دس اکتوبر 1968کو پولو گراؤنڈ کراچی میں ایوب خان کی تقریبات کا جشن منایا جا رہا تھا اور بعض اعتبار سے منایا جانا بھی جائز تھا، کیونکہ ملک صنعتی ترقی کے راستے پر چل پڑا تھا۔
اس کے علاوہ ملک میں دو عظیم الشان ڈیم منگلا اور تربیلا بھی بن چکے تھے اور اگر کمی تھی کسی بات کی تو وہ انسانی حقوق جمہوریت اور آزادی کی تو اس پروگرام کو نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے جانباز کارکنوں نے تہس نہس کر دیا۔ یہی وہ دن تھاجس کو تاریخ میں بھلایا نہ جا سکے گا، کیونکہ یہ ایک مضبوط اور جابر حکومت کے جشن کا روز تھا۔
جس کو حکومت وقت نے ڈیکوراما کا نام دیا تھا۔ اس پروگرام کو ٹھکانے لگانے کا فکری اور عملی مظاہرہ معراج محمد خان اور اس وقت کے طالب علم رہنماؤں کا کارنامہ تھا۔ ابھی ڈیکوراما کو برباد ہوئے آٹھ دن بھی مشکل سے گزرے تھے کہ امیر حیدرکاظمی نے آدم جی کالج میں آل پارٹیز اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کا اجلاس طلب کیا، جس میں شہر بھر کے کالجوں کے صدور اور جنرل سیکریٹری حضرات کے علاوہ مختلف چھوٹی بڑی طلبا تنظیمیں بھی شریک ہوئیں اور یہ طے کیا گیا کہ اگلے ہفتے جیکب لائن کی جامع مسجد سے اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کا جلوس نکلے گا۔
یہ جمعہ کا دن ہو گا اور اس جلوس کا خیرمقدم تحریک بیداری طلبا کے صدر مسٹر سلیم جہانگیر کریں گے۔ جہاں سے یہ جلوس ایم اے جناح روڈ سے گزرتا ہوا حکومتی اداروں پر دباؤ ڈالے گا اس جلوس میں لگ بھگ پچاس ہزار طلبا اور عوام شریک ہوئے جس نے ملک میں جمہوریت کا نیا چراغ جلا دیا۔ اس کے بعد ملک بھر میں طلبا کے چھوٹے اور بڑے مظاہرے ہوتے رہے۔ واضح رہے کہ این ایس ایف کا جھکاؤ ذوالفقار علی بھٹو کی سمت تھا مگر چونکہ مکمل طور پر پیپلز پارٹی منظم نہ ہوئی تھی۔ اسی لیے بھٹو صاحب این ایس ایف کو ہی اپنا خاندان اور پارٹی سمجھتے تھے اور کارکن بھی ان سے ایسی ہی عقیدت رکھتے تھے، وقت گزرتا گیا تحریک چلتی گئی۔
پیپلز پارٹی اپنی شکل و صورت میں عوام تک آن پہنچی۔ طلبا اس کے لیے تن من دھن کی بازی لگاتے رہے۔ پورے ملک میں طلبا تنظیم سرگرم عمل ہو گئی۔ کراچی سے لے کر آزاد کشمیر، گلگت اور بلتستان تک طلبا سرگرم عمل تھے۔ پشاور میں ڈاکٹر قمر عباس اور پنجاب سے لے کر آزاد کشمیر تک این ایس ایف رشید گروپ کے صدر حسام الحق تنظیمی بازی لے کر مظاہروں میں سرفہرست رہے۔ جب کہ سندھ میں سندھ این ایس ایف نے جام ساقی کی قیادت میں گاؤں گاؤں آزادی کا چراغ جلایا اور کراچی کی بات ہی الگ۔ یہ تو جوالا مکھی کا دہانہ تھا۔ جہاں طلبا جیل کی سلاخوں میں جانے کو فخر سمجھتے تھے۔
بات اب تک مودی کی نہ ہوئی۔ بس ہونے کے قریب ہے۔ اس طویل تمہید کا تذکرہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ مودی کی حکومت ایوب خان کی حکومت سے بھی زیادہ مضبوط نظر آتی ہے۔ چار دانگ عالم میں اس کا شہرہ تھا کہ اس نے دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت کی پاسداری کر رکھی ہے جو ایک فریب سے کم نہ تھا۔
