اب تک جتنے نظام ہائے زندگی دنیا میں آئے۔ ان میں جمہوریت کو کامیاب ترین نظام سمجھا جاتا ہے۔ اور عموماً لوگ اسی نظام کی مدح سرائی میں مصروف رہتے ہیں۔ مگر جہاں جہاں یہ نظام نافذ العمل ہے وہاں اس کے کامل ثمرات حاصل نہیں ہو پاتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت میں ریل کی پٹڑی کی طرح سیدھی چلتی رہتی ہے اور اس میں کوئی تنوع پیدا نہیں ہوتا تو لوگ اس کی یکسوئی سے کنارہ کشی کرتے جاتے ہیں۔ اور انتخابات کا ٹرن اوور زوال پذیر ہوتا جاتا ہے۔
خود ہمارے ملک میں جو جمہوری ٹرن اوور ہے وہ چالیس فیصد کے قریب تر ہے اور بھارت میں یہ ٹرن اوور تینتیس فیصد رہ گیا ہے گویا ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی کا ٹرن اوور جس پر نریندر مودی کو ناز ہے وہ تینتیس کروڑ بھی نہیں۔ پھر بھی اس نے اپنے زعم میں بھارت کی شکل بدلنی چاہی۔ جس کے نتیجے میں وہاں اضطراب کا ایک ہجوم کھڑا ہوگیا جس نے نام نہاد جمہوری لیڈر کی راہ کو مسدود کرکے رکھ دیا اور اب اسے ہم پیچھے ہٹتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ یہ بھارتی مسلمان ہی تھے۔
جنھوں نے پاکستان کا تصور پیش کیا تھا دلی اور لکھنو میں قائد اعظم محمد علی جناح کے جلسے ہوتے تھے اور راجہ صاحب آف محمود آباد، نوابزادہ لیاقت علی خان اور چوہدری خلیق الزماں اور دیگر ان کے ہم رکاب ہوتے تھے۔
مگر افسوس کہ جناح صاحب کو قدرت نے مہلت نہ دی اور وہ پاکستان کو اپنی تصوراتی منزلوں تک پہنچا نہ سکے اور آج ملک معاشی طور پر اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ اپنی تیار کردہ فارن پالیسی پر آزادانہ فیصلے کرنے کی قوت سے عاری ہے۔ دنیا بھر کے غیر ملکی اخبارات نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر یہ خبریں شایع کی تھیں کہ ہمارے وزیر اعظم عمران خان کی سائیڈ لائن پر ترک اور ملائیشیا کے وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی۔ جس پر مہاتیر محمد نے یہ تصور کرلیا کہ مسلمانوں کے سیاسی مقاصد کے لیے ایک نئے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے۔
جو ماضی میں معمر قذافی اور ذوالفقار علی بھٹو نے سوچا تھا۔ مگر مغرب کی چالبازیوں سے دونوں کو بے موت مار دیا گیا۔ لہٰذا مہاتیر محمد نے اس نئے پلیٹ فارم کی بنیاد رکھی۔ جس کی بدولت بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پر سیاسی دباؤ بڑھایا گیا اور مہاتیر محمد نے ملائیشیا کے اس پلیٹ فارم سے بھارتی مسلمانوں کی حق تلفی کے خلاف بھرپور آواز بلند کی جس کے نتیجے میں نریندر مودی کو مجبوراً یہ کہنا پڑا کہ مہاتیر محمد غیر ملکی معاملات میں مداخلت بند کریں۔ جب کہ عرب ریاستیں اپنے ملک میں بھارتی حکمرانوں کی خوشنودی کو پروان چڑھانے میں مصروف رہتی تھیں۔
مگر موجودہ بھارتی شہریت کے بل پر انھیں بھی اشک شوئی کرنی پڑی اور انھوں نے بھی موجودہ قرارداد پر منفی ردعمل کا اظہار کیا۔ گویا او آئی سی اور ملائیشین پلیٹ فارم کے تقابل کے نتیجے میں مسلمانوں کے حقوق کے لیے آوازیں بڑھتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
