کوئی بہت دور کی بات نہیں کورونا کی آمد آمد تھی اور طلبا کے حقوق کی بحالی یعنی اسٹوڈنٹس یونین کی واپسی کی باتیں اسمبلیوں میں ہو رہی تھیں۔
ایسے موقع پر چالیس برس بعد طلبا سڑکوں پر آئے اور اپنی یکجہتی کو دیکھ کر اپنے نظریات کے واشگاف رنگین نعرے لگائے خصوصاً پنجاب میں جس پر انھیں لاٹھیوں کی زد پر رکھا گیا۔ وہ کوئی انقلاب نہیں لا رہے تھے نہ ہی حکومت کو سبکدوش کرنے کی باتیں کر رہے تھے۔ پھر بھی ان کے خلاف مقدمات بنائے گئے۔ یہ تو کہیے کہ کورونا کی وبا نے ہر چیز کو ملیامیٹ کردیا جس کی زد میں طلبا بھی آگئے۔
ایسے موقع پر یہ صرف سندھ حکومت تھی جس نے جنرل ضیا الحق کی جاری کردہ شرع کو اپنے آئینی طریقے سے ختم کردیا۔ اس پر سندھ حکومت اور خصوصاً ان کے مشیر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کو مبارک باد دینی چاہیے کہ انھوں نے وزیر اعلیٰ کو اعلیٰ مشاورت سے نوازا۔ کیونکہ دنیا بھر میں جب تھنک ٹینک نشست فرماتے ہیں تو ہر ملک کی جمہوریت کا تجزیہ وہ وہاں کے سماجی قوانین کو مدنظر رکھ کر کیا کرتے ہیں۔ جن میں آزادی اظہار رائے، طلبا اور لیبر کے حقوق اور ایسی ہی بہت سی چیزیں زیر غور آتی ہیں۔
طلبا یونینوں کی منسوخی ایک ایسا غیر جمہوری قدم ہے جس سے پاکستان کی جمہوریت پر داغ نظر آتا ہے۔ آپ ذرا غور تو کیجیے کہ بھارت میں جو ظالم جمہوری حاکم ہے اس نے بھی اسٹوڈنٹس یونین کو مجروح نہ کیا۔ حالانکہ ان دنوں جب بھارت کے مسلمانوں پر مظالم ہو رہے تھے تو بھارت کی ایک بہت بڑی اقلیت جو مسلم کہی جاتی ہے جب اس پر ضرب ماری گئی تو کسی مسلم حلقے سے بھی کوئی آواز نہ اٹھی۔ قدرت کا کھیل دیکھیے کہ ہندومت کے پجاری جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی کے سابق صدر کنہیا کمار نے بھارتی مسلمانوں کو جگانے میں اہم کردار ادا کیا پھر جا کے کہیں بھارت کے ہر شہر سے مسلمان طلبا اور طالبات سڑکوں پر اپنے سروں کا نذرانہ پیش کرنے نکل پڑے۔
یہ تحریک اتنی مضبوط ہوئی کہ مودی لرزہ براندام ہوگئے اور وہ سرمایہ دار جو ان کو اقتدار میں لائے تھے وہ بھی سوچ میں پڑ گئے۔ کیونکہ ان کے سکے کی قیمت بھی اور ایکسپورٹ بھی بے حد متاثر ہوئی۔ کیونکہ عربستان جہاں پر مودی کی جے جے کار ہوئی تھی وہاں بھی ان کی حقیقت نمایاں ہوگئی۔
کیونکہ ان کا وہ کردار جو مسلم کُش تھا عرب دنیا کو اس کا علم ہی نہ تھا۔ بھارتی طلبا نے انٹرنیٹ کے ذریعے شہنشاہوں کو آگاہ کیا کہ تم لوگ اس سانپ کو دودھ پلا رہے ہو جو بھارتی مسلمانوں کو ڈس رہا ہے۔ ابھی یہ تحریک زوروں پر تھی شاہین باغ میں ان عورتوں نے ڈیرے ڈالے جنھوں نے بیرون دلی کچھ نہ دیکھا تھا مسلمانوں کی یہ تحریک اتنی مضبوط ہوچکی ہے کہ اب اس کو کوئی زبر بھی زیر نہیں کرسکتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نوجوان کسی ملک کا بھی ہو اس کا دل پاک صاف ہوتا ہے اور وہ حق کو حق کہتا ہے۔ پاکستان میں چالیس برس سے جو حکومتیں آتی جاتی رہیں۔ ان میں جمہوریت تو تھی مگر جمہوری روح کے اجزا موجود نہ تھے۔
