ایک زمانہ تھا کہ فاصلے مایوسی اور خوف کی علامت بن کر معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھے۔ ادبی کہانیاں اور فلمیں بھی عام طور پر انھی موضوعات پر تماش بینوں کو کچھ دیر کے لیے سکون فراہم کرتی تھیں۔
تقسیم ہند سے قبل جب پہلی مرتبہ اردو زبان میں بولتی فلموں کا آغاز ہوا تو ان میں مرکزی کردار محبوب کا یہی ہوا کرتا تھا کہ وہ دور دراز کے سفر پر چلا جاتا تھا اور خیر خیریت کے ذرایع بھی بڑے محدود ہوا کرتے تھے۔ بیرون ملک جانا اور اہل خانہ سے بچھڑنا ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھا۔ مگر انسانی ترقی اور فاصلوں کو کم کرنے والے طیاروں کی پرواز نے جہاں جنگ عظیم دوم میں عوام پر بم برسائے وہاں دوسری جانب مہینوں کا فاصلہ دنیا بھر میں گھنٹوں میں تبدیل کردیا۔ جس سے انسانی تہذیب کو ایک ٹھہراؤ اور سکون نصیب ہوا۔
جنگ عظیم دوم کے اختتام اور جاپان پر ایٹمی حملے کی نوحہ خوانی کے بعد اقوام متحدہ کا قیام بھی دنیا کے لیے ایک حسین پیغام سے کم نہ تھا۔ دنیا بھر کے لیڈروں نے اس بھیانک جنگ کے بعد بہت سے نئے اسباق کے نتائج سے استفادہ کیا اور امن سے رہنے کی اہمیت کو اجاگر کیا مگر پھر بھی ترقی یافتہ ممالک کی خصوصاً سرمایہ دارانہ سوچ نے دنیا کو نظریاتی طور پر تقسیم کردیا اور اقوام متحدہ کے وجود میں آنے کے ساتھ ساتھ دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوتی چلی گئی۔
خصوصاً سرمایہ دارانہ سوچ نے غلبہ کے نت نئے طریقوں اور اجارہ داری اور نو آبادیاتی سوچ کو جنم دیا جس کی مزاحمت نے اس نظام کے خلاف مزاحمت کی ایک نئی لہر پیدا کردی۔ نئے آزاد اور خودمختار ممالک اسی جنگ عظیم دوم کے بعد نمایاں نظر آتے ہیں۔
عوامی جمہوریہ چین اور بہت سے آزاد ممالک اسی عہد کے قرب و جوار کی علامتیں ہیں۔ قیام پاکستان اور آزاد بھارت بھی اسی عہد میں تاریخ کے صفحات پر نمایاں ہوئے۔ گویا نوآبادیاتی نظام کو اسی دور میں شکست ہوئی اور جو ممالک نوآبادیاں بنایا کرتے تھے وہ بھیس بدل کر نوآبادیاں بنانے پر مجبور ہوئے اور اپنی سابق نو آبادیوں کے لیڈروں سے بعض خفیہ شرائط پر رسم و راہ رکھنے پر مجبور ہوئے۔ اسی دور میں نظریاتی کشمکش کے سائنسی سوچ کے نئے دروازے بھی کھول دیے۔
ایک طرف نیٹو اور دوسری طرف معاہدہ وارسا کے لیڈران جس کی قیادت سوویت یونین کر رہا تھا نئی تہذیب کے رسم و رواج جنم لیتے رہے۔ اسی دوران کبھی کبھی ایسا بھی وقت آیا کہ لگا کہ دنیا ایٹمی تصادم کی لپیٹ میں آجائے گی مگر تدبر نے عالمی لیڈروں کو خصوصاً امریکا اور روس کے رہنماؤں کو انسانی ترقی یافتہ تہذیب کو مٹانے سے بچا لیا۔ مگر نظریاتی جنگ کی کشمکش اپنا سفر طے کرتی رہی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایجادات نت نئے دور میں داخل ہوتی رہیں۔ یہاں تک کہ سفر کے طویل راستے وقت کو مختصر کرتے رہے۔