چونکہ پاکستان ملائیشیا میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت نہ کرسکا تو اس پر پاکستان کی وزارت خارجہ کے ابہام کے نتیجے میں ملک بھر میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں جس پر وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنی جانب سے ایک وضاحتی بیان اخبارات کو دیا جس کا متن یہ تھا کہ اس میں وزارت خارجہ کی کوئی غلطی نہیں بلکہ وزیر اعظم نے خود وزارت خارجہ کے ذریعے کانفرنس کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی ہوم ورک کرنے کے لیے نہیں کہا تھا۔ بلکہ وزیر خارجہ بھی اکثر اوقات ان سے ہوم ورک کرائے بغیر ہی اپنے عمل میں مصروف رہتے ہیں۔
گویا یہ ایک ہی ادارے میں تصادم کی ایک شکل ہے۔ جب کہ آئے دن مقامی اخبارات میں یہ خبریں شایع ہوتی رہتی ہیں جب کہ اداروں کے درمیان تصادم ملک کے لیے موزوں نہیں۔ جہاں تک کوالالمپور کانفرنس میں شرکت کا معاملہ ہے اس پر تو ملکی سطح پر کوئی بیان نہ آیا مگر لوگوں کے تصورات کو مدھم کرنے کے لیے ایک بیان شاہ سلمان کی جانب سے آیا کہ پاکستان کی کوالالمپور کانفرنس میں عدم شرکت کسی سعودی دباؤ کے تحت نہیں۔ ایسی متنازع صورتحال کا پیدا ہونا جس میں ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردوان کے بیان کی نفی ہوتی ہو یہ کوئی سیاسی طور پر موزوں صورتحال نہیں۔ اس طرح شرق اوسط میں پاکستان کی اہمیت کو دھچکا لگتا ہے۔
اور دونوں ممالک پاکستان کو ہی اس صورتحال کا مورد الزام ٹھہرا سکتے ہیں۔ بہر صورت اگر غور کیا جائے تو پاکستان جن منزلوں سے گزر رہا ہے تو تمام بڑے ادارے وہاں ایک دوسرے کے مخالف نظر آتے ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف کی سزا کے فیصلے پر سابق صدر کی حمایت اور مخالفت میں اداروں کے درمیان تصادم نے جو شکل اختیار کی اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں پر یہ ادارے غیر مربوط ہیں اور یہاں کی قیادت کوتاہ نظری کا شکار ہے اور باہم رابطوں کا فقدان بھی جو ایک دوسرے سے میڈیا کے ذریعے گفت و شنید کرتے ہیں۔
مگر یہ تو صرف ملکی اداروں کے مابین غلط فہمیوں کی وجہ سے صورتحال پیدا ہوئی ہے جو جلد ہی معمول پر آجائے گی۔ مگر بیرونی معاملات پر ابہام یا متصادم آرا ملکی مفاد کے لیے کسی طرح بھی موزوں نہیں کہ دنیا کا ہر ملک اپنے لحاظ سے واقعات اور حالات کا مطلب نکالے جس کے نتیجے میں پاکستان کے تعلقات کا بیرونی دنیا میں منفی اثر پڑ سکتا ہے لہٰذا وزارت خارجہ کا قلمدان نہایت مربوط اور منظم ہونے کی ضرورت ہے جوکہ گزشتہ پندرہ برسوں سے غیر مربوط ہے۔ اس کی وجہ سے بھارت کی ہٹ دھرمی میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔
پاکستان کو ایک طرف تو اقتصادی صورتحال کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے دوسرے ان غیر مربوط معاملات کی وجہ سے بیرونی دنیا کے انوسٹمنٹ کے معاملات بھی متاثر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ملائیشیا کی طرف سے کار کا پلانٹ لگانے کا معاہدہ بقول وزیر اعظم کے ابھی تک قائم ہے۔
اگر صورتحال مناسب ہوتی تو وزیر اعظم کو اس پر بیان دینے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ لہٰذا پاکستان کو اپنی اقتصادی صورتحال بہتر کرنے کے لیے خارجہ و داخلہ پالیسی کو مربوط اور منظم کرنے کی اشد ضرورت ہے جب کہ دفتر خارجہ کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان کے خارجی معاملات پر نہ دفتر خارجہ کو کوئی بریفنگ دی جاتی ہے اور نہ ہی ہوم ورک کے لیے اکابرین دفتر خارجہ سے مشورہ کرتے ہیں۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ وہ تمام تر توجہ امدادی سرگرمیوں پر ہی صرف کرتا ہے جب کہ قرضوں سے اقتصادی صورتحال مضبوط ہونے کے بجائے کمزور تر ہوتی چلی جاتی ہے۔
حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ ملائیشیا جیسے ترقی یافتہ ممالک کے حکمرانوں سے نہ صرف مراسم بڑھائیں بلکہ ترقی کے راستوں کا چناؤ کرنے کے لیے ان حکمرانوں سے رائے مشورہ کا دروازہ ہر وقت کھلا رکھیں اور عوامی رابطے کے لیے ثقافتی، سائنسی اور ادبی رابطوں کا سلسلہ بحال کریں۔ نئی نسل کو محض مڈل ایسٹ میں ملازمتوں کے لیے بھیجنا تو ایک اچھا عمل ہے مگر یہ کوئی دیرپا اور مستقل عمل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان میں حکمرانوں نے خود انحصاری کی راہ پر گامزن ہونے کا درس نہیں دیا۔ اسی لیے پاکستان بڑے معاشی بوجھ تلے دبا جا رہا ہے۔
اور ایسے ممالک جو معاشی خود انحصاری کی راہ پر نہ چل رہے ہوں وہ اپنی آزاد خارجہ پالیسی کو بھی جاری نہیں رکھ سکتے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ یہاں پر سبز انقلاب کا آغاز کیا جائے۔ بے زمین کسانوں کو زمین، ٹیوب ویل اور ٹریکٹر دینے کی مہم کا آغاز کیا جائے۔
نہ یہ کہ عام لوگوں کو قرضوں کی سہولت دے کر محدود راستوں پر چلنے کا درس دیا جائے اور پھر وہ لوگ ان قرضوں سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہ کر سکیں گے۔ اور آخری انجام ان قرضوں کا وہی ہوگا جو "یلوکیب" منصوبے کے ساتھ ہوا۔ ملک کا پڑھا لکھا اور باشعور طبقہ کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے مشکل موسمی حالات میں وقت گزارنے پر مجبور ہے۔ اگر نوجوانوں کو زرعی پالیسی کے تحت پچاس سال کی لیز پر زمینیں اور کاشتکاری کی سہولتیں دی جائیں تو پاکستان دنیا کو زرعی پیداوار اور ان سے بنائے ہوئے غذائی اجزا کو ایکسپورٹ کرنے کے قابل ہوسکے گا۔
پاکستان کا ہزار میل لمبا کوسٹل ایریا یہ اعلان کر رہا ہے کہ ہمارے علاقوں میں ناریل کے بے شمار درخت لگائے جائیں اور ملک کو خوردنی تیل کی پیداوار میں خودکفیل بنانے کے علاوہ کوکونٹ واٹر پروڈکٹس کی ایکسپورٹ بھی کی جائے تاکہ زرمبادلہ کی قلت کم ہو۔ مگر اس کے لیے پانچ سال کی شدید مشقت اور جانفشانی کی ضرورت ہے جب کہ ان پنج سالہ پروجیکٹ کے علاوہ ایسی شجرکاری کی جائے جن کی بلوغت میں سال چھ ماہ کا وقت درکار ہو۔
اس سلسلے میں ہر صوبے کے کسانوں سے رابطے کیے جائیں اور زرعی کانفرنسوں کا انعقاد بھی کیا جائے پاکستان میں موجود زرعی یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور گاؤں گوٹھ کے قدیم ماہر کاشتکاروں کو منظم کرکے زرعی تحریک کا آغاز کیا جائے۔ نہ یہ کہ تمام تر قوت امدادی رقوم کے حصول پر خرچ کی جائے اور پھر ملک میں قرضوں کا جال بچھایا جائے۔ آج کے ترقی یافتہ ممالک میں ملائیشیا کیوں کر آگے ہے۔ کیونکہ ان کے پھلوں کے باغات سطح زمین سے لے کر پہاڑوں تک پر موجود ہیں۔ کیلا اور ناریل عام آدمی کو خریدنے کی ضرورت نہیں۔
پاکستان کا بیشتر زرمبادلہ خوردنی تیل اور چائے کی درآمد پر خرچ ہوتا ہے۔ سروے کرنے کے بعد دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے کن علاقوں میں چائے کے باغات لگائے جاسکتے ہیں۔ لہٰذا اپنے ملک کو اگر ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں کھڑا کرنا ہے تو ایک طرف ٹریکٹر اور کار کی انڈسٹری ہو تو دوسری جانب فوڈ انڈسٹری، تو پھر ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ پاکستان خود ایسی کانفرنس منعقد کرے گا جو ایشیائی ممالک کے لیے اپنا رہنما ثابت ہوں گی۔