Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Sindh Assembly Ki Tareekh Saaz Qarardad

Sindh Assembly Ki Tareekh Saaz Qarardad

25 نومبرکو ایک ایسی اطلاع نوجوانوں کو دی گئی، جس سے ان میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ جس کا شور و غل فیضؔ میلے میں سنا گیا۔ اس میں وہ نعرے لگ رہے تھے جو 1968-70 اور ضیا الحق کے خلاف آخری دنوں میں لگائے جاتے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ چالیس سال سے زیادہ گزرے وقت کو ابھی محض چار دن ہی ہوئے ہیں۔

سندھ اسمبلی میں اس تاریخ ساز قرارداد کو پیش کرنے کی ہمت محترمہ ندا کھوڑو نے دکھائی جس کی بلا تاخیر سندھ میں موجود قائم پارٹیوں نے دل و جان سے حمایت کی۔ ایسا لگا کہ ایک بار سندھ اسمبلی نے پھر یہ ثابت کر دیا کہ صوبہ سندھ فکری طور پر ملک کے دیگر علاقوں سے زیادہ دور رس نگاہیں رکھتا ہے حالانکہ اگر ظاہری طور پر پنجاب کے در و دیوار سڑکیں اور مینار آرائش کاروباری مراکز میں سبقت لے چکا ہے لیکن محترمہ ندا کھوڑو کی جرأت کو سلام۔

جنھوں نے سندھ ڈیموکریٹک الائنس، متحدہ قومی موومنٹ اور تحریک انصاف کو ایک مضبوط اور خوبصورت طاقت بنا کر پاکستانی نوجوانوں کے سامنے پیش کیا۔ جس کا احسان وہ کبھی بھی نہ بھولیں گے اور حریت کے وہ دن جن طلبا نے سترکی دہائی میں لاٹھیاں کھا کے بھی گزارے ہیں۔ وہ آج کی پر سکون آزادی سے کہیں بہتر تھے۔ کیونکہ ترقی کے راستے لامحدود تھے۔ جو گزشتہ چالیس برسوں سے مسدود تھے۔

گزشتہ کئی برسوں سے سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی نے بہت کوششیں کیں مگر نواز شریف کے دور میں مرکز نے اسٹوڈنٹس یونین کی قرارداد کو باضابطہ طور پر منظور نہ ہونے دیا جب کہ ندا کھوڑو صاحبہ کی آواز سے ایسا لگا کہ کچھ بھی ہو، ابھی بھی ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی کی آواز کا پرتو تو ندا جی میں موجود ہے جنھوں نے اس کٹھن اور مشکل راہ کو صوبائی خودمختاری کی راہ سے آزاد کر دیا۔ یہ ایک فکری اور باہمت عمل ہے جس سے ملک کی تمام پارٹیوں کو نئی روشنی تو ملے گی ہی لیکن پیپلز پارٹی کے دامن میں طلبا کی انمول قوتوں کا اثر بھی شامل حال ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ پارٹی اگر کچھ نئے تعمیری قدم اٹھائے تو پھر ایک بار پیپلز پارٹی کو ماضی کی حرارت واپس آن ملے۔

کراچی سے قرارداد کی منظوری نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دکھایا کہ ترقی پسندی کا چراغ ملک میں سب سے پہلے کراچی میں روشن کیا گیا اور اب یہ روشنی ملک کے دیگر صوبوں تک پھیل کر ہی دم لے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ جب کوئی نیا فیشن کسی ملک میں متعارف ہوتا ہے تو سب سے پہلے یہ پوشاک وہاں کے رہنما زیب تن کرتے ہیں۔ سیاست کی یہ پوشاک جو ندا کھوڑو صاحبہ نے سندھ کے رہنماؤں کو دی ہے اور انھوں نے پُرذوق انداز میں متفقہ طور پر زیب تن کی ہے۔ اب پورے ملک میں اس کا چرچا ہونے کو ہے۔

قبل اس کے کہ ہم اسٹوڈنٹس یونین کی بحالی کے فوائد کا تذکرہ کریں اس سے قبل اسٹوڈنٹس یونین کی عدم موجودگی میں اسٹوڈنٹس کمیونٹی نے جو نقصان اٹھائے ہیں اس کا تذکرہ مختصراً کرتے چلیں۔ جناب عالی! ماضی میں کئی بار جنرل ایوب خان کے دور میں یہ کوششیں کی گئیں کہ بی اے، بی ایس سی کے کورس کو دو سال کے بجائے تین سال کا کر دیا جائے مگر یہ اسٹوڈنٹس یونین تھیں جن کی جدوجہد کی بنا پر یہ کورس آج تک دو برسوں پر محدود ہے۔

دراصل کورس کی طوالت کے پیچھے کوئی مخزن علوم نہ تھے بلکہ اس کا مقصد دو سال کے بجائے تین سال کی فیسوں کی ادائیگی مقصود تھی۔ مگر این ایس ایف کے رہنماؤں نے اس عمل کی سب سے پہلے مذمت کی اور دیگر طلبا تنظیمیں جن میں اسلامی جمعیت طلبا بھی تھی اس نے بھی مذمت کی۔ مگر آپ کو یاد ہو گا ابھی حال کی ہی بات ہے کہ ایل ایل بی کو جو دو برسوں کا کورس تھا اس کو پانچ سال میں پورا کرنے کا آرڈر دیا گیا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ وکلا کی انجمنوں نے بھی اس عمل کی مذمت نہ کی، جو کہ خود ایل ایل بی کی اسناد دو سال میں حاصل کر چکے تھے۔

