Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Dunya Thehar Gayi

Dunya Thehar Gayi

گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ شور برپا تھا کہ مشینی آلات اور انڈسٹریل ڈیولپمنٹ اس منزل پر پہنچ گیا ہے کہ درجہ حرارت نے قطب شمالی کی چٹانوں میں دراڑیں ڈال دی ہیں اور وہاں کے بسنے والے ریچھ سمندر میں ڈوب رہے ہیں۔ ان کی نسلیں زمین اور آسمان پر تیل سے چلنے والے بری اور ہوائی جہاز، فیکٹریوں سے اٹھنے والے دھوئیں اور آلودہ پانی سمندری حیات کو نابود کر رہے ہیں۔

چھوٹی چھوٹی انسانی انجمنیں اس پر احتجاج بھی کر رہی تھیں لیکن دنیا کے ترقی یافتہ ترین ملک نے اس کی پروا نہ کی گوکہ بعض ممالک کی طرف سے خیر کی آوازیں اٹھتی رہیں مگر ان ممالک کو کیا فکر تھی جو چھوٹے ملکوں کو قحط زدہ کر رہے تھے اور انسانی جانوں کو نابود کرنے کے لیے مہلک ترین ہتھیار بنا رہے تھے۔ زمین سے مریخ تک پہنچنے کی بھرپورتیاری تھی لیکن انسان میں طبقات کی تقسیم زور شور سے جاری تھی۔

1960 کی ابتدا میں کامرس کا مضمون دنیا کے تقریباً تمام کالجوں میں پھیل گیا اور سن 2000 کی ابتدا میں کمپیوٹر کی تیاری کے بعد یہ تگ و دو شروع کردی کہ وہ روشنی کی رفتار کے مساوی اڑن طشتریاں بنانے میں کامیاب ہوجائے۔ اور بغیر جنگ کیے ہوئے تیسری دنیا کے ممالک اور لوگ ان کے محکوم ہوجائیں گے انٹرنیٹ کی آمد کے بعد معاشیات اور تجارتی مضامین نے اپنا ایسا سکہ جمالیا کہ سائنسی علوم کے پڑھنے والے کم رہ گئے۔

ادب، فلسفہ اور تہذیب و تمدن کے دروازے بند ہوتے گئے۔ ذی شعور لوگوں کے کہنے پر بھی آلودگی میں کمی نہیں ہوئی۔ بلکہ بڑھتی گئی۔ بالآخر قدرت نے ایک انجان سے ان دیکھے وائرس نوول کورونا کو طیاروں کی پشت پر بٹھا کر Covid-19 کو عالم گیر کردیا۔ جو جتنا بڑا شہر تھا جہاں روشنی کے بہت بڑے روشن دان تھے ہاں اتنا ہی بڑا لاک ڈاؤن ہے۔ روشنی کے شہروں میں جانور اور پرندے بے خوف آگے بڑھ رہے ہیں۔

برطانیہ کے شہر ویلش میں پہاڑی بکرے اور بھیڑیں یہ گیت گا رہے ہیں کہ بولو بابا بلیک شیپ ہیو یو اینی وول۔ اور بمبئی کی بلند و بالا عمارتوں پر مور رقص کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سمندری اور دریائی مخلوق بھی دریا سے خشکی پر آنے کو تیار ہیں۔ انسان کے مظالم جانوروں اور بے زبانوں پر اس قدر بڑھ گئے کہ وہ حشرات کو بھی کھانے لگے۔ آخر کار انسان کو محدود اور محبوس ہونا ہی تھا۔ اسے منفی راستوں کو چھوڑ کر مثبت راستوں کو اختیار کرنا پڑے گا۔

سیارگان کے سفر سے قبل انسانیت کا وہ درس جو پیغمبروں نے دیا ہے اور انسان دوست لیڈروں نے، ان کو اختیار کرنا ہی ہوگا۔ اب اقوام متحدہ کو ان پانچ ممالک کی پنج شیلا کو توڑ کر کوئی نہیں شیلا جو ہر ملک کو پسند آئے بنانا ہوگی۔ ہر اس ملک کو رکن بنانا ہوگا۔ جس کی آبادی دس کروڑ سے زائد ہے اور وہ اصول پسندی پہ گامزن ہے۔ زر کی تقسیم اصلی لڑائی کا موجب ہے۔ اس لیے کہیں کہیں کبھی کبھی عالم پہ مذاہب عالم کے ساتھ ساتھ بقول علامہ اقبال کہ مارکس پیغمبر نہ تھا لیکن اپنی کتاب میں ایسا درس دے گیا جس سے گراں قدر چینی سنبھل گئے۔

لیکن چین کے شہر ووہان میں پہلا بڑا روایتی حملہ ہوا کہ تلے اوپر سڑکوں اور پلوں سے زندگی بہتر نہیں ہوتی بلکہ ملک کے ہر مذہب اور روایت پرست کو ان کی آزادی دینا ضروری ہے۔

ایک زمانہ تھا جب چو این لائی چین کے وزیر اعظم تھے۔ لیوشاؤچی صدر تھے اور ماؤزے تنگ تو رہبر اعظم کے لقب سے پکارے جاتے تھے۔ ان دنوں چین کے ہر صوبے میں روایتی آزادی تھی۔ یہاں تک کہ 1955 کے ابتدائی دنوں میں سنک یانگ سے بچوں کی اردو کہانیاں چھپا کرتی تھیں جن میں ملا نصیرالدین کی بچوں کے لیے سبق آموز لطف انگیز کہانیاں برسہا برس تک چھپتی رہیں۔

