Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Naqshe Badal Rahe Hain

Naqshe Badal Rahe Hain

دنیا بڑی تیزی سے نئی کروٹ لینے کو ہے۔ جدید دور نیوکس ایرا کہلائے گا۔ یعنی چیزیں اپنے آپ کو ضرب دے رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی انتخابات کے بعد کوئی نئی ہیئت لیے ہوئے ممالک سامنے آنے کو ہیں۔

یہ نئے ضرب اور تقسیم نئے مضراب کی کہانی ہے جس میں اسرائیلی اور امریکی کردار نمایاں نظر آسکتا ہے۔ رہ گیا یہ کہ موجودہ امریکی انتخابات میں کون سی پارٹی جیتتی ہے اس سے امریکی فارن پالیسی پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ البتہ پاکستان کو بہت سوچ سمجھ کر ان حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ کیونکہ شرق اوسط میں بھی ہلچل نظر آرہی ہے۔ ترکی کی جانب سے کوئی نیا سیاسی لائحہ عمل سامنے آسکتا ہے۔

ایسی صورت میں پاکستان کو چوکس اور چوکنا رہنا ہو گا۔ جب کہ حزب اختلاف اس موقع کو بہترین موقعہ سمجھ کر اپنا لائحہ عمل تیار کرے گی۔ دراصل جو کچھ سیاسی مشکلات شرق اوسط میں پیدا ہونے کے امکانات ہیں ایسے میں پاکستان کو شدید امن کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ حزب اختلاف اپنا کردار ترک کر دے بلکہ اسے ملک کی یکجہتی پر نظر رکھنی ہو گی۔

اس موقع پر چین اور ایران کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہو گا اور اسرائیل لابی اس موقع کی بڑی اہمیت سمجھتے ہوئے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتی ہے۔ لہٰذا پاکستان میں مذہبی امن پسندی کی شدید ضرورت پیدا ہو گی اور ہر قسم کی فرقہ واریت ملک کے استحکام کے لیے منفی کردار بن سکتی ہے۔ کیونکہ ان دنوں فاروق عبداللہ کو بھارتی حکومت نے دوبارہ نظر بند کر دیا ہے اور ان پر ملک دشمنی کا الزام لگایا گیا ہے کیونکہ انھوں نے چند ماہ قبل یہ کہا تھا کہ چین اگر کشمیر میں مداخلت کرتا ہے تو انھیں اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کم و بیش محبوبہ مفتی کا بھی یہی انداز ہے۔

بھارت سعودی عرب سے 33 بلین ڈالر کا کاروبار کرتا ہے۔ جب کہ ہم صرف 1.8 بلین ڈالر کا۔ بھارت اس بیوپار میں معمولی نوعیت کی چیزیں ہی سعودی عرب کو دے رہا ہے جن میں کپڑا، کاٹن، چاول، ریڈی میڈ گارمنٹس اور موٹر پارٹس شامل ہیں۔ جب کہ پاکستان کے تعلقات سعودی عرب سے بے انتہا دوستانہ اور عسکری معاونت کے ہیں۔

پاک سعودی تعلقات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی وزارت تجارت اپنے ان تعلقات کو تجارتی مقاصد کے لیے زیادہ بہتر طور پر استعمال کرنے میں نمایاں نہیں ہے دوسری طرف بھارت بھی کوئی الیکٹرانک آلات کا کاروبار نہیں کر رہا جب کہ پاکستان بھی سعودی عرب سے یہ تجارت کر سکتا ہے کیونکہ پاکستان کی کاٹن انڈیا سے اعلیٰ ہے۔ لیکن پاکستان نے محض امدادی سرگرمیوں تک ہی خود کو محدود کر رکھا ہے۔

جب کہ پاکستان چاہے تو بڑے پیمانے پر سعودی عرب میں اپنی مصنوعات کا ٹریڈ میلہ سجا سکتا ہے۔ اسی طرح جتنے بھی عرب ممالک ہیں اپنی سیاسی و مذہبی وابستگی کے ساتھ ساتھ تجارتی معاملات کو بھی آگے بڑھا سکتے ہیں کیونکہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی تجارت کا حجم بہت کم ہے۔ اس کام پر حکومت پاکستان کو چاہیے کہ کسی قابل اعتماد سیاسی کارکن کو یہ کام سونپ دیا جائے نہ کہ محض ہر وقت امداد کے لیے ہی کوشاں رہتے ہیں۔

پاکستان کے ٹاول مینوفیکچرر دنیا کے بہترین مینوفیکچررز میں سے ہیں ان کے تولیے مغربی یورپ اور امریکا کے ہوٹلوں میں خریدے جاتے ہیں۔ کیونکہ پاکستانی کاٹن دنیا کی جاذب ترین کاٹن میں سے ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ چند ایکسپورٹر اپنے خریداروں کو تو ایکسپورٹ کر رہے ہیں مگر نئے آپشنز پر غور نہیں ہے اور نہ ہی کام میں وسعت ہے۔

پاکستان کے ایکسپورٹرز کا ایک المیہ یہ ہے کہ وہ ٹائم فریم میں اپنے مال کو ایکسپورٹ نہیں کر پاتے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان کی فنی تربیت اور ان کے پروڈکشن سیمینارز پر توجہ دے۔ پاکستان کا کاٹن اگر دیکھا جائے تو وہی پاکستان کی چاندی ہے۔ لیکن اس ٹریڈ میں روایتی اور پرانے خاندان جو اس کام کو کر رہے ہیں وہی اب تک اس کو چلا رہے ہیں۔