بیسویں صدی میں کمپیوٹر نے پوری دنیا کو ایک نئی دنیا کی شکل میں تبدیل کردیا۔ راستے اس قدر مختصر ہوگئے کہ پرانی تہذیب اور دوریاں ماضی کی کہانی بن کر رہ گئے۔ ان دوریوں کو مٹانے میں محض سیاستدانوں کا کردار نہیں ہے بلکہ دنیا کو تمدن سے آشنا کرنے کے لیے پیغمبران وقت کا بھی شیطانی کردار مٹانے میں بہت بڑا حصہ ہے۔ حضرت موسیٰؑ سے مارکس تک انسانی تہذیب نکھرتی اور بکھرتی رہی ہے اس میں محض سائنسدانوں کا اور سرمایہ داروں کے علاوہ مفکروں اور شاعروں کا بھی بہت اہم رول ہے۔ جو انسانی تہذیب کو بد سے بہتر رخ پر لانے میں کارل مارکس کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جس کا اعتراف شاعر مشرق اور مفکران تہذیب مسلم کے رہنما علامہ اقبال کے بقول جو یہ فرماتے ہیں :
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب
اس مصرع کی مزید وضاحت اس وقت عملی طور پر دیکھنے میں آئی جب علامہ طاہر القادری نے اپنا پہلا احتجاج اسلام آباد میں عمران خان کے ساتھ شروع کیا تھا۔ جس میں انھوں نے پسماندہ طبقات کی بحالی کی للکار سنائی تھی جس میں روشنی، لاؤڈ اسپیکر اور اخبارات کا بھی نمایاں کردار یہ گواہی دے رہا تھا کہ تہذیب طوفان نوحؑ کے بعد اتنی مضبوط ہوچکی ہے کہ دنیا کے ایک کونے کی آواز دوسرے کونے تک سنی جاسکتی ہے۔ پھر اجتماعی تہذیب اور تمدن کا پہیہ انٹرنیٹ تک پہنچ گیا۔ پھر وہ وقت بھی آگیاجس میں احتجاج کے علاوہ احساسات اور جذبات کی آوازیں ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک فجر کے وقت چہکتے اور رات کے وقت پوری رات بسیرا کرتے پرندوں کی ملی جلی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ گویا انسان تہذیب کے گھروندوں میں رہائش پذیر ہوگیا۔ اب محبوب کی آہ و زاریاں بھی بند ہوگئیں۔
جیا بے قرار ہے چھائی بہار ہے آجا میرے بالما تیرا انتظار ہے
سورج دیکھے چندا دیکھے سب دیکھیں ہم ترسیں
ایک ایسا دور تھا جب بقول غالب، اسی قریبی وقت کی ایک اور تصویر دیکھیے:
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
یہ فاصلوں کی ایک نئی شکل تھی مگر کمال کیا ایک سائنسی ایجاد نے کہ اب سات پردوں میں رہ کر بھی محبوب محو گفتگو ہے۔ تہذیب و تمدن کے ہزاروں پختہ اور بلند و بالا عمارتوں کے موجود ہونے کے باوجود بے پردہ کرنے میں انٹرنیٹ نے تو کمال ہی کر دکھایا۔ اب لفافوں کی تعداد بقول کتب فروشوں کے نصف سے بھی کم رہ گئی ہے۔ اور جب انیسویں صدی کے اوائل میں ڈاکخانوں میں رکھی ہوئی رقم نکلوانے میں تصدیق کے باوجود نشان انگوٹھا لگایا جاتا تھا تب کہیں گھنٹوں کے بعد اپنی مطلوبہ رقوم ملا کرتی تھیں۔ مگر اب نہ دستخط کی ضرورت ہے نہ نشان انگوٹھا۔ اب بینکوں سے رقوم مشینوں کے بٹنوں کو چھو کر فراہم ہو جاتی ہیں۔