راقم نے بھی ملا نصیرالدین کی چند کہانیاں سن 50 کی دہائی میں غالباً یہ 56 کا دور تھا۔ یہ وقت ان کہانیوں کے دہرانے کا نہیں البتہ یہ بتانے کا ہے کہ چین میں مائوزے تنگ بھی اور چو این لائی اور ان کی کابینہ سائیکلوں پر اپنے دفتر جایا کرتی تھی۔ مساوات، علم و ہنر پر ہر شخص کے لیے کھلے دروازوں نے آج چین کو ترقی یافتہ قوموں میں سے ایک بنادیا مگر ان سے کیا سیاسی یا سماجی غلطی سرزد ہوگئی کہ لوگوں کی مدد کے باوجود ان کے ایک ترقی یافتہ شہر ووہان میں ایک ایسا وائرس آیا کہ جو انسان کی جانوں کو یکایک مردہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

لیکن شاباش ہے وہاں کے حکمرانوں کو جنھوں نے اپنے روایتی علاج اور جدید ادویات سے اس نادیدہ وائرس کو ملک بدر کردیا اگر تھوڑے سے تخیل کو بروئے کار لایا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ قدرت نے انسانوں پر ہونے والی زیادتیوں کے مقابلے میں اچھائیوں اور ہمدردی کو بالادست قرار دیا اور وہاں سے دیگر ترقی یافتہ مشینی آلات سے مربوط اور مضبوط اقوام کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا۔

دنیا کی چھوٹی چھوٹی عوامی تنظیمیں یہ کہتی رہیں کہ روٹی، کپڑا اور مکان، علاج معالجہ ہر شخص کا بنیادی حق ہے مگر ترقی یافتہ اقوام نے سرمائے کو افضل جانا۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ کرنسی کسی بڑے بحران یا آفت کے نتیجے میں بے جان ہوسکتی ہے۔ اس کی قدر و قیمت بھی گھٹ سکتی ہے۔ جیساکہ میں نے گزشتہ مضمون میں یہ تحریر کیا تھا کہ اگر ترقی کی رفتار تیز تر ہوتی چلی گئی تو پھر ایسی ایجادیں دنیا میں آئیں گی کہ پھر ہر گھر میں ایسی ٹیلی فون نما مشینیں نصب ہو جائیں گی جس سے کرنسی اے ٹی ایم مشین کی طرح باہر آجائے گی اور بینکوں کے ملازم ان مشینوں کو نصب کرنے پر مامور ہوجائیں گے۔

مگر انسان کی فطرت میں نوآبادیاتی نظام کی بالادستی سرشت رچی بسی ہے۔ وہ اگر اپنی ان روشوں سے باز نہ آیا تو میں جو مادہ پرستوں کا بھی کسی حد تک حامی رہا ہوں یہ کہنے پر مجبور ہوں شاید یہ تخیل کی سب سے نیچی پرواز ہے کہ ایسا وائرس جو اس وقت موجود ہے اس کو بل گیٹ کا ویکسین بھی ختم کرنے میں ناکارہ ہے۔ مگر جانور اور پرندے اپنی کمیں گاہوں سے باہر آرہے۔

ہمارے شہر کراچی کی بات ہے کہ بعض لوگوں نے جن کے بہت بڑے گھر ہیں۔ انھوں نے تفریحاً مور بھی پال رکھے ہیں۔ اب یہ مور انسانوں کے بنائے ہوئے پارک میں گشت کر رہے ہیں۔ ڈریے اس وقت سے خصوصاً ان حکومتوں سے کہہ رہا ہوں جنھوں نے ناکہ بندی کرکے ایک ملک کو مردہ خانے میں تبدیل کردیا۔ اس وائرس کے نتیجے میں چھوٹی موٹی جنگیں بھی بند ہوگئیں۔ اب وہ وقت قریب آگیا ہے کہ وہ ممالک اسلحہ بیچ کر اپنی معیشت کو مضبوط کرتے تھے اور انسانوں کو کیڑا سمجھ کر انھیں نیست و نابود کرتے تھے۔

انھیں اپنی تہذیب و تمدن میں انصاف، انسانی برادری کو مضبوط اور محفوظ کرنا ہوگا۔ طاقت کا سرچشمہ دولت نہیں اور نہ ہی اسلحہ جات ہوں گے۔ انسان صرف انسانی ترقی کے لیے کوشاں ہوگا۔ تب جاکے کہیں وہ روشنی کی رفتار جیسے آلات تخلیق کرسکے گا۔ انسان کو نہ صرف انسانوں کے حقوق، جانوروں کے حقوق اور جنگلوں کے حقوق کا احترام کرنا ہوگا بلکہ اس بات پر یقین کرنا ہوگا کہ پیغمبران عالم اور اولیا کرام جو دنیا کو فانی کہہ چکے ہیں یہ انسانی ہوس ملک گیری یا زرپرستی کے نتیجے میں خود اپنی تجربہ گاہوں میں ایسے نفوس کو ایجاد کرے گی جو انسانوں کی ملک گیری کے عوض دنیا کو برباد کرسکتا ہو۔ یہ خبر گرم ہے کہ انسان غلبے کے لیے انسانی روبوٹ تیار کر رہا ہے جو کسی مشینی غفلت سے ہر طرف موت کو بکھیر سکتا ہے۔ ایسے موقع پر میر انیس کا یہ شعر یاد آرہا ہے:

انیس دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ

چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے

یہ ایجادیں قدرتی روز و شب کے سامنے واقعی ایسی ہی ہیں جیسے کہ انسان ہوا کے سامنے چراغ لے کے چل رہا ہو۔ اب اور کیا رہ گیا ہے۔ دنیا ٹھہر چکی ہے۔ یہ سکوت کتنے دنوں کا ہے کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