یوں تو دسمبر 2019 سے چین میں جنم لیا مگر اس عفریت نما بیماری کو چینی حکمرانوں نے تو نکیل ڈال دی، مگر یہ رفتہ رفتہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔ اس بیماری نے جہاں دیوہیکل انسانوں کو ختم کر ڈالا، وہاں دوسری جانب اس نے ادب نواز اور با ادب لوگوں کو ایک ہی جھٹکے میں خاک نشین کر دیا۔ ان میں خاص طور سے وہ انسان جو جلدکورونا کا شکار ہوئے جو نرم مزاج اورگل وگلشن سے پیار کرتے تھے، ایسے ہی میرے ہم نشیں سرور جاوید اور دوست محمد فیضی جو کراچی یونیورسٹی کے ساتھیوں میں سے تھے۔
ان کوکورونا کی انسان کش ہواؤں نے زندہ نہ چھوڑا۔ دوست محمد فیضی تو سیاسی مشینری کا حصہ بن کر خدمت کرتے رہے مگر سرور جاوید تو 1965 سے شعر و ادب کی سنگت میں وقت گزارتے رہے اور جوں جوں وہ پختہ کار ہوئے ویسے ویسے ان کے ادبی مخزن میں اضافہ ہوتا رہا۔
دو برس قبل کی بات ہے کہ انھوں نے اردوکے شعرا پر ایک نہایت ضخیم کتاب شایع کی جو اردو ادب کے طالب علموں اور اساتذہ کے علمی پہلوؤں کو نئے تنقیدی رجحانات سے آگاہ کرتی ہے، انھوں نے گزشتہ برس مجھے شام کو کراچی پریس کلب بلایا اور اپنی نئی ادبی کتاب " اردو نظم کی عظیم روایت" بطور تحفہ عنایت کی اور اس کے علاوہ انھوں نے مزید کہا کہ کچھ نظموں کے مجموعے بھی شایع کرنے کا ارادہ ہے۔
اس کام میں سال بھر کا وقفہ تو لگ جائے گا۔ میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کی یہ کتاب محفوظ کر لی۔ سرور جاوید یوں تو عموماً نظم کے شاعر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں، لیکن تنقیدی ادب کا یہ نسخہ یقینا قابل تعریف ہے کیونکہ قدیم شعرا پر تو ضخیم کتابیں دانشوروں نے تحریر کی ہیں لیکن اقبال اور جوش کے بعد ترقی پسند شعرا کے کلام پر تنقیدی مواد جو مذاکرے اور مباحثے کے قابل ہو کم ہی موجود ہے۔ آئیے! سرور جاوید کی موجودہ کتاب "اردو نظم کی عظیم روایت" سے اقتباسات دیکھتے چلیں، وہ علامہ اقبال کے متعلق اٹھائیس صفحات پر اپنی تنقیدی آرا میں تحریر کرتے ہیں۔
"یوں مجھے اکثر خیال آتا تھا کہ اقبال دو ہیں۔ ایک وہ جو شاعر مملکت ہے اور دوسرا وہ جو شاعر جمہور ہے۔ اس دوئی کو میں بہت عرصے تک سمجھ نہیں پایا مگر اقبال اپنی دونوں صورتوں میں مجھے اچھے لگے۔"
پھر آگے چل کر لکھتے ہیں :
"مگر وہ اقبال پس پردہ چلا گیا ہے جس کے اشعار اور جس کی نظموں کو پڑھ کر میں اور میری نسل کے ذہین لوگوں نے زندگی میں بڑے آدرشوں کی نوید پائی تھی۔ ہم نے اقبال کو شاعر کی حیثیت میں دیکھا تھا کہ پوری دنیا میں شاعر ہی کسی قوم کا نمایندہ ہوتا ہے اور اسی کے فکر وتخیل سے ہی ہم پوری قوم کے مزاج کا اندازہ لگاتے ہیں۔
