رشید حسن خاں، امیر حیدر کاظمی، طارق فتح اور راقم کے علاوہ پچیس تیس لڑکے اور بھی شامل تھے۔ مگر افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ طارق فتح جو ایک زمانے میں این ایس ایف کا جوائنٹ سیکریٹری تھا۔ رقم کے بوجھ تلے دبا ہوا آر ایس ایس کے گن گا رہا ہے۔ جس کو تمام حلقہ احباب نے تف کا طوق پہنا دیا ہے۔ وہ اس وقت مودی کی وکالت میں جھوٹی سچی کہانیوں کا ورد کر رہا ہے جس سے مودی کی تقدیر تو بدلنے سے رہی۔ لیکن طارق فتح نے خود کو داغدار کردیا اور طلبا تحریک کسی حکومتی آلہ کار سے رکنے کی نہیں۔ بھارتی مسلمانوں سے ماضی کی تین پشتوں کا ریکارڈ طلب کرنے والے خود اپنی سیاسی موت مر جائیں گے۔