دراصل پانچ سال کا یہ تماشا اس لیے رچایا گیا کہ طلبا دو سال کے بجائے پانچ سال تک تعلیمی اداروں کی فیسیں ادا کریں۔ ایل ایل بی کی کلاسیں عام طور پر شام کو ہوتی تھیں جس میں نوکری پیشہ افراد بھی قانون کی ڈگری حاصل کر کے اپنے اور اپنے خاندان کا معیار زندگی بدل لیتے تھے اور بعض تو ان میں سے نامور وکلا بنے۔ اس پر ستم یہ کہ یہ کلاسیں صبح سے سہ پہر تک کے لیے کردی گئیں۔

گویا یہ ڈاکٹری کی کلاسیں ہیں جو پانچ سال کے دائرے پر محیط ہیں اور اس میں پریکٹیکل بھی ہوگا۔ مگر قانون ایسا علم نہیں جس میں پریکٹیکل کی گنجائش ہو کیونکہ اس میں جرم کا عملی نمونہ ضروری ہوگا۔ لہٰذا ایل ایل بی کی طوالت بس ایک حاکم کا حکم تھا۔ معلوم نہیں کہ ان کے اساتذہ کہاں سے دستیاب ہوں گے۔ کیونکہ ان کی اکثریت تو صبح کے وقت عدالتوں میں گردش کرتی رہتی ہے اور معزز ججز حضرات بھی مقدمات کو نمٹانے میں مصروف رہتے ہیں۔ لہٰذا تعلیمی اداروں میں تو اعلیٰ اساتذہ کا وجود ممکن نہیں۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اب ان تعلیمی اداروں کا معیار کن خطوط پر قائم ہوگا۔

اگر اسٹوڈنٹس یونین موجود ہوتیں تو عجلت میں کیے گئے اقدامات عمل کا مظہر نہ بنتے۔ درحقیقت اسٹوڈنٹس یونین کے نمایندے اپنے کالج کے سینئر اساتذہ اور پرنسپل حضرات سے رابطے میں ہوتے ہیں۔ اور خصوصاً پالیسی میٹر پر اساتذہ خود اپنے کالج کے صدور اور جنرل سیکریٹری حضرات کی آرا کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔ اس طرح سبک روی سے درسی قافلہ مختلف منزلیں طے کرتا ہے۔

تعلیمی میدان کے علاوہ ملک کا سیاسی میدان بھی بڑا اہم ہے۔ پوری دنیا کے جمہوری ممالک میں طلبا یونینیں اپنی گراں قدر خدمات کا مظہر ہوتی ہیں۔ پاکستان تقریباً چالیس برس تک اس شعبے سے کٹا رہا۔ لہٰذا سیاسی میدان میں انحطاط پذیری نمایاں نظر آ رہی ہے۔ جس کے اثرات انتخابات پر براہ راست پڑ رہے ہیں۔ اور اب تو صورتحال ایسی ہو چکی ہے کہ متوسط آمدنی کے علاقوں یا پوش علاقوں کے لوگ جمہوریت میں بمشکل پندرہ فیصد ووٹ ڈالنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔

یا ان علاقوں کے نوجوان طلبا کسی حد تک بیس پچیس فیصد انتخابات کے دوران ایکٹو ہوتے ہیں۔ گویا جمہوری انتخابات کم پڑھے لکھے یا خستہ حال آبادیوں کا ایک کھیل بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک پڑھے لکھے متمول آدمی کا انتخابات میں حصہ لینا آسان نہیں رہا۔ اور اب اس بات کے امکانات پیدا ہو چکے ہیں کہ خدا پاکستان کو اس وقت سے بچائے کہ جب گورنر کی پوسٹ کے لیے بمشکل میٹرک یا انٹر کیے ہوئے افراد دستیاب ہوں گے۔ کیونکہ تعلیم یافتہ افراد نے اپنا راستہ سیاست سے کاٹ لیا ہے۔ وہ سیاست کو کم تر پیشہ تصور کرتے ہیں اور باعزت لوگ اب سیاست سے دور رہنا ہی پسند کرتے ہیں۔

لہٰذا اسٹوڈنٹس یونین کا اجرا ملک کے اس سیاسی خلا کو پر کرنے کے لیے بہتر ہو گا۔ اسی خلا نے انتخابات میں حصہ لینے والوں کی زر کثیر کے ذریعے سیاسی خلا کو پر کرنے کی ریت ڈالی ہے۔ ماضی میں جن اسٹوڈنٹس لیڈروں نے قربانیاں دی ہیں وہ یادگار رہیں گے جن میں ڈاکٹر شیر افضل ملک، علی مختار رضوی، جوہر حسین، فتحیاب علی خان، معراج محمد خان، ڈاکٹر محمد سرور اور دیگر رہنما قابل تعظیم ہیں۔ کچھ لوگ جو کنارہ کش ہوئے ان کی قربانیاں بھی یادگار ہیں۔

ان میں ڈاکٹر باقر عسکری، امیر حیدر کاظمی اور ڈاکٹر رشید حسن خان جنھوں نے موت سے قبل انڈس اسپتال میں اپنا علاج کرانا پسند کیا تا کہ عام آدمی کو کسی رفاہی اسپتال میں علاج کرانے میں خفت محسوس نہ ہو۔ امید ہے کہ سندھ میں اسٹوڈنٹس یونین کی بحالی پھر کراچی کی فضا کو علمی اور ادبی مرکز میں تبدیل کر دے گی۔