اقبال کو شاعر مملکت بنانے تک تو ہمیں شعوری طور پر کوئی اعتراض نہیں تھا، مگر اس کے بعد ان کے شاعرانہ منصب اور ان کی شاعری کو دھندلکوں کی نذرکرکے انھیں محض فلسفی اور سنگلاخ قسم کا دانشور بنانا کسی بھی دل درد مندکو پسند نہیں آسکتا۔ یہی بات تشویش کی ہے جس طرح ادب کے زوال پر ہمیں تشویش ہے۔ اسی طرح اقبال کے کلام سے عام آدمی کو دورکرنے کے رویے پر بھی ہمیں تشویش ہے۔"
یہ خیالات جو انھوں نے اقبال کے متعلق بڑی ہمت سے پیش کیے ہیں۔ بہت سے ادب نواز حلقوں کو پسند نہ آئے اس لیے ان کو کسی بڑی ادبی منزلت پہ فائز نہ ہونے دیا۔ پھر بھی سرور جاوید اپنا ادبی مقام بنا بیٹھے ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب میں یوں تو اکیس شعرا کا تذکرہ کیا ہے جس سے ان کی ادبی علمیت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ یہاں ہم سرورجاوید کے ادبی مقام پر اتنا کہہ سکتے ہیں کہ ادب میں مذکورہ کتاب کا تذکرہ ضرور کیا جائے گا۔ ن۔ م۔ راشد، جوش، مجاز اور جون ایلیا پر جوکلمات سرور جاوید نے پیش کیے ہیں ان ادبی منزلوں تک عام معاصرین کی رسائی نہیں ہے۔
سرور جاوید چونکہ خود بھی شاعر تھے۔ اس لیے وہ عام شعرا پر تبصرہ کرتے ہوئے بڑی احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ جوش صاحب کے متعلق جیساکہ عام روایت ہے لوگ ان کو نظم کا سب سے بلند شاعر سمجھتے ہیں اور ان کے کلام میں ندرت کا دخل ہے۔
سرورجاوید جوش کے بارے میں یوں لکھتے ہیں۔"شاعر کے نظام لفظی یا انتخاب الفاظ کا ماجرا بھی مصوری میں رنگوں کے انتخاب اور مصور کے تصور حسن کی طرح کا ماجرا ہے جیسے چغتائی کی پینٹنگ میں حسن کے پورٹریٹ کی صفت یہ ہے کہ رنگوں کا انتخاب بھی دیگر مصوروں سے مختلف ہے اور سب کے تقابل میں حسن کی عکاسی میں حسن کا تصور بھی مختلف ہے، اسی طرح شاعر اپنے تصور حسن کے مطابق الفاظ، تراکیب لفظی اور اصطلاحات استعمال کرتا ہے۔ جوش کی صفت اس سے آگے ہے کہ وہ تراکیب لفظی اور اصطلاحات خود وضع کرتے ہیں اور لفظ کو اس کے منفرد اشتقاقی معنوں میں اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ وہ صرف اپنے معنوں کا اشاریہ نہیں بنتے بلکہ حسن اور حقیقت کا استعاراتی اظہار بن جاتے ہیں۔"
جوش کے علاوہ سرور جاوید نے آج کے ادبی دورکے حساب سے ن۔ م۔ راشد اور جون ایلیا کا تذکرہ نہایت پراثرانداز میں کیا ہے۔ گوکہ اس دورکے اہم شاعر فیض احمد فیض کو دانستہ گفتگو میں شامل نہیں کر رہا کیونکہ ان کا کلام ہر خاص و عام تک پہنچ چکا ہے، جب کہ لوگ ن۔ م راشد سن 50 کی دہائی کے اہم شاعر ہونے کے باوجود ابھی تک ان کی ندرت کلام سے ناواقف ہیں، مگر سرور جاوید نے ن۔ م راشد کو اپنی گفتگو کا محور بنایا ہے۔