ٹیکسٹائل سیمینار اور فیشن شو برائے نام ہے بلکہ رفتہ رفتہ پاکستان میں یہ ختم ہو رہے ہیں جب کہ بیرونی ممالک بشمول بھارت کے جو فیشن شوز میں آج بھی نمایاں ہے مگر پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ ٹیکسٹائل ٹریڈ میں پڑھا لکھا طبقہ کم ہی شامل ہے۔ ڈیزائننگ، مارکیٹنگ اور فیشن شو نامی انڈسٹریز چند کے علاوہ خال خال ہی ہیں۔

گزشتہ دو دہائیوں میں کئی فیشن گارمنٹ انڈسٹریز آگے بڑھیں، لیکن قدامت پرستی نے فیشن ٹریڈ کو محدود حلقے تک ہی روا رکھا۔ اب موجودہ حالات میں معاشی وجوہات کی بنا پر ٹریڈ اور فیشن انڈسٹری کو خاصا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

را مٹیریل اور فنشڈ گڈز پر جی ایس ٹی نے نئے انویسٹر کی آمد کو روک دیا ہے۔ جیساکہ اوپر کی سطور میں بیان کیا گیا ہے کہ نقشے بدل رہے ہیں تو سب سے اہم بات یہ ہے کہ ماضی کا ترکی ایک بار پھر ماضی کی پوزیشن میں آنا چاہتا ہے۔ طیب اردگان نے ترکی کی ٹریڈ اور انڈسٹری کو بے تحاشا فائدہ پہنچایا ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ شاید یہ ترکی ہی ہو جو ترقی میں کہیں آگے نکل جائے۔

وہ آرٹ اور سائنس کو ملا کر ماضی کے ترکی کی حیثیت حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے۔ کاروباری دنیا کے لوگ یہ بتاتے ہیں کہ جہاں ترکی ٹریڈ اور انڈسٹری کے شعبوں میں آگے بڑھتا جا رہا ہے وہیں وہ ٹیکسٹائل کی صنعت میں بھی اپنے قدم جما رہا ہے۔ ترکی کی بنی ہوئی جانمازیں دنیا بھر میں نمایاں مقام حاصل کرچکی ہیں۔ جب کہ سیاسی محاذ آرائی میں بھی ترکی نمایاں حیثیت کا حامل رہا ہے۔ اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جلد ہی ترکی جدید سلطنت عثمانیہ کے رنگ میں ابھرنے والا ہے۔

اسلام کی لیڈر شپ میں ترکی آگے آنے کا خواہشمند ہے۔ وہ نیٹو کا رکن ہونے کے باوجود اسلامی دنیا میں ملیشیا کے ساتھ مل کر مختلف انداز میں اسلامی ممالک کی لیڈر شپ کی طرف گامزن ہے۔

ترکی ایران سے بھی بعض معاملات میں اختلافات رکھتا ہے، جس کا اندازہ آذربائیجان سے دوستانہ تعلقات میں اضافہ کرکے وہ ایران کے مدمقابل آنے سے گریزاں نہیں ہے۔ اس کا اندازہ آرمینیا اور آذربائیجان کے تصادم سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔

طیب اردگان ایک ابھرتی ہوئی طاقت کی حیثیت سے اپنا جلوہ دکھا رہے ہیں۔ اور وہ اپنے ملک میں کس قدر مضبوط ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے نیٹو کی طرف سے کی گئی فوجی بغاوت کو پسپا کر دکھایا فوجی محاذ کے علاوہ وہ آرٹ اور ادب کے محاذ پر بھی مختلف فلموں اور ڈراموں کی تشکیل کے ذریعے آگے بڑھنے میں مصروف ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ترکی ماضی میں کیا تھا اور حال میں اس کو کیا ہونا چاہیے۔

اس طرح ترکی کے عوام میں نئی روح پھونک رہے ہیں۔ ترکی کی موجودہ روش سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نیٹو کی رکنیت کے باوجود اپنا آزادانہ کردار ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ کیونکہ اس نے حالیہ دنوں میں روس سے بھی فنی اور کاروباری معاہدے کیے ہیں جب کہ نیٹو کے دوسرے ممالک جن میں جاپان اور جرمنی شامل ہیں ایسی آزادانہ روش حاصل کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رجب طیب اردگان میں لیڈرشپ کی اعلیٰ صلاحیتیں موجود ہیں۔ وہ پاکستان کی طرف بھی اچھی اور دوستانہ صلاحیت میں اضافہ کرنے کے لیے پاکستانی حکومت سے بہتر تعلقات بنائے ہوئے ہیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ طیب اردگان برابری کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں۔ گزشتہ تقریباً ایک دہائی کے قریب ہونے کو ہے کہ اردگان نے کسی ملک سے امدادی پیکیج حاصل نہیں کیا اور اب ترکی اس محاذ پر آگیا ہے کہ وہ تیسری دنیا کی ابھرتی ہوئی قوت کے طور پر پہچانا جا رہا ہے۔ لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ سعودی عرب اور ترکی دو مختلف راہوں پر گامزن ہیں۔

ایسی صورت میں پاکستان کو یقیناً غیر جانبدار ملک کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بلکہ اگر ہو سکے تو مسلم ممالک کو ہر قسم کی محاذ آرائی سے دور لے جانا ہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔ کیونکہ محاذ آرائی کی شکل میں ملکوں کے نقشے بدل رہے ہیں۔ یہ حقیقت دوسری عالمی جنگ کے بعد نمایاں نظر آتی ہے۔