ہر بڑھتے وقت گھٹتے فاصلوں کی تعریف کر رہے ہیں اور اب غالباً وہ وقت دور نہیں کہ ایسے ٹیلیفونک آلات سامنے آجائیں جن کو گھروں میں نصب کردیا جائے تو رقوم براہ راست گھروں ہی میں نکل سکتی ہوں۔ ایسی ایجادات سے بہت سوں کی پرانی نوکریاں ختم ہوکر نئے تمدن کی مشینیں، نئے روزگار فراہم کرنے لگیں گی۔ اکنامکس کے نظریات میں اتنی بڑی تبدیلیاں آسکتی ہیں کہ نصاب کا نصاب ہی بدل دیا جائے اور لوگ نئی ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کریں جیسے آج کل پرندوں کی چہچہاہٹ والی اور تصور کی لکیروں والی چینی زبان کی تعلیم میں لوگ مصروف ہیں۔
گویا بند تہذیبیں اور دیوار چین کی رکاوٹیں محض عجائبات کی تعریف کے علاوہ کچھ اور نہ رہیں۔ مگر ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ اقوام میں چھپی ہوئی بالادستی کی خواہش قدم بہ قدم ساتھ چلتی رہی مہلک امراض کو نابود کرنے کے بعد اسی انسان نے ان بیماریوں کی روح کو جرثوموں کی شکل میں مقید کردیا مگر نابود نہ کیا کہ وہ دوسرے کو مغلوب کرکے ان پر حکومت کرے گا۔ ان کے دنیاوی وسائل کو خود استعمال کرے گا۔ ہم نے تاریخ کے صفحات پر یہ بھی لکھا دیکھا ہے کہ جب ریڈ انڈین اور سفید فام کے درمیان بالادستی کی جنگ جاری تھی تو غریب ریڈ انڈین کو سفید فام بالادستوں نے چیچک کے جراثیم والی پوشاکیں تحفے میں دیں۔
آج اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق جراثیمی جنگ کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے۔ مگر انسان کی ہوس ملک گیری کو کیا کہیے کہ فاصلے تو کم ہو گئے کثیر تعداد میں لوگوں کو آسودگی تو مل گئی مگر ہمیں کیا معلوم کہ سات پردوں میں چھپا تحقیقی مرکز کے اندر وائرس اور انسانی تہذیب کے دشمن اجزا حیاتیاتی شکل اور مشینی اشکال کی تیاری جاری ہے۔ جس کا عندیہ ماہ دسمبر کے اختتام پر مسٹر پوتن کا یہ بیان کہ امریکا نے کیمیائی جنگ کے ہتھیار ان کی مغربی سرحدوں کے قریب لا کھڑا کیے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسان جہاں ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہے وہ بظاہر بہت اہم اور انسانی آسودگی کا مظہر ہیں۔
وہیں ایسا لگتا ہے کہ ان کی کاوشوں کے پیچھے فتور کا ایک بہت بڑا سمندر ہے جو دوسروں پر غلبہ پانے کے لیے کسی وقت بھی ان بند دروازوں کو توڑ سکتا ہے۔ اور ترقی یافتہ تہذیب بقول علامہ اقبال کے اپنے ہی خنجر سے خودکشی کرسکتی ہے۔ دوسرا خدشہ خود انسان کی اپنی تخلیق ہے جس میں غفلت کا پہلو پوشیدہ ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنی ہی تجربہ گاہ کے بعض دروازوں کو بند کرنا بھول سکتا ہے یا بداحتیاطی ممکن ہے جس سے انسانی تہذیب کے تمام پہلو نابود ہو سکتے ہیں۔ فی الحال تو اس قسم کے تصوراتی پہلو جدید انگلش فلموں کا کردار ہیں۔ مگر یہ کہنا بعیدازقیاس نہیں کہ انسانی تہذیب خود موت کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اس میں دائیں اور بائیں بازو کا کوئی فریق سانس نہیں لے رہا ہوگا۔ موجودہ نوول کورونا وائرس اسی خدشے کا ایک نمونہ ہے۔
فی الحال روس اور امریکا دونوں ہی آلودگی میں غرق اس دنیا کو آلودگی سے نکالنے میں کوشاں ہیں اور مستقبل میں اقوام متحدہ کو نئے قوانین وضع کرنے کی ضرورت ہے۔