بقول سرور جاوید "ن۔ م راشد کی شاعری کی مقبولیت میرا جی کی طرح چونکا دینے والے موضوعات اور جنس کو موضوع بنانے سے نہیں ہوئی بلکہ ان کی شاعری میں ایک نامانوس مگر خوبصورت تکلم سے ترتیب پائی ہوئی ایک فضا نظر آتی ہے جسے اس کے قریب ترین اظہارکے لیے میں طلسماتی اور اساطیری فضا سے تعبیر کرتا ہوں اور میری رائے میں یہی طلسماتی اور اساطیری فضا راشد کی شاعری کو اور اس کی مقبولیت کا راز جاننے کے لیے اسم اعظم کی حیثیت رکھتی ہے۔"
سرور جاوید نے اس دورکے مقبول شاعر جون ایلیا کا تذکرہ بھی اپنے انداز میں کیا ہے اور ان کے کلام کی مقبولیت کا راز فاش کرنے کے لیے ان کے خفیہ ٹھکانوں کو عوام کے سامنے پیش کیا ہے جیسے کہ وہ کوئلے کی کھدائی پر مزدوروں کو لے گئے اور وہاں ہیرے کی کانیں دریافت ہوگئیں۔ جون ایلیا کے انوکھے انداز جن کی نشاندہی سرور جاوید نے کی۔
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
سرور جاوید کی مایہ ناز کتاب آنے کے بعد جون ایلیا کے کلام پر کھوج شروع ہوگئی، گویا جون ایلیا کی نئی مقبولیت میں اس کتاب کا بھی حصہ ہے۔ آج کل تنقیدی اور ادبی محفلیں تو "کورونا" نے ڈس لیں۔ مگر اخبارات کے گرد و نواح کے علاوہ کوچہ بہ کوچہ گفتگوکے علاوہ ان کی شخصیت میں نئی صدی کے آدم دوست انٹرنیٹ نے بھی جون ایلیا کی مقبولیت کو باد نسیم کی طرح پھیلا دیا لیکن اس کے خد وخال میں وہی اندازگفتگو ہے اور وہی موضوعات ہیں جو اس کتاب میں پیش کیے گئے ہیں۔
معلوم ہوتا ہے اس صدی کے شعرا کو انھی خطوط پر شہرت دوام ملتی رہے گی۔ کم ازکم ادب کی سرزمین میں اگر کسی کو انصاف نہ ملا تو اس کا دائرہ اب محض قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی ہوچکا ہے۔ کوئی بڑا شاعر و ادیب تاریک راہوں میں گم نہ ہوگا۔
جیساکہ ماضی میں کھوجایا کرتے تھے وہ دن بھی دور نہیں کہ ایک شب یہ خبر ملی کہ سرور کوچ کرگئے مگر وہ دن بھی دور نہیں کہ سرور کی گمنامی کتب کی زبانی اور انھی کے دوش پر بیٹھ کر پھر محفلوں کی زینت بنے گی۔ کیونکہ سرور جاوید گزشتہ کئی برس سے کراچی میں کشمیر روڈ کے ہال میں ہر ماہ ادبی محفلیں برپا کرتے تھے۔ جہاں نوجوان شعرا نظم و نثر پیش کیا کرتے تھے۔ پھر تنقیدی نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ ادب تو وہ سرزمین ہے کہ مرزا غالب نے اپنے کم سن بچے کی موت پر جو شعر کہا وہ دیوان در دیوان پر حاوی ہے۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
مانا کہ یہ باد سموم کورونا جو لوگوں کے ساتھ ساتھ شعرا اور دیگر دانشوروں پر حاوی ہے اسپینش فلو کی طرح غائب ہوجائے گی انسانی شخصیت کا تجزیہ کرتے ہوئے کسی ادبی محفل میں یہ کہہ رہے ہوں گے کہ انسان کو دیکھنے کے کئی زاویے ہیں۔ محض ایک جھلک دیکھ کر شکل و صورت کا فیصلہ نہیں کرتے بلکہ قدم بہ قدم ملا کر چلنے کے بعد شخصیت سامنے آتی ہے ان کا یہ کہنا ہے کہ:
اسے قریب سے دیکھا تو دل نے یہ جانا
یہ شخص دور سے اچھا دکھائی دیتا ہے