جمہوری روح کے جو اجزا ہیں وہ اول راست گوئی، دوم بروقت حق کا مظاہرہ، سوم عوام کی مشکلات کو دور کرنا، یہ سب ایک لیڈر کا کام ہے خواہ یہ اسٹوڈنٹ لیڈر ہو یا عوامی لیڈر۔ بلکہ عوامی لیڈر کو تو اسٹوڈنٹ لیڈر سے کہیں زیادہ پاک باز اور جرأت آموز ہونا چاہیے۔ مگر گزشتہ چالیس برس سے حکومتیں تو آتی رہیں مگر جرأت آموز سخن ور سامنے نہ آئے کچھ دنوں کے لیے بینظیر ضرور آئی تھیں مگر دروغ گویوں نے ان کی آواز کو بندوق کی نالی سے مٹا دیا۔ تب سے ایک سناٹا ہے۔
نواز شریف کئی مرتبہ تاجدار حکومت بنے مگر انھوں نے بھی جمہوریت کی روح کو پابہ سلاسل رکھا۔ ایسا لگا ان کو نامزد کرنے والا شرع و آئین کا پاسدار ہے۔ نواز شریف کو جس قدر مواقع میسر آئے انھوں نے جمہوری راہوں پہ عوام کو گامزن نہ کیا۔ بلکہ بچوں کی طرح انھیں کھلونے دے کے خوش کیا۔ شاہراہیں بنوائیں، پھول لگائے، مگر پنجاب میں کوئی انڈسٹریل زون نہ بنایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کراچی کی نصف مزدور آبادی جنوبی پنجاب کی ہے۔
یوں تو یہ ایک المیہ رہا ہے کہ کسی لیڈر نے بھی جنوبی پنجاب کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا۔ محض سامان کی جلد ترسیل سے ملک میں عوام کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ جب سامان ہی نہ ہوگا تو عوام کی تفریحات کے علاوہ کوئی اور کام نہ ہوگا۔ جس سے ملک کی ترقی ممکن نہ ہوگی محض قرضوں کا بوجھ عوام کو کمزور تر کرتا رہے گا۔
بات ہو رہی تھی اسٹوڈنٹس یونین کی بحالی کی یہ طلبا کا ہی بڑا طبقہ ہوتا ہے جو عوام میں بے داری اور شعور پیدا کرتا ہے۔ گزشتہ چالیس برس سے تو محترم ضیا الحق کے ترانے سن رہے ہیں، ان کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ طلبا یونینیں بحال کردیتے۔ چند طلبا کی غلطیوں سے پورے طلبا کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
آج پاکستان میں جہاں نت نئی مصنوعات کا فقدان ہے وہاں لیڈرشپ کا بھی فقدان ہے۔ لے دے کر محض ایک لیڈر اس وقت پاکستان میں ہے خواہ وہ کم مقبول ہو یا زیادہ اس کا نام عمران خان ہے۔ مگر یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ عمران خان نے کئی برس معراج محمد خان کے ساتھ گزارے ہیں۔ وہ ابتدا میں جہاں جاتے تھے معراج ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ خدا کرے کہ ان کی عمر طویل ہو مگر ان کے بعد کوئی لیڈر نظر نہیں آتا۔ جو بھی ہیں وہ علاقائی رہنما ہیں۔ اپنی زبان اور بیان کے اردگرد ہی گھوم رہے ہیں۔ سنا ہے کہ جنوبی پنجاب کو پی ٹی آئی ترقی پذیر بنا کے رہے گی مگر یہ وقت کب آئے گا کہیں ایسا تو نہیں کہ "آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک۔"