یہ جمہوریت کا المیہ ہے کہ اگر اس میں تسلسل سے تنوع اور عوامی حقوق کا جال نہ بچھایا جائے تو لوگ ووٹ ڈالنے کو ترجیح نہیں دیتے اور ووٹروں کی تعداد کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ایسا بھی وقت آتا ہے کہ ستر فیصد لوگ گھر بیٹھے رہتے ہیں اور تیس فیصد لوگ ستر فیصد کے حاکم بن جاتے ہیں۔ اس گرداب سے بچنے کے لیے ماؤزے تنگ نے ہر چند برسوں کے بعد ثقافتی انقلاب کو برپا کرنے کا درس دیا تھا، جو وقت کے دھارے میں کہیں رہ گیا اور یہی تیس فیصد لوگ ستر فیصد پر آمرانہ حکم چلانے لگتے ہیں۔
بات موضوع سے ہٹتی چلی جائے گی، صرف یہ کہنا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو جو قوتیں برسر اقتدار لائی تھیں۔ وہ سب کی سب خالی ہاتھ ہیں۔ معراج جا نشین نہ رہے۔ اور ان کے ساتھ بھی۔ رشید گروپ کے حسام الحق جنھوں نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ ٹھکرا دی اور مصطفیٰ کھر وزارت اعلیٰ پر فائز ہوئے۔ جو حضرات نظریات کو تھامے رہے ان کے پاس اب نظریہ بھی سو گیا۔ وقت پر طاقت کی گرفت ضروری ہے۔ ورنہ یہ تیس پینتیس فیصد والے حاکم عوام کو اپنا غلام سمجھنے لگتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ بھارت میں بھی ہوا ہے۔
اس نے پہلے کشمیر کو ٹیسٹ کیس بنایا کہ وہ پورے بھارت کو اپنے نظریات کا بندھی بناکر اور مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بناکر رکھے گا مگر وہاں بھی اللہ کے بندے موجود ہیں جنھوں نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں آزادی کا بگل بجا کر وہی کام کیا جو کبھی پاکستان میں ماضی کے صفحات پر ہوا۔ پاکستان میں آزادی کی تحریک اکتوبر 1968 سے شروع ہوئی مگر بھارت میں جو تحریک شروع ہوئی ہے وہ دسمبر 2019 کی ابتدا تھی۔ جس میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے صدر کنہیا کمار نے سب سے پہلے دلی شہر میں کشمیریوں پر مظالم کا تذکرہ کیا اور مسلمان قوم کو سوتے سے جگا کر کہا کہ یہ ان کا وقت آخر ہے۔ اگر اب بھی نہ کھڑے ہوئے تو تم کو کیمپوں میں رکھ کر غیر ملکی ڈکلیئر کر دیا جائے گا۔
یہی تھا بھارت کی تحریک کا نکتہ آغاز۔ یہاں پر مسٹر مودی گجرات کا ہندو مسلم کھیل نہ رچا سکے کیونکہ اس کھیل کو تو آزاد خیال ہندو نوجوانوں نے پشتوں کی محبت کے عوض ترک کر دیا اور وہ تقسیم ہند کے بنائے گئے آر ایس ایس کے نعرے فراموش کر بیٹھے۔ وہ 1857کی مشترکہ جنگ آزادی کی راہ پر چل پڑے۔ اس وقت بھارت میں جلیانوالا باغ کی کیفیت نہیں ہے بلکہ شاہین باغ دلی میں بیٹھی ہوئی چار ڈگری سرد ہواؤں کی لپیٹ میں بیٹھی ہوئی عورتیں موجود ہیں۔
وہ عورتیں جنھوں نے شادی کے بعد کبھی گھر سے باہر قدم نہیں نکالا، پورا ہندوستان کیا ہندو کیا مسلمان۔ مودی کے نئے شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج میں شریک ہیں۔ مخالف جماعتوں کو بھی مودی کو دبانے کا ایک نایاب موقع مل گیا ہے۔ ملک کے ستر سے زائد شہروں میں احتجاج ہو رہا ہے اور جیسے جیسے سردی کی شدت میں کمی ہو گی ماحول کی حدت میں اضافہ ہو گا۔ اجتماعات مزید وسیع ہوتے جائیں گے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ جس طرح دور ایوبی میں پانچ ماہ تک تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے تھے ایسا لگتا ہے کہ بھارت میں اس سے بھی کہیں زیادہ ہونے کو ہے۔ موجودہ سرد ہواؤں کی لپیٹ میں حیدرآباد دکن سے لے کر پونا تک احتجاج ہی احتجاج ہے۔
مسٹر مودی نے ان دنوں یہ بھی کوشش کی کہ وہ بنگال جا کر اپنا مدعا بیان کریں اور بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کریں مگر وہاں کی جنتا نے تو ان کو سڑک بھی پار نہ کرنے دی۔ اس طرح وہ مایوسی کے دلدل میں گھرے جا رہے ہیں۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ ان کی حلیف بنگلہ دیش کی وزیر اعظم کو بھی اتنی جرأت دکھانی پڑی کہ انھوں نے موجودہ شہریت کے متنازعہ قانون کو غلط اور عوام دشمن اور سیاہ قانون قرار دیا ہے۔ بقول حسینہ واجد کے اس قانون میں تعصب اور مذہبی تناؤ کی آمیزش ہے۔
دسمبر سے پہلے کی بات ہے کہ مودی سرکارکا عالم میں نہایت عمدہ چرچا تھا۔ امارات میں نئے مندر تعمیر کیے جا رہے تھے امریکا میں اخبارات ان کی کرنسی اور معاشی پالیسی کے گن گا رہے تھے۔ مگر اب یہی بھارت ہے کہ جس کے منفی رویوں کو اجاگر کیا جا رہا ہے اور ان کی فرقہ وارانہ سوچ کوگارجین، نیویارک ٹائمز اور دوسرے اخبارات جو ماضی میں ان کی پذیرائی میں مصروف تھے اب ان سے دور ہٹتے جا رہے ہیں۔ اور ان کے نسلی موضوعات پر روشنی ڈال رہے ہیں۔
بلکہ یہ کہا جائے تو بالکل درست ہو گا کہ بھارتی نوجوان جو امریکا میں تعلیم کی غرض سے مقیم ہیں اور ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا وہ بھی پاکستانی طلبا کے ساتھ اس نسلی قانون کی ہجو میں مصروف ہیں۔ اس وقت اگر یہ لکھا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ چند ماہ قبل ہمارے وزیر اعظم بھی یہ کہتے رہے ہیں کہ دنیا بھارت کی معاشی ترقی سے مرعوب ہو کر پاکستانی موقف کی تائید نہیں کر رہی ہے۔ مگر اب دنیا نے نئی کروٹ لی ہے اور مسٹر مودی کو مسلم ممالک سے مخالفت کی آواز بلند ہو رہی ہے بلکہ سیکولر ممالک بھی ان کے فرقہ وارانہ انداز کو رد کر رہے ہیں۔
مودی نے پنجاب کے لوگوں پر کاروباری قدغن لگا کر پاکستان کو تو اتنا دکھ نہیں پہنچایا ہے جتنا مشرقی پنجاب کے کسانوں کو پہنچا ہے۔ وہ زبردست معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ ان کی اناج اور سبزیاں پاکستان میں اچھے داموں فروخت ہو رہی تھیں۔ لہٰذا حکومتی سطح پر پاکستان کو چاہیے کہ وہ مودی کے عمل کو منتشر کر دے کیونکہ یہ معاملہ بھارتی حکومت کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس طرح بھارتی سرحدی شہریوں کو سکون میسر ہو گا اور مودی کا زعم بھی خاک میں ملے گا۔ اس مسئلے کو حکومت اپنی دوربینی سے ایسے حل کرے کہ کوئی قومی یا بین الاقوامی مشکلات پیدا نہ ہوں بہرحال موجودہ بھارتی صورتحال ایسی نہیں کہ بھارت زیادہ عرصے اس قانون کو عمل میں لاسکے اور اپنا ماضی کا بین الاقوامی شبیہ برقرار رکھ سکے۔
بھارتی صنعتکار ابھی سردیوں کے مظاہروں پر نظر رکھے ہوئے ہیں، مگر جوں جوں حرارت بڑھے گی مظاہروں میں بھی شدت آ جائے گی اور مودی کی حکومت اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائے گی۔