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شجرکاری کی مہم جو حکومت کا ایک اچھا عمل ہے اس کے بعد مویشیوں کی افزائش کوئی جامع منصوبہ ان کی کابینہ پیش کرتی تاکہ جنوبی پنجاب میں بھیڑ بکریوں اور دودھ دینے والے جانوروں کا اژدھام ہو جاتا۔ جنوبی پنجاب پر اگر توجہ دی جائے تو یہ حصہ پوری دنیا کو مکھن اور خشک دودھ ایکسپورٹ کرسکتا ہے۔
مگر فی الحال یہ ہو رہا ہے کہ جنوبی پنجاب کے باشندے کراچی آکر پارٹ ٹائم نوکریاں کر رہے ہیں۔ یہاں بھی ان کی کارکردگی اچھی نہیں۔ اس لیے وہ ترقی نہیں کرسکتے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ تو درختوں کے سائے میں جوان ہوئے ہیں ان سے الیکٹریکل اور مکینکل کام کیونکر خوبصورتی سے ہو سکتا ہے۔ اس لیے ضروری تو یہ تھا کہ جنوبی پنجاب میں نہ صرف یہ کہ کھیتی باڑی کی منصوبہ بندی کی جائے بلکہ وہاں پر ابتدائی طور پر زرعی اسکول قائم کیا جائے جو وہاں کے لوگوں کو ایسی پیداوار کی ترغیب دے جس کی دنیا میں زبردست ڈیمانڈ ہو اور خود ملک کے لوگ ان کی پیداوار سے کم داموں میں استفادہ کرسکیں۔
مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ مین روڈ پر بسے ہوئے گاؤں جو احمد پور شرقیہ سے شروع ہوتے ہیں جن کے زیادہ تر لوگ کراچی میں رکشے چلا رہے ہیں اور ان کی عورتیں جو کھیتوں کی رانیاں ہوتی تھیں کراچی میں گھروں میں کام کر رہی ہیں مگر وہ بھی مستقلاً نہیں۔ کیونکہ ان کے ناتے اپنے گاؤں سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہی حال فیکٹری کے مزدوروں کا بھی ہے کہ جب کپاس کی فصل چننے کا وقت آتا ہے تو وہ چھٹی لے کر گاؤں چلے جاتے ہیں۔
اس طرح پاکستان کی صنعتی اور دیہی ترقی ماند پڑتی جا رہی ہے۔ مگر یہ سب کون کرسکتا ہے۔ ایسا لیڈر جس کو دیہی اور شہری ترقی کے اسباب سے واقفیت ہو۔ لیکن پاکستان میں تو لیڈرشپ کا راستہ ہی بند کر دیا گیا ہے۔ صرف کروڑوں روپے خرچ کرنے والے لوگ اسمبلی کے رکن بن سکتے ہیں۔ جو اپنی خرچ کی ہوئی رقم کو منافع کے ساتھ واپس لینے میں کوشاں ہوتے ہیں۔ ان کو دیہی یا صنعتی ترقی سے کیا واسطہ۔
زمینوں کی تقسیم تو بعد کی بات ہے۔ اول تو اس ٹیم کو بنانے کی ضرورت ہے جو فیصل آباد کی طرح زرعی یونیورسٹی نہیں بلکہ بہاولپور میں زرعی انسٹیٹیوٹ ہی بنا دیا جائے تو علاقے کا رنگ ہی بدل جائے گا۔ ورنہ پاکستان مزید قرضوں کے بوجھ میں دبتا چلا جائے گا اور ہو سکتا ہے خدانخواستہ کوئی ایسا قرض خواہ روبرو نہ آجائے جو ہمارے ